تحریر: سید انور محمود
فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں جمعہ 13 نومبر 2015ء کی شب چھ مقامات پر خودکش حملوں اور فائرنگ سے 129 افراد ہلاک اور 100 سے زیادہ زخمی ہوئے۔ اتوار15 نومبر 2015ء کو پیرس کے مشہور نوٹرڈیم کیتھیڈرل میں ایک دعائیہ تقریب منعقد ہوئی جس میں بڑی تعداد میں لوگ شریک ہوئے۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پیرس کے آرچ بشپ کارڈینل آندرے ون ٹورس کا کہنا تھا کہ فرانسیسی دارالحکومت ایک غیر معمولی بربریت کا شکار ہوا ہے۔ انھوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ ان وحشیانہ حملوں کے باوجود نہ خود’مشتعل ہوں اور نہ اشتعال دلائیں’ بلکہ مرنے والوں کو یاد کریں۔
فرانس کے علاوہ ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن میں بھی پیرس کے ہلاک شدگان کی یاد میں ایک تقریب میں ہزاروں افراد جمع ہوئے۔ملک کے وزیر اعظم لارس لوک راسموسین بھی اس تقریب میں شریک ہوئے اور مرنے والوں کی یاد میں شمع روشن کی۔اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ ‘ہمارا سب سے ٹھوس جواب کیا ہو سکتا ہے؟ یہ کہ ہم اپنے انداز سے جیتے رہیں اور اُن سے خوفزدہ نہ ہوں۔ اگر ہم اب ایک کیفے کے باہر بیٹھنے کی ہمت نہیں کرسکتے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم ہار گئے ہیں’۔ پیرس میں ہونے والی دہشت گردی کے اس واقعہ کے بعد پورئے یورپ نے فرانس سے یکجہتی کے لیے فرانس کے صدر فرانسوا اولاند کی قیادت میں پیرس حملوں میں ہلاک ہونے والے افراد کی یاد میں گرینج کے معیاری وقت کے مطابق پیر 16 نومبر 2015ء کو صبح 11 بجے ایک منٹ کے لیے خاموشی اختیار کی گئی۔ اسکے علاوہ فرانس سے یکجہتی کے لیے دنیا کی مشہور عمارتوں کو فرانس کے تین رنگوں سے روشن کیا گیا۔
آپکو یاد ہوگا کہ دو نومبر 2014ء کی شام واہگہ باڈر پر پرچم اتارنے کی تقریب کے بعد دہشت گردوں نے ایک خود کش دھماکا کیا اُسکے نتیجے میں تین رینجرز اہلکاروں سمیت 60 افراد شہید اور 175سے زائد زخمی ہوگئے، جن میں 12خواتین اور7بچے بھی شامل ہیں، لیکن اگلے ہی دن تین نومبر کو پھر تقریب ہوئی، ایک دن پہلے اپنے شہید ہونے والے پاکستانی بہن بھایوں کا غم تھا، لیکن واہگہ بارڈرپرپرچم اتارنےکی تقریب میں ہزاروں شریک پاکستانیوں کے حوصلےبہت بلندتھے، شریک پاکستانیوں میں خواتین اوربچوں کی بھی بڑی تعداد شامل تھی۔ ہزاروں شریک پاکستانیوں کی طرف سے دہشت گردوں کو ایک واضع پیغام تھا کہ کہ دہشت گرد پاکستانیوں کے حوصلے پست نہیں کر سکتے۔ لیکن جسطرح پورا یورپ آج فرانس کے ساتھ کھڑا ہے افسوس ہمارا ایک بھی پڑوسی ہمارئے دکھ میں شامل نہ تھا بلکہ آج بھی وہ ہم پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ ہم دہشت گردوں کو سپورٹ کرتے ہیں۔
