تحریر: محمد آصف اقبال، نئی دہلی
ہندوستان میں قانون ساز باڈی پارلیمنٹ ہے جس میں عموماً ہر پانچ سال میں عوام کے ذریعہ منتخبہ نمائندے آتے ہیں جنہیں ممبر آف پارلیمنٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ پارلیمنٹ میں کسی بھی پارٹی کے اکثریت میں آنے والے نمائندے حکومت کی باگ دوڑ سنبھالتے ہیں۔دوسری جانب ہر سطح کے منتخبہ نمائندے مزید ممبر آف پارلیمنٹ کا انتخاب کرتے ہیں،اور یہ افراد راجیہ سبھا کے وقار کا حصہ بنتے ہیں۔ کیونکہ یہ دونوں ہی ہائوسزاہمیت کے حامل ہیںلہذا پارلیمنٹ ،اس کے باوقار افراد اور ان پر ہونے والے اخراجات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ پارلیمنٹ کی اہمیت اور اس کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس پر ہونے والے اخراجات بھی کچھ معمولی نہیں ہیں۔ ہر ایک منٹ پر تقریباً ڈھائی لاکھ روپے (2.5لاکھ) خرچ ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے پارلیمنٹ پرہونے والا خرچ بے شمار ہے،جو کئی سو کروڑ تک پہنچتا ہے۔
وہیں دوسری جانب اس کا ایک تہائی حصہ مختلف احتجاجات اور نعرے بازی کی نظر ہو جاتا ہے۔ جبکہ ہر سیشن کے آغاز سے قبل جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی کی میٹنگ ہوتی جس میں وزیر اعظم پارلیمنٹ کو ٹھیک انداز سے چلنے،اس میں انجام دینے والی سرگرمیوں پر گفتگو کرتا ہے۔اور سیاسی پارٹیوں کے مختلف افراد اعتماد دلاتے ہیں کہ وہ پارلیمنٹ اور اس کے ایک ایک منٹ کی قدر کریں گے۔ پارلیمنٹ اوراس کے ایک منٹ پر تقریباً ڈھائی لاکھ روپیہ کا صرفہ یہ وہی رقم ہے جو ہم سے اورآپ سے ٹیکس کی وصولی کی شکل میں لی جاتی ہے۔ یعنی عوام راست یا بلاواسطہ جو ٹیکس ادا کرتے ہیںاسی رقم سے یہ اخراجات بھی انجام پا رتے ہیں۔ اس صورت میں یہ بات خوب اچھی طرح واضح ہو جا نی چاہیے کہ نہ صرف ممبر آف پارلیمنٹ کے انتخابی عمل میں عوام راست یا بلاواسطہ شامل ہیں بلکہ اس پر ہونے والے اخراجات میں بھی عوام ہی کے پیسہ کو استعمال کیا جا تاہے،لہذا عوامی نمائندے ہر وقت عوام کے سامنے جوابدہ ہیں اور ان کا کوئی بھی عمل ایسا نہیں ہونا چاہیے جو عوام کو یا ملک کو نقصان پہنچانے والا ہو۔ان دو صورتوں میں جہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ عوام خود اپنی حیثیت سمجھیں ،وہیں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ کس طرح کے لوگوں کو ان قانون ساز اداروں میں بھیجا جانا چاہیے؟
