تحریر: سید انور محمود
کہا جا رہا ہے کہ فرانس کی شام میں مداخلت کے پیش نظر داعش کی جانب سے پیرس میں دہشت گردی کرکے انتقام لیا گیا ہے۔ممکن ہے ایسا ہی ہو لیکن پیرس میں دہشت گردی کامیاب کیسے ہوئی، جبکہ فرانس جیسے ترقی یافتہ ملک میں یہ بہت ناممکن لگتا ہے، پیرس میں ہونے والی دہشت گردی کا اثر حکومتوں اور عام لوگوں پرہوا ہے اور ہورہاہے۔ اگر ہم دنیا بھر کے اخبارات کی خبروں کا غور سے مطالعہ کریں تو یہ بات بڑے واضع انداز سے سامنے آتی ہے کہ پیرس میں ہونے والی دہشت گردی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ فرانسیسی حکومت نے دستیاب معلومات کو سنجیدگی سے نہیں لیا اورکچھ زیادہ ہی خود اعتمادی کا شکار ہو گئی۔
اب مختلف اداروں کے ماہرین اس بات کی جانچ کر رہے ہیں کہ یہ حملہ کیوں ہوا اور دہشت گرد آٹھ مقامات پر اسلحہ لے کر اتنی آسانی سے کیسے پہنچ گئے۔ خود کش جیکٹس، خود کار ہتھیار، بارودی موادلے کر یہ افراد پورے شہر میں گھومتے رہے اور اُنہیں کسی نے روکا نہیں پیرس کےسیکیورٹی انٹیلی جینس والے آخر کہاں تھے ان سب کی تحقیقات تو خیرہونی ہیں۔ تاہم اس واقعہ سے یہ بات واضع ہو گئی ہے کہ دہشت گردوں کی پہنچ سے اب کوئی مقام محفوظ نہیں، وہ دنیا میں جب اور جہاں چاہیں تباہی پھیلا سکتے ہیں۔ پیرس میں دہشت گردی کے اثرات مستقبل کی بین الاقوامی سیاست پر جلدہی نظر آینگے۔ پیرس حملوں کا تمام تر ملبہ مسلمانوں پر گرا ہے تاہم امریکا میں عربی بولنا بھی جرم بن گیا۔ جمعرات 19 نومبر 2015ء کو امریکی ریاست شکاگو سے فلاڈلفیا جانے والی ساؤتھ ویسٹ ایئرلائنز کی پرواز کے دو مسافروں کو محض اس وجہ سے جہاز میں سوار ہونے سے روک دیا گیا کیونکہ وہ آپس میں عربی زبان میں باتیں کر رہے تھے۔
جس روز پیرس میں حملے ہوئے اُسی دن ترکی کے شہر استنبول میں دہشت گردی کا بڑا منصوبہ ناکام بنایاگیا، حکام کے مطابق پولیس نے 13 نومبر 2015ء کو جمعہ کے روز استنبول سے داعش جنگجو جہادی جون کے قریبی ساتھی سمیت پانچ ملزمان کو گرفتار کیا تھا، یہ لوگ سانحہ پیرس والے دن استنبول میں حملوں کی منصوبہ بندی کررہے تھے۔ترکی کا کہنا ہے کہ اس نے پیرس حملوں میں ملوث ایک خودکش بمبار عمر اسماعیل کے بارے میں فرانسیسی حکام کو آگاہ کردیا تھا تاہم انہوں نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ تفصیلات کے مطابق امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے اور فرانس نے پیرس جیسے مزید حملوں کا انتباہ جاری کردیا ہے، سی آئی اے کے ڈائریکٹر جوہن برنان نے خبردار کیا ہے کہ داعش نے پیرس جیسے مزید حملوں کی منصوبہ بندی کررکھی ہے، سیکورٹی اور انٹیلی جنس ادارے ان سازشوں کو بے نقاب کرنے کیلئے اپنی پوری صلاحیت بروئے کار لارہے ہیں، خودکش بمباروں نے پیرس کے دل میں انتہائی منظم منصوبہ بندی کے تحت حملے کئے اور اس عمل میں کئی ماہ کا عرصہ لگا انہوں نے خبردار کیا کہ داعش کسی بھی وقت اس طرح کے مزید حملے کر سکتی ہے۔ فائننشل ٹائمز کا سام جونز لکھتا ہے کہ ایسے اشارے مل رہے تھے کہ یہ واقعہ ہونے والا ہے۔