ہمارئے ملک میں کچھ لوگوں کی طرف سے یہ کہا جارہا ہے کہ پیرس میں 129 مختلف العقیدہ انسان جوبغیر یہ جانے مرگئے کہ اُن کو کیوں مارا جارہا ہے، اُنکا کوئی سوگ نہ منایا جائے۔ کیوں؟ کیونکہ دہشت گردوں کے ہاتھوں پشاور کے آرمی پبلک اسکول کے 132 بچے اور کینیا گاریسا یونیورسٹی میں ایک 147طلبا کی موت پربین الالقوامی طور پر کوئی غم نہیں منایا گیا تھا۔ عالمی برادری نے غلط کیا تھا لیکن اس سے بھی زیادہ غلط تب ہوگا جب ہم بھی یہ کہیں اور کریں کہ پیرس میں جو بےگناہ لوگ مارے گئےاُنکا کوئی سوگ نہ منایا جائے، پاکستان کی حکومت اور اُسکے عام شہری پیرس والوں کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اس دہشت گردی کے بعد پوری دنیا پر اور خاص طور پر مسلمانوں پر اسکے کیا اثرات مرتب ہونگے؟ تارکین وطن کے شدید مخالف اور ناقد ہنگری کے وزیراعظم وکٹر اور بان کا کہنا ہے کہ تارکین وطن کی یورپی یونین میں تقسیم کے منصوبے پر عمل درآمد کرنے سے دہشت گردی بھی پورے یورپ میں پھیل جائے گی۔ وکٹر اور بان نے یہ بات ہنگری کے اراکین پارلیمان سے خطاب کے دوران کہی۔ جمعے کے روز فرانس میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے کے بعد ہنگری کے اراکین پارلیمان تارکین وطن کی یورپی یونین میں تقسیم کے خلاف ایک قانونی دستاویز تیار کررہے ہیں۔ پیرس کے حملوں میں شریک دہشت گرداپنے حلیوں سے مسلمان دکھائی دیتے تھے، پھر ایک نام نہاد مسلمان لیکن دہشت گرد تنظیم داعش نے ان حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کرلی ہے۔
وہ شامی شہری جو امریکی اور یورپی بمباری سے قبل ایک پرامن زندگی بسر کررہے تھے اب امن و سلامتی کی تلاش میں سمندری سفر میں جان پر کھیل کر یورپ اور امریکا پہنچے ہیں تو انہیں روز ایک سرحد سے دوسری سرحد کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔ اس دہشت گردی کے نتیجے میں پورے یورپ اور امریکا و کینیڈا میں مسلمانوں کے خلاف ایک نفرت کا ماحول پیدا کردیا گیا ہے۔ مساجد پر پابندی کا عمل شروع کردیا گیا ہے۔ روز ایک امریکی ریاست شامی مہاجرین کی آبادکاری کے خلاف قانون نافذ کررہی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس نہ تو کھانے کو روٹی ہے اور نہ ہی سر چھپانے کی جگہ لیکن دہشت گردی کی سزا اُنکودی جارہی ہے۔
تیرہ نومبر کو پیرس میں جو کچھ ہوا اسکے بعد ڈر ہے کہ دوسری عالمگیر جنگ کے بعد تعصب کا سویا ہوا جن دوبارہ نہ جاگ پڑے۔ پورے یورپ میں اس وقت لگ بھگ پونے دو کروڑمسلمان آباد ہیں اور ان میں سے آدھے وہ ہیں جو یورپ میں ہی پیدا ہوئے ۔اب وہ کیا کریں گے؟ پہلے سے زیادہ کڑے امیگریشن قوانین، گدھ کی طرح منڈلاتی ممکنہ بے روزگاری، بسوں، ٹرینوں اور فٹ پاتھوں پرگھورتی آنکھوں اور سماجی تنہائی۔ ایسی کاروائیوں کے ردعمل میں جب یورپ کی مسلمان اقلیت پر قانونی، معاشی و سماجی زمین اور تنگ ہوگی تو دہشت گردوں کی خواہشات کے مطابق مزید غصیلے نوجوان پکے پھل کی طرح دہشت گردوں کی جھولی میں جاگریں گے۔
