تحریر : ایم سرور صدیقی
بلدیاتی اداروں کو جمہوریت کی نرسری قرار دیا جاتا ہے آج پارلیمنٹ میں درجنوں سیاستدان ایسے موجودہیں جو بلدیاتی اداروں کی پیداوار ہیں بنیادی جمہوریت کے اس پلیٹ فارم پر کام کرنے والے ہمیشہ فعال کردار کے حا مل رہے لیکن اس کے باوجود بلدیاتی ا نتخابات کے نام پر امیدواروں کے ساتھ ایسا سنگین مذاق کیا گیا جس کی دنیا بھر میں کوئی دوسری مثال نہیں مل سکتی اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ حکمران عدالت ِ عظمیٰ کا حکم ماننے سے انکاری ہیں ایسا کرنا توہین ِ عدالت ہی نہیں سنگین غداری کا جرم بھی ہے اس کے مرتکب افراد پر سنگین غداری کا مقدمہ چلنا چاہیے پھر بات سمجھ میں آئے گی۔ پنجاب اور سندھ سے تعلق رکھنے والے 80 ہزارسے زائد بلدیاتی امیدواروں کے ساتھ ہاتھ کیا گیا دو دوبار فیسیں جمع الیکشن کا دور دور تک کوئی پتہ نہیں۔
چیئر مین، وائس چیئر مین کے ہزاروں امیدوار وںنے مشکل صورت ِ حال کے باوجود اپنے پینل مکمل کئے بیشتر کونسلروںکی سیکورٹی فیس بھی ذاتی گرہ سے جمع کروائی ،فلیکس، سٹکر، اشتہار، بینربنائے اور انتخابی دفترقائم کئے ووٹروں سپورٹروںکی ضروریات کا خیال رکھا،آئے گئے کی انتخابی دفاترمیں بریانی ،چائے، بسکٹ اور مٹھائی سے تواضح کی جاتی رہی ہر امیدوارنے لاکھوں روپے خرچ کرڈالے لیکن الیکشن ملتوی ہونے سے سب مٹی ہوگیا۔۔الیکشن کمیشن کا یہ اعلان کہ جو امیدوار فیس جمع کروا چکے ہیں انہیں دوبارہ فیس جمع نہیں کروانا پڑے گی اس اعلان پر تو عملاً عملدرآمدہوتا نظرنہیں آرہا اس کابنیادی سبب یہ ہے کہ نئی حلقہ بندیاں بننے سے فیس کے ساتھ الیکشن کمیشن کوجمع کروائے تمام پینل ٹوٹ جائیں گے۔ یہ بھی کہاجارہاہے کہ بلدیاتی انتخابات کاالتواء جلدبازی کے فیصلوںکا نتیجہ ہے جس کا عوام پر اچھا تاثر نہیں پیدا ہو ا حالانکہ موجودہ حالات حلقہ بندیوں کیلئے انتہائی موزوں ہے الیکشن شیڈول کااعلان کرکے حکومت مرحلہ وار بلدیاتی انتخابات کروا سکتی ہے یہی بہتر، سہل اور آسان طریقہ ہے۔ لوکل باڈیز الیکشن ملتوی ہونے کے بعد سیاست ٹھنڈی ٹھارہوگئی ہے ۔۔بلدیاتی انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی بہت سارے لوگ پینٹر، فلیکس،کاغذ ،پریس والوں کے ساتھ ساتھ دیہاڑی دار”سرگرم ِ عمل ہوگئے ” تھے
جو لوگ کام کے نہ کاج کے
۔۔دشمن اناج کے تھے
وہ بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ منہ دھونے بلکہ سچ جانئے تو نہانے لگ گئے تھے امیدوار کے انتخابی دفاتر اور ڈیروں پر ڈھول بجتے تو اچھے خاصے لوگ لڈیاں ،دھمال ڈالتے اورنعرے لگاتے بریاتی کھا کر گھروں کو لوٹ جاتے کئی جیبوںمیں نوٹ بھی لے جاتے پھر اچانک اس ماحول کو کسی کی نظر لگ گئی جہاں الیکشن کی ہا ہا کار مچی ہوئی تھی وہاں الو بولنے لگے اور بلدیاتی انتخابات ملتوی ہونے سے کئی دہاڑی لگانے والوں کے منہ لٹک گئے اس کے ساتھ ساتھ امیدواروں کے چہرے بھی مر جھا گئے ہیں بیشتر امیدواروںنے اپنے انتخابی دفاتر بندکر دئیے ہیں در اصل بلدیاتی انتخابات کا انعقاد شروع دن سے ہی مشکوک تھا اس میں حکومتی بے حسی کا زیادہ دخل کہا جا سکتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی صوبائی حکومت،بیوروکریسی اور خاص طور پر ارکان ِ اسمبلی اختیارات تقسیم کرناہی نہیں چاہتے بلدیاتی انتخابات ہو نے سے عام آدمی بھی اختیارات کی دوڑ میں شامل ہو جاتا جو اس ٹرائیکا کو گوارا نہیں تھا۔۔ مزے کی بات یہ ہے کہ کچھ عرصہ قبل جب ترک وزیر اعظم جو خود ماضی میں ایک بلدیاتی ادارے کے میئر رہ چکے ہیں لاہور میں ان کے اعزاز میں استقبالیہ دیا گیا تو پاکستانی حکام کے ساتھ استنبول کے میئر کا تعارف کروایا گیا جب انہوں نے لاہور کے میئر بارے استفسار کیا تو ہر بات پر ترکی کو فالو کرنے والے حکمرانوں کی حالت دیدنی تھی پھر انہوں نے جلدی سے ایک سابق لارڈ میئر کو آگے کردیا ۔بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے دیکھا جائے تو محسوس ہوگا کہ جنرل مشرف کا تجویز کردہ ضلعی حکومتوں کا نظام عوام کے بہترین مفادمیں تھا جس کے تحت ملک بھر میں سب سے زیادہ ترقیاتی کام اس دور میں ہوئے اس لئے اس سسٹم کو جمہوریت کی بنیاد بھی کہا جا سکتا ہے ۔ جس کی بدولت نہ صرف اختیارات نچلی سطح پر تقسیم ہوئے بلکہ عوامی مسائل بہتر انداز سے حل ہونے میں پیشرفت ہوئی اس وقت کئی مسلم اورمغربی ممالک میں ضلعی حکومتوںپر مبنی بلدیاتی نظام اپنی بھرپور افادیت کے ساتھ کام کررہا ہے پاکستان میں بھی اس سسٹم کا کامیاب تجربہ ہو چکا ہے اس نظام میں ترمیم کرکے مزید مؤثر بنانے کی ضرورت تھی۔
بلدیاتی اداروں کے انتخابات نہ کر وانے کے اعلان سے عوام کوعملأٔ بیور کریسی کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے جو اب چھوٹے چھوٹے مسائل حل کروانے کیلئے افسروں کی منتیں کرنے پر مجبور ہو جائیں گے ،حالانکہ ناظمین یا چیئر مین اور کونسلر عوام کے منتخب نمائیدے ہوتے ہیں بلدیاتی اداروں میں سرکاری ایڈ منسٹریٹر تعینات کرنے کا کوئی جواز نہ تھا۔ لوکل باڈیز کے حوالہ سے عوام میں پیپلز پارٹی با رے کوئی اچھا تاثرنہیں ہے جبکہ مسلم لیگ ن کی حکومت بھی اس کی صف میں شامل ہوگئی ہے جو پہلے ہاتھ دھو کر ضلعی بلدیاتی سسٹم کے پیچھے پڑی رہی پھر اس نے گذشتہ پانچ سال بھی بلدیاتی الیکشن کروانے کی ذمہ داری پوری نہیں کی جوسمجھ سے بالاتر ہے بلدیاتی سسٹم جو بھی ہو عوام کی خدمت کا مؤثر ذریعہ ہے اب مسلم لیگ ن کی حکومت نے ضلعی حکومتوں کے نظام کو ہی فالو کرکے ناظم کا نام چیئر مین اور نائب ناظم کو وائس چیئر مین کا نام دے کر نیا لو کل باڈیز ایکٹ تیار کیا تھا یعنی یہ ضلعی حکومتی نظام کا جدید ایڈیشن ہے ۔۔۔ حالانکہ خامیاں دور کرکے ضلعی حکومتوں کے نظام کو مزید بہتر بنایا جا سکتا تھا۔
کتنا ستم ظریف تھا وہ آدمی قتیل
مجبوریوں کا جس نے وفا نام رکھ دیا
ایک تاریخ یہ بھی ہے کہ آج تک کسی جمہوری حکومت نے بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے ہمیشہ بلدیاتی انتخابات ڈکٹیٹروںکی چھڑی کے اشارے سے ہوئے ہیں شاید تاریخ پھر اپنے آپ کو دہرارہی ہے لیکن ہم تو دعا ہی کرسکتے ہیں اللہ تعالیٰ ہم اور ہماری جمہوری حکومتوں کو تاریخ کے اس چکر سے بچائے ۔۔۔۔ ویسے ایک تجویز ہے کہ عدلیہ اور حکومت مل کر ایک ایسا آزاد اور خودمختار الیکشن کمیشن تشکیل دے جو حکومتی اداروں کی کشمکش اورانکے اثر سے واقعی آزاد ہو ۔۔۔جو وقت ِ مقررہ پر صوبائی ، قومی اور بلدیاتی انتخابات کے انعقادکو یقینی بنانے کیلئے خودبخودکام کرتا رہے۔ آخرمیںآپ سے ایک سوال ہے جمہوریت کے دعویدار بھی عوام کو انکے بنیادی حق سے محروم رکھ کر بلدیاتی انتخابات نہ کروائیں تو پھراس ادا کو آپ کیا نام دیں گے ؟ سپریم کورٹ کتنے برسوںسے تاریخ پر تاریخ دئیے جارہی ہے کہ عوام کے بنیادی حقوق کیلئے صوبائی حکومتیں بلدیاتی انتخابات کروادیں لیکن کوئی نہیں سنتا۔۔۔کوئی نہیں مانتا اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ حکمران عدالت ِ عظمیٰ کا حکم ماننے سے انکاری ہیں ایسا کرنا توہین ِ عدالت ہی نہیں سنگین غداری کا جرم بھی ہے اس کے مرتکب افرادپر سنگین غداری کامقدمہ چلنا چاہیے پھر بات سمجھ میں آئے گی۔
تحریر : ایم سرور صدیقی