آپ کو معلوم ہے کہ فی الوقت جاری مان سون سیشن کے گزشتہ چار دن لگاتار پارلیمنٹ میں شور شرابے،ہنگامہ اور احتجاج کی نظر ہوچکے ہیں اور طے شدہ سرگرمی انجام نہیں دی جا سکی ہے۔یہ ایک تشویشناک صورتحال ہے ،جوقیمتی ووٹ اور ٹیکس ادائیگی کا کھلا مذاق ہے۔وہیں دوسری طرف ملک کی شبیہ خراب کرنے اور عوامی نائندوں پر موجود اعتماد پر بھی سوالات کھڑے کرتا ہے۔یعنی یہ کہ عوام نے کن لوگوں کو اور کس طرح کے لوگوں کو ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کی ذمہ داری سونپی ہے؟اور کیا وہ اپنی ذمہ داریاں بحسن و خوبی انجام دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں گفتگو کے پس منظر میں یہ سوال بھی لازماً اٹھے گا کہ پارلیمنٹ میں آج کل جو کچھ دیکھنے کو مل رہا ہے اس کی وجہ کیا ہے؟اس کا سیدھا جواب تو یہ ہے ملک کی برسر اقتدار بی جے پی اور اس کی دیگر ریاستوں میں موجود حکومتیں گھوٹالوں،بدعنوانیوں اور غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہے۔جس نہ صرف عوام اورحزب مخالف بلکہ برسر اقتدار حکومت کے افرادبھی نا خوش ہیں۔اب یہ الگ بات ہے کہ برسر اقتدار حکومت میں ایک بڑی تعداد نہ خوش ہونے کے باوجود غلطیوں، کوتاہیوں اور گھوٹالوں پرخاموش رہے۔یہ مجبوری ان لوگوں کی تو ہو سکتی ہے جنہیں اپنا طویل کیرئیر پارٹی اور اس کے غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث افراد کے ساتھ طے کرنا ہے۔
لیکن یہ مجبوری غالباً ان لوگوں کی نہیں ہے جو پارٹی میں کیرئیر کی حد تک اپنا ہدف حاصل کر چکے ہیں اور جو سینئر بھی سمجھے جاتے ہیںیا جن کا نفس واقعی برائیوں کے خلاف احتجاج کرنے پر انہیں ابھارتا ہے۔ بی جے پی جو آر ایس ایس کی سیاسی جماعت ہے اور آر ایس ایس جو خو د کو ایک نظریاتی جماعت کہتی ہے،دونوں ہی آج کل کچھ زیادہ شد ت پسند بنے ہوئے ہیں۔بقول شخصے معتدل نظریہ اور معتدل افراد جو کل تک فیصلہ سازمقامات پر موجود تھے ،ان کی اہمیت ختم ہو چکی ہے یا کردی گئی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ معتدل کہے جانے والے افراد اندرون خانہ ایک عجیب قسم کی بے چینی اور کشمکش میں مبتلا ہیں۔جس کی تازہ مثال شانتا کمار ہیں۔شانتا کمار بھارتیہ جن سنگھ اور بی جے پی کے بانیوں میں شال رہے ہیں۔مرارجی ڈیسائی اور واجپئی حکومت میں وزیر رہے ہیں۔ واجپئی اور اڈوانی کے معتمد خاص اور بی جے پی کے 80 سالہ بزرگ رہنما شانتا کمار کی بے چینی اس وقت سامنے آئی ہے جب انہوں نے پارٹی صدر امت شاہ کو خط لکھ کر ویاپم گھوٹالہ جیسی بدعنوانی کا تذکرہ کیا اورکہا کہ اس عمل سے ان کا سر شرم سے جھک گیا ہے۔
نیز انہوں نے پارٹی کی داخلی صورتحال کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس کی داخلی صحت کو بہتر رکھنے کے لیے ‘لوک پال’ مقرر کرنے کا مطالبہ کیاہے۔شانتا کمار کے خط میں کچھ ریاستوں میں لگ رہے الزامات کا ذکر ،للت مودی معاملے میں راجستھان کی وزیر اعلیٰ وسندھرا راجے کا نام آنے اور مہاراشٹر میں بی جے پی کی ایک وزیر پنکجا منڈے کے خلاف بدعنوانی کے الزامات سے متعلق تنازعہ کا اشارہ کیا ہے۔