تاہم اس واقعہ سے یہ بات واضع ہو گئی ہے کہ دہشت گرد اب اتنے مضبوط ہو چکے ہیں کہ وہ دنیا میں جب جہاں چاہیں تباہی پھیلا سکتے ہیں۔ یہ بات بہت تشویش ناک ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ جس چیز کی اجازت انسانیت نہ دے، دنیا کا کوئی بھی مذہب نہتے انسانوں پرظلم سے روکے تو لازمی ایسی درندگی دکھانے والوں کے ساتھ پوری دنیا نفرت کا اظہار کرے گی اور کرنا چاہیے۔ اس دہشت گردی کا فائدہ کیا ہے؟ تو اسکا جواب تو اُنہی کو معلوم ہو گا جو عناصر یہ کام کرواتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ایک مخصوص گروہ ہے جو کہ ہر دور میں سر اٹھاتا ہے اسلام میں اس کو خوارج کہا گیا۔خوارج دراصل ایک ایسی سوچ کا نام ہے جس میں انسان انسانیت کا لبادہ اتار دیتا ہے اوراتنا گر جاتا ہے کہ اسے اُسے صرف سفاک درندہ ہی کہا جاتا ہے۔ پیرس پر حالیہ درندگی کے حوالے سے بات کی جائے تو ذہن میں یہ ہی سوال اٹھتا ہے کہ اس دہشت گردی کے زریعے وہ لوگ جو اسکی پلانگ کرنے والے ہیں ، اُنکا اصل حدف کیا ہے۔
پیرس میں درندگی کے بعد پاکستان،امریکا، سعودی عرب، اور ایران سمیت دنیا بھر کے رہنماؤں نےپیرس میں ہونے والی دہشت گردی کی شدید مذمت کی ہے اور دہشتگردی کے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے مشترکہ کوششوں کے عزم کا اظہار کیا ہے۔سوشل میڈیا پر کچھ دوست کہہ رہے ہیں کہ یہ یہودیوں کی سازش ہے اس میں مسلمان ملوث نہیں ، چلیے مان لیتے ہیں کہ پیرس میں جو کچھ ہوا وہ غیر مسلموں کی سازش تھی۔
اس میں مسلمان نہیں تھے، مجھے آپ کی بات سے پورا اتفاق ہے اور مجھے امید ہے کہ آپ بھی میری اس بات سے اتفاق کرینگے کہ جنہوں نے یہ خون ریزی کی وہ انسان نہیں سفاک درندے تھے یا ہیں، پھر میں اور آپ ایک ہی نظریہ رکھتے ہیں کہ دہشت گرد انسان نہیں درندئے ہوتے ہیں۔ مبشر علی زیدی نے کچھ دن پہلے ہی اپنی 100لفظوں کی کہانی… “بلڈ گروپ” میں دنیا میں کہیں بھی ہونے والی سفاک درندگی کو کچھ اسطرح بیان کیا تھا:۔۔۔
۔”بلڈ گروپ”۔ مبشر علی زیدی
اُس ہرن کو ایک ایمبولینس نے ہمارے اسپتال پہنچایا۔
وہ بری طرح زخمی تھا۔
کافی خون بہہ چکا تھا۔
ہم نے اُسے آپریشن تھیٹر منتقل کیا
اور جان بچانے کی کوشش کرنے لگے۔
آپریشن تھیٹر کے باہر ایک ہرنی پریشانی میں ٹہل رہی تھی۔
میں نے باہر نکل کر بتایا،
“خون کی دس بوتلوں کی ضرورت ہے۔
لیکن اسپتال میں ہرن کے خون کی پانچ بوتلیں ہیں۔
ہمیں کسی دوسرے جان دار کا خون لگانا پڑے گا”۔
ہرنی نے کہا،
“لومڑی کا خون لگادیں، بھیڑیے کا خون لگادیں،
لیکن کسی انسان کا خون مت لگائیے گا۔
بہت سفاک ہوتے ہیں”۔
تحریر: سید انور محمود