عبداللہ آج اپنے دوست کے بیٹے کی شادی میں شرکت کےلیے بحرین جارہا تھا۔ سفر اسے ہمیشہ سے ہی پسند تھا اور آج تو اس کی شوخی موسم کی وجہ سے زوروں پر تھی۔ بحرین میں بارش شاذ و نادر ہی دیکھنے میں آتی تھی اور آج تو ساون کھل کر برس رہا تھا، اس محبت کی طرح جو انجام سے بےنیاز ہو۔ مگر شاید قدرت کو کچھ اورہی منظور تھا۔
شادی ہال میں داخل ہوتے ہی ایک بزرگ ڈاکٹر صاحب اس کے ساتھ بیٹھ گئے، اس ضمیر کی طرح جو گناہ سے روکتا تو نہیں لیکن اس کا مزہ ضرور کرکرا کر دیتا ہے۔ بارش کا خنک موسم، کھانے کی کھاج اور بیک گراؤنڈ میں چلتے آئٹم سونگز، ڈاکٹر صاحب کی آواز میں سب دب گئے۔
وہ گویا ہوئے، ’’عبداللہ، آج جمعے کا مبارک دن ہے، یہ کالے کپڑے کیوں پہنے ہیں؟‘‘
عبداللہ: ’’جی وہ سفید پہنتے ہوئے شرم آتی ہے کہ کہیں فرشتے منافقوں میں نہ لکھ لیں۔ ابھی اندر باہر ایک جیسا ہے ایک جیسا؛ اس میں آرام رہتا ہے۔‘‘
ڈاکٹر صاحب شاید اپنی بزرگی کے زعم میں جواب سننے کے عادی نہیں تھے۔ انہوں نے بڑی مشکل سے اپنے غصّے کو قابو کیا اور کہنے لگے: ’’کیا بچکانہ باتیں ہیں۔ بڑے ہوگئے ہو، کنپٹی اور داڑھی میں سفیدی آرہی ہے اور تم شوخیوں میں لگے ہوئے ہو۔‘‘
’’جی اسی بات کا تو رونا ہے۔ بال سفید ہو گئے، دل کالا رہ گیا ہے،‘‘ عبداللہ نے جواب دیا۔
اب ڈاکٹر صاحب کو سنہری موقع مل گیا اور کہنے لگے، ’’یہ سب دین سے دوری ہے۔ اگر دین پر چلو تو یوں گناہوں میں زندگی نہ گزرے۔ نفاق سے بالکل پاک ہوجاؤ…‘‘ ابھی وہ اپنا وعظ شروع ہی کرتے، عبداللہ نے بات بیچ میں سے اُچک لی۔
’’ارے بزرگوار، دین سے دوری والے تو پھر بھی بھلے ہیں۔ میرے جیسوں کا پوچھیے جو آس پاس رہتے ہوئے بھی منافق ہیں۔‘‘
’’کیا تمہارا ضمیر مرگیا ہے جو ایسی باتیں کر رہے ہو؟‘‘ بزرگوار نے تیر چلایا۔
عبداللہ: ’’جی بالکل سچ کہا۔ جب میں نے کوئی 20 سال پہلے جاب شروع کی، اسی دن مرگیا تھا۔‘‘
عبداللہ سوچنے لگا کہ کچھ لوگوں کا کسی صحبت یا نیکیوں کے شوق میں لائف اِسٹائل تو بدل جاتا ہے مگر سوچ وہی رہتی ہے۔ خدا کے ہر بندے کو اپنے بنائے معیارات و ترجیحات پر تولنا اور اس پر کوئی نہ کوئی قدغن لگانا۔
ڈاکٹر صاحب نے بات بگڑتے دیکھی تو انہوں نے ماحول بدلنے کےلیے ایک اور سوال کردیا۔ مگر اب عبداللہ کا دل بھر آیا تھا، اب اسے کہاں چھوڑنا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے سوال کیا۔
’’آپ کیا کرتے ہیں؟‘‘