گذشتہ مہینوں میں دو اعلیٰ عہدیداروں نے فائننشل ٹائمز کو بتایا تھا کہ انہوں نے داعش کی سرحدوں سے بہت باہر اس کے عزائم اور مقاصد کا جو اندازہ لگایا تھا اس میں ڈرامائی تبدیلی رونما ہو چکی ہے۔داعش القاعدہ کی طرح بہت بڑا حملہ کرنا چاہتی تھی۔مگر یہ بات غیر واضح تھی کہ وہ اس نوع کا حملہ کرنے کی سکت رکھتی بھی ہے؟ پیرس حملے پر بات کرتے ہوئے لندن میں مقیم صحافی قندیل شام کا کہنا تھا کہ پیرس پر حملہ یورپ میں دہشت گردی کا سب سے بڑا واقعہ ہے اور اگر کی اس کی ذمہ داری دولت اسلامیہ نے قبول کی ہے تو یہ اُن کےلئے بھی بڑی تبدیلی ہے۔ فرانس میں انتخابات کا انعقاد بھی ہونے والا ہے جس پر اس کا بہت اثر پڑے گا۔ اس سال یورپ میں سترہ دہشت گردی کے حملے ہوئے جس میں سے سات فرانس میں ہوئے ہیں اور 1200 سو کے قریب فارن فائٹرز اس وقت فرانس سے عراق اور شام میں جنگ لڑ رہے ہیں۔فرانس میں ان حملوں کے بعد انتہا پسندی کے خلاف آواز بڑھ گئی ہے۔چارلی ہیبڈو پر حملے کے بعد دہشت گردی کے واقعات سے نمٹنے کے لئے فرانس کی حکومت کی تیاری پر بات کرتے ہوئے قندیل شام نے کہا کہ اس کے دو جواب ہو سکتے ہیں ایک تو یہ کہ دولت اسلامیہ جیسے گروہ اب زیادہ مضبوط ہو گئے ہیں جو کہ اس حملے سے نظر آرہا ہے کہ یہ ایک منظم حملہ تھا اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ یورپ میں اب اس طرح کے عناصر ہیں جو اس طرح کے حملے مستقبل میں کر سکتے ہیں اور سلیپر سیلز کی موجودگی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
برطانیہ میں مقیم کالم نگارنجمہ اسلام کا کہنا ہے پیرس حملوں کے بعد میرا حجاب میں باہر نکلنا مشکل ہوگیا ہے۔ نجمہ اسلام کہتی ہیں کہ جب بھی یورپ میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہوتا ہے، مسلم آبادی کی زندگی مشکل ہوجاتی ہے۔نجمہ اسلام کے مطابق ایشیائی آبادی میں رہنے والے مسلمان تو پھر بھی محفوظ رہتے ہیں، لیکن دوسرے علاقوں میں رہنے والے مسلمانوں پر دہشت گردی کے رد عمل میں عرصہ حیات تنگ ہوجاتا ہے۔ کیا ان دہشت گردوں کو اس بات کی پروا ہے کہ ان کے شیطانی عمل سے عام مسلمان شہریوں کی زندگیوں پر کتنے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ اب میں حجاب میں گھر سے باہر جاتے ہوئے ڈرتی ہوں، لوگوں کی نگاہیں میرا تعاقب کرتی ہیں ۔ پیرس حملوں کے بعد جب میں حجاب کرکے باہر نکلتی ہوں تو لوگ سرگوشی میں مجھے دہشت گرد اور مسلم کتیا کہتے ہیں اور میرا تعلق داعش سے جوڑتے ہیں۔ نوجوانوں کا گروپ میرے ارد گرد اکٹھا ہوجاتا ہے اور وہ مسلمانوں کو گالیاں دیتے ہیں ۔ اب گھر سے باہر نکلنے کا مطلب ہراساں ہونے کے لیے تیار رہنا ہے۔ میرے فیس بک فرینڈز اسلام کو دہشت گردوں کا مذہب قرار دے رہے ہیں اور معاشرے کو محفوظ بنانے کے لیے مسلمانوں کو دیس نکالا دینا چاہتے ہیں۔ میرے حجاب کی وجہ سے مجھے ایک پروجیکٹ سے الگ کردیا گیا ہے۔
پیرس سے ایک اچھی خبر یہ ہے کہ پیرس میں داعش دہشت گردوں کے حملے نے مغرب میں رہنے والے مسلمان شہریوں کو احساس جرم اور احساس ندامت کا شکار کردیا ہے ۔اپنے میزبان معاشرےسے اعتماد اورتعلق کی استواری کےلیے فرانسیسی مسلمان نوجوان نے ایک انوکھا انداز اختیار کیا۔ وہ پیرس کے ایک مصروف چوراہے پر آنکھوں پر پٹی باندھ کر کھڑا ہوگیا اور اس نے اپنے سامنے ایک گتے پر لکھ رکھا تھا “اگر آپ مجھ پر اعتماد کرتے ہیں تو مجھے گلے لگایئے،میں ایک مسلمان ہوں اور مجھے کہاجاتا ہے کہ میں دہشت گرد ہوں”۔یہ دیکھنے کے بعد پیرس کے رہنے والے بڑی تعداد میں اسے گلے ملنے لگے۔کچھ لوگ اس جذباتی منظر کو دیکھ کر روتے رہے۔ایک طویل وقفے تک مجمعے سے نکل کرآنے والے مردو خواتین نوجوان سے بغل گیر ہوتے رہے جس کے بعد نوجوان نے اپنی آنکھوں پر بندھی پٹی اتاردی اور کہا کہ میں آپ میں سے ہر ایک کا شکرگزار ہوں جو مجھ سے بغل گیر ہوا، میں نے یہ سب کچھ ایک پیغام دینے کےلیے کیا اور وہ پیغام یہ تھا کہ “میں ایک مسلمان ہوں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں دہشت گرد ہوں”۔ میں دہشت گردی کے اس سانحہ میں نشانہ بننے والے افراد کے اہل خانہ کے گہرے دکھ کو محسوس کرتا ہوں اور میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ مسلمان ہونے کا مطلب لازماً دہشت گرد ہونا نہیں ہے۔ اس پیغام کو سن کر لوگوں نے تالیاں بجائیں اور خوشی کا اظہار کیا۔
پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثارنے کہا ہے کہ غیر ممالک میں رہنے والے ہم وطن پاکستان کا اثاثہ ہیں دہشت گردی کےحالیہ واقعات سے بیرون ملک پاکستانیوں کی مشکلات میں اضافہ ہو گا، جبکہ پیرس میں موجود پاکستانی سفیر غالب اقبال نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ فرانس میں مقیم پاکستانی کمیونٹی نہ صرف مکمل طور پر محفوظ ہے اور وہ قطعی طور پر ایسا نہیں سمجھتے کہ پیرس پر ہونے والے حملوں کے ردعمل میں انہیں کسی ناخوشگوار صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اسکے باوجود حکومت پاکستان اورہمارے سفارت خانوں کو یورپ اور امریکہ میں مقیم پاکستانیوں سے رابطے میں رہنا چاہیے، عام پاکستانیوں کو بھی چاہیے کہ وہ کسی بھی ناخوشگوار صورتحال کی اطلاع فوری طور پر اپنے سفارت خانے کو دیں۔
فرانسیسی پولیس نے جب مجرموں کا پیچھا شروع کیا تو ایک خاتون خودکش بمبار حسنہ آیت ابوالحسن تک پہنچ گے لیکن 26سالہ حسنہ نے گرفتار ہونے کے بجاےپولیس کارروائی کے دوران مبینہ طور پر خود کو بم سے اُڑا لیا تھا۔ حسنہ آیت ا بوالحسن پیرس کے حملوں کے مبینہ ماسٹر مائنڈ اباعود کی کزن تھی۔ اُسکی لاش پیرس کے شمال میں واقع ایک نواحی علاقے کے اُس اپارٹمنٹ سے برآمد ہوئی ہے جہاں سکیورٹی فورسز نے کارروائی کرتے ہوئے پیرس حملوں کے مبینہ ماسٹرمائنڈ کو ہلاک کر دیا تھا۔
حسنہ آیت ابوالحسن کے خاندان کے افراد اور دوستوں کاکہنا ہے کہ حسنہ نے پارٹی گرل سے بنیاد پرست بننے کا سفر صرف چھ ماہ میں طے کیا، حسنہ کی متزلزل پرورش ہوئی اور اس نے حکومتی نگرانی میں چلنے والے کیئرہومز میں بھی وقت گزارا ۔ حسنہ کو اس کے دوست مخبوط الحواس کہتے تھے اور وہ کاؤ بوائے کا ہیٹ اور جوتے پہننا کرتی تھی ۔ حسنہ آیت ابوالحسن کے بھائی نے بتایا کہ “حسنہ اچانک ہی چھ ماہ میں بنیاد پرست بن گئی، اس نے پہلے حجاب پہننا شروع کیا پھر پورے چہرے کا نقاب پہننے لگی، وہ متزلزل تھی، اس نے کبھی مذہب کا مطالعہ نہیں کیا اور میں نے کبھی اسے قرآن پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا”۔ حسنہ آیت بوالحسن کی پڑوسی صوفین نے بتایا کہ وہ تیز طرار تھی اور ساتھ ہی مخبوط الحواس بھی تھی۔
یہ بات شائد ساری دنیا کے ذہن کے کسی گوشے میں ہو کہ داعش کے بنانے میں امریکہ، برطانیہ اور سب سے زیادہ اہم کردار اسرائیل کا ہے۔برطانیہ کے ٹونی بلیئر تو اس کا عتراف بھی کر چکے ہیں۔ اسکا مطلب یہ ہی نکلتا ہے داعش اور داعش کا سربراہ ابوبکر البغدادی دراصل امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل کی پیداوار ہیں۔ داعش والے دہشت گرد تو ہیں لیکن مسلمان نہیں، یہ کمزور ذہن اور متزلزل مسلمانوں کو مذہب کے نام پر استمال کرتے ہیں اور ان کی بے روزگاری بھی ختم کرتے ہیں ، اس بات کا ثبوت پیرس کے شمال میں واقع ایک نواحی علاقے کی رہنے والی ایک متزلزل خاتون خودکش بمبار حسنہ آیت ابوالحسن ہے۔ یہ دہشت گرد جو نام نہاد مسلمان بنے ہوئے ہیں درحقیقت کرائے کے قاتل ہیں۔
تحریر: سید انور محمود