دوسری جانب پارٹی ہائی کمان شانتا کمار کے خط سے سخت ناراض ہے اورمیڈیا سے بات کرنے پراُنہیں منع بھی کیا گیا ہے۔گرچہ پارٹی ہائی کمان شانتا کمار اور ان کے خط میں اٹھائے گئے ایشوز سے ناراض ہیں،اس کے باوجود سینئر لیڈرشانتا کمارکا کہنا ہے کہ ان کے اٹھائے کچھ مسائل پر انہیں کافی وزراء کی حمایت حاصل ہے ۔اور نہ تو میں پارٹی میں الگ تھلگ ہوں اور نہ ہی عوام کے درمیان ۔وہیں ہماچل پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ نے بھی پارٹی کے اندر بات چیت کی کمی پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی پارٹی ہونا کافی نہیں ہے بلکہ سب سے اچھی پارٹی ہونا بھی ضروری ہے۔اس بیان سے وہ دنیا میں سب سے بڑی سیاسی پارٹی بننے کے بی جے پی کے دعوے پر بالواسطہ نشانہ لگا رہے تھے۔مختصر یہ کہ اندرون خانہ وبیرون خانہ پارٹی اور حکومت مسائل میں مبتلا ہے۔
ملک کی موجودہ صورتحال کافی نا گفتہ بہ ہے۔ مرکزی حکومت کے ذمہ داران پر سوالات اٹھ رہے ہیں کہ انہوں نے للت مودی جو بڑی بد عنوانی میں مبتلا اور ملک بھگوڑے ہیں کی مدد کیوں کی؟ ویاپم گھوٹالہ اور اس کے خلاف آواز اٹھانے والے آر ایس ایس طبی شعبہ کے آروگیہ بھارتی کے اندرو کے ضلع نائب صدر آنند کمارکی سعی و جہدبھی ہمارے سامنے ہے۔ دیگر وزراء اور ریاستی حکومتوں کے بدعنوانی کے معاملات بھی منظر عام پر آچکے ہیں۔ وزرات داخلہ کے ذرائع کے حوالے سے انڈیا ٹائمز میں شائع خبر میں درمیانہ فرقہ وارانہ تشدد کے 287 واقعات کا تذکرہ بھی ہم سن چکے ہیں جس میں مودی حکومت میں فرقہ وارانہ تشدد میں 25 %فیصد کااضافہ سامنے آیا ہے وہیں دیگر ان بے شمار واقعات سے بھی دنیا آگاہ ہے جو سماج اور ملک کی شبیہ خراب کرنے نیز عوام کو باٹنے اور تقسیم کرنے کے لیے جاری ہیں۔ان تمام سرگرمیوں کے پس منظر میں حکومت ناکامی کا شکار ہے۔
برخلاف اس کے اقتدار میں آنے سے قبل بدعنوانی سے پاک ،شفافیت اور جوابدہ حکومت کی بات کہی گئی تھی،جو محسوس ہوتا ہے کہ جھوٹے خواب تھے،جن کی زد میں عوام آگئی ۔اور اب نہ صرف پارلیمنٹ کا وقار مجروح ہو رہا ہے بلکہ عوام کے ذریعہ ادا کی گئی رقم کا بیجا استعمال بھی ہو رہا ہے۔اس کے باوجود عوام کو ہر ممکن طریقہ سے بے وقوف بنانے کا عمل جاری ہے،ساتھ ہی یہ امید اور کوشش بھی ہے کہ ریاست بہار میں حالیہ ہونے والے اسمبلی انتخابات میں ایک بار پھر جیت کا سہرا عوام انہیں بی جے پی یا این ڈی اے کے سر رکھے جن کے سبب بے شمار مسائل سے عوام دوچار ہیں۔فیصلہ عوام کے ہاتھ میں ہے ،جو طے کرے گی کہ کیا بی جے پی کی یہ خواہش جائز ہے جبکہ کیے گئے کسی بھی وعدے کو چار سودنوں میںاب تک پورا نہ کیا جاسکا ہو!۔
تحریر: محمد آصف اقبال، نئی دہلی
maiqbaldelhi@gmail.com
maiqbaldelhi.blogspot.co