’’جی، پارٹ ٹائم کنسلٹنگ کرتا ہوں اور پارٹ ٹائم منافق ہوں۔‘‘
’’مجھے تو فل ٹائم لگتے ہو،‘‘ وہ کہاں پیچھے رہنے والے تھے۔
’’جی نہیں، کچھ نشانیاں ہیں منافق کی، وہ خوش قسمتی سے نہیں ہیں۔ لہذا فی الحال تو پارٹ ٹائم ہی ہوں۔‘‘
اب باقی لوگ بھی متوجہ ہوگئے تھے۔ ایک صاحب نے کہا کہ عبداللہ اپنی بات کی وضاحت کرے۔
’’جی ضرور! دیکھیے سب سے پہلے تو ضمیر کو نکال دیجیے۔ ہم کام پیسہ کمانے کےلیے کرتے ہیں۔ عزت و شہرت کےلیے، بیوی بچوں کےلیے مگر اس پر ملمع اسلام، وژن اور امت کا چڑھا دیتے ہیں۔ یہ بڑی غلط بات ہے، ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ بندے کو جھوٹ نہیں بولنا چاہیے۔ اگر مرنے کے بعد فرشتوں نے پوچھ لیا کہ یہ جو لا اِلٰہ کہتے تھے یہ سچ تھا یا تمہاری باقی باتوں کی طرح جھوٹ یا اپنے آپ کو بڑا ثابت کرنے کی کوئی کہانی؟ تو کیا جواب دیں گے؟
’’لڑکپن سے جوانی، جوانی سے بڑھاپا۔ دنیا میں ہمیشہ اپنے سے اوپر والے امیر کو دیکھا اور اصل میں جو سب سے اوپر والا ہے اسے بھلا دیا۔ آپ نیک لوگ ہیں آپ کا ضمیر زندہ ہوگا، میرا تو مرچکا ہے۔‘‘
’’رہا سوال نفاق کا، تو کیوں جھوٹ بولوں؟ بالکل ہے اور شاید موت تک رہے۔ نفاق کا کھٹکا آخری سانس تک لگا رہے یہ اس سے بہتر ہے کہ ’نفاق سے پاک‘ ہونے کا دعویٰ پیش کروں۔‘‘
لوگوں کے چہرے سوالیہ نشان بنے ہوئے تھے۔ صرف بیک گراونڈ میوزک عبداللہ کے دل کی دھڑکنوں کا ساتھ دے رہا تھا۔
عبداللہ نے بہتی آنکھوں کے ساتھ بات پھر سے جوڑی۔
’’دیکھئے جناب! تین باتیں ہیں۔ جب تک باقی رہیں مجھے اپنے نفاق پر ان شاء اللہ پورا یقین رہے گا۔
’’پہلی یہ کہ اللہ میرے لیے بڑا نہیں ہے۔ میں روز نماز میں کہتا ہوں کہ اللہ اکبر، مگر دل نہیں مانتا۔ نماز سے باہر تو پیسہ اکبر ہے، اولاد، بیوی، خاندان، عزت، شہرت، علم، سفارش، اثر و رسوخ، تعلقات، نیکیاں، یہ سب اکبر ہیں۔ کوئی پریشانی یا مصیبت آجائے تو سب سے پہلے نظر بینک بیلنس پر، پھر دوست احباب اور تعلقات پر، پھر رشتے داروں پر، پھر اپنی تعلیمی اسناد اور ڈگریوں پر، پھر اپنی نام نہاد پرسنیلٹی اور شخصیت پر، پھر ذہانت و حاضر جوابی پر۔ پھر… پھر… اللہ پاک تو کہیں آخر میں جا کر آتے ہیں۔ ترجیحات میں اللہ سب سے آخر میں ہے۔
’’حتٰی کہ نیند بھی اس سے زیادہ پیاری ہے۔ بیوی کی کال بھی، کرکٹ کا میچ بھی، باس کی ای میل بھی، نیکیوں کا ڈھنڈورا بھی، انسانیت کی خدمت بھی، لوگوں کا علاج بھی، اسٹریٹجک میٹنگز بھی، لوگوں کی زندگی بدل دینے والی ٹریننگ بھی۔ اللہ کا نمبر سب سے آخری ہے۔ جب دنیا میں کوئی کام کرنے کے قابل نہیں بچتا تب اللہ یاد آتے ہے۔ جب ساری عقل، پیسہ اور چالیں فیل ہوجاتی ہیں تب دعا مانگتا ہوں۔
’’اِن ساری حقیقتوں کے سامنے جب اللہ اکبر سنتا ہوں تو آنسو نکل آتے ہیں۔ بندہ منہ پر تو جھوٹ نہ بولے۔ جس کے بارے میں پتا کچھ نہیں، اس کے بارے میں قیاس آرائیاں کیوں کرے؟
’’دوسری وجہ یہ ہے کہ اللہ میرے لیے تصور ہے، حقیقت نہیں۔ جیسے امریکا کا تصور ہوتا ہے، اچھے حسین چہرے کا، بڑی گاڑی کا، چاند و مریخ کا، بالکل ایسے ہی۔ فلم میں زلزلے کی عکس بندی ہوتی ہے، یہ ایک تصور ہے جسے دیکھ کر ہم انجوائے کرتے ہیں۔ ایک زلزلہ وہ ہے جو نظر کے سامنے حقیقت بن کر آتا ہے۔ دونوں کے احساسات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
’’جن لوگوں کی زندگی میں اللہ سبحانہ و تعالی حقیقت ہوتے ہیں، ان کی زندگی میری جیسی نہیں ہوتی۔ اِمام ابوزاعی رحمتہ اللہ علیہ کی جائے نماز ہمیشہ گیلی رہتی کہ وہ اتنا روتے تھے۔
’’تخلیق سے خالق کی پہچان ہوتی ہے۔ ہم آئی فون دیکھ کر اِسٹیو جابز کو داد دیتے ہیں۔ مجھے دیکھ کر سبحان اللہ کہنا تو درکنار، کسی کو اللہ یاد تک نہیں آتا۔ میں تو خود ہاتھ پر تسبیح باندھے گھومتا ہوں کہ ایک ویجوئل ریمائنڈر رہے کہ مسلمان ہوں۔ پتا نہیں یہ تسبیح دل میں کب جائے گی۔
’’اللہ کو حقیقت ماننے کا دعوی تو وہ کرے جس کی کمر بستر کی گرمی کو ترسے۔ میرے جیسے منافقوں کو تو ڈرنا ہی چاہیے۔ کسی دن کوئی اللہ والا زبان کی نیچے آگیا تو آہوں کے حصار میں دعائیں راکھ کردے گا۔
’’اور تیسری سب سے بڑی وجہ کہ میرا معبود اور محبوب ایک نہیں۔ معبود غلط ہوجائے تو اتنی تباہی نہیں مچتی جتنی محبوب کے غلط ہوجانے سے ہوتی ہے۔ سب کی طرح میرا معبود بھی اللہ ہے مگر محبوب کوئی اور… پیسہ، عزت، شہرت، علم، عشق، بیوی، بچے، نیند، فلاں اور فلاں۔
’’ہر وہ آئیڈیا جس میں پیسہ نظر آئے، مجھے پسند آجاتا ہے۔ ہر وہ جگہ جہاں فائدہ دکھائی دے، جانے کے لائق ٹھہری۔ ہر وہ گفتگو جہاں عزت ملنے یا سراہے جانے کی امید ہو، وہاں جانا لازم ٹھہرا۔ ہر وہ شخص جو تعریف کرے، بھلا لگے۔ آپ میرے درد کو کیا جانیں، مجھ سے میرا محبوب بدل گیا ہے۔ نام اس کا، خیالات کسی اور کے؛ ذکر اس کا، دل کسی اور کا۔ جائے نماز اس کی، سجدہ کہیں اور؛ جبین اس کی، نشان کسی اور کا۔ اگر میں نیک ہوتا تو