تحریر : احسان الحق اظہر
سعودی عرب اور یمن کی کشیدہ صورتحال ، سعودی عرب فوج بھیجنے بارے فیصلہ کرنے کیلئے بلایا گیا پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ارکان کے ذاتی اور جذباتی مدوجذر کی زد میں رہا ، تمام پاکستانیوں نے ٹی چینلز پر براہ راست دیکھا کہ ان کے منتخب کردہ نمائندے ان کے ”مسائل” کا ”حل ” کس طرح نکالتے ہیں مشترکہ اجلاس کے دوران ایک وقت ایسا بھی آیا جب ایوان مچھلی منڈی بن گیا حکومتی اور اپوزیشن اراکین نے ایک دوسرے کیخلاف دل کھول کر نعرے لگائے ، پارلیمنٹ میں تحریک انصاف کے ارکان کی واپسی چھائی رہی جبکہ اصل مسئلہ پس پشت چلا گیا ۔ جہاں وزیر دفاع خواجہ آصف نے تحریک انصاف کی قیادت کو باؤنسر پر باؤنسر مار کر آڑے ہاتھوں لیا وہیں ایم کیو ایم کے رہنماء بھی پیچھے نہ رہے انہوں نے تو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کو ہی غیر آئینی قراردیدیا ،انہوں نے تحریک انصاف کے ارکان کی ایوان میں موجودگی کو بھی حکومت اور پی ٹی آئی میں کسی ”مفاہمت” کا شاخسانہ بھی قرار دیا۔
جنگ زدہ یمن اور سعودی عرب کی سلامتی کے حوالے سے بلائے گئے اجلاس میں پی ٹی آئی ارکان کی واپسی پر ریمارکس دیتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ پی ٹی آئی اراکین کو نہ تو کوئی شرم ہے اور نہ ہی حیا ، آٹھ مہینے حکومت اور اس اسمبلی کو جعلی اور دھاندلی زدہ کہنے والے آج کس منہ سے یہاں بیٹھے ہیںانہوں نے سپیکر سے مطالبہ کیا کہ وہ پی ٹی آئی اراکین کو باری باری اٹھا کر پوچھیں کہ کیا انہوں نے استعفے نہیں دیئے؟۔ جس پر پڑھے لکھے ارکان کا ایوان مچھلی منڈی بن گیا اور کان پڑی آوازیں سنائی نہ دی ۔ سپیکر قومی اسمبلی کی بار بار اراکین کو چپ کروانے کی کوششیں بھی کامیاب نہ ہوئیں۔
ایم کیو ایم کے اراکین نے بھی شدید احتجاج کرتے ہوئے اجلاس سے واک آئوٹ کیااس موقع پر سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق پی ٹی آئی کے استعفوں کے معاملے پر آئین کی شق 64 پڑھ کر سنائی اور کہا کہ تحریک انصاف کے استعفوں کا فیصلہ میں نے کرنا ہے وزیر دفاع خواجہ آصف نے نہیں۔ سینیٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ معزز سپیکر نے ایک بات کو بڑے اچھے انداز میں سلجھا دیا ہے تو محترم وزیر خواجہ آصف کیا یہ چاہتے ہیں کہ ضمنی انتخابات کر وا دیئے جائیں وزیر دفاع نے بڑی اچھی باتیں کیں لیکن مجھے وہ پورس کے ہاتھی نظر آئے۔ کیا وہ چاہتے ہیں کہ ملک میں ضمنی الیکشن کر وا دیئے جائیں۔ کیا ہم منی جنرل الیکشن کے متحمل ہو سکتے ہیں؟۔ ان کا کہنا تھا حکومتی ارکان کا لہجہ نرم اور سب کو ساتھ ملانے والا ہونا چاہیے کیونکہ حکومت خود تحریک انصاف کے اراکین کو اسمبلی میں لے کر آئی ہے۔
ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستارکا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی اجلاس میں شرکت غیر قانونی وغیرآئینی ہے، کیونکہ آئین کے تحت 40 روز تک اسمبلی سے غیر حاضر رہنے والا رکن ڈی سیٹ ہوجاتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 64 کی شق 8 کے تحت جیسے ہی کوئی رکن پارلیمنٹ استعفیٰ دیتا ہے وہ منظور ہوکر نافذ العمل ہوتا ہے۔ خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ اگر یہ اجنبی اسمبلی میں ہوسکتے ہیں تو کوئی بھی اسمبلی میں آ سکتا ہے۔ 1990ء میں جب ہم لوگ روپوش ہوئے تھے تو ہمارے استعفے چہرے دیکھے بغیر ہی منظور کر لئے گئے تھے،ان لوگوں نے تو خود جاکر استعفے دیئے تو ان کے استعفے کس طرح نامنظور ہوسکتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے 7 ماہ تک رجوع نہیں کیا، ان کی موجودگی میں بیٹھنا پارلیمنٹ اور ایوان کے اراکین کے لئے توہین ہے۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے وزیر دفاع کی جذبات سے بھر پر تنقید کے جواب میں کہا خواجہ آصف نے وزیراعظم کی موجودگی میں غلط زبان استعمال کی جو انتہائی نا مناسب ہے ، پارلیمنٹ میں کوئی تہذیب ہوتی ہے۔ جوڈیشل کمیشن پر دستخط کرنے کے بعد تمام جماعتیں اسمبلی آنے کی دعوت دیتی رہیں۔ پارلیمنٹ میں اس لئے آئے کہ جوڈیشل کمیشن بن گیا ہے ۔ ان کا مزید کہنا تھا بتایا جائے میں نے کسی کو گالی دی ہے۔
ان کا کہنا تھا یمن کے تنازعہ میں فریق بن گئے تو ثالثی کیسے کریں گے وزیراعظم سے مطالبہ کرتے ہیں ہم سے سچ بولیں سعودی عرب سے کیا معاہدہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا جب تک دھاندلی کرنے والوں کو سزائیں نہیں ملیں گی شفاف الیکشن نہیں ہو سکتے۔ شور مچانے والے خوفزدہ ہیں کہ جوڈیشل کمیشن کی تحقیقات انہیں بے نقاب کر دے گی ۔ تحریک انصاف نے مشرق وسطیٰ فوج بھیجنے کی مخالفت کا فیصلہ کر لیا ہے ۔ پی ئی آئی کا موقف ہے کہ مشرق وسطیٰ فوج بھیجنے کی بجائے پاکستان ثالثی کا کردار ادا کرے۔
تحریر : احسان الحق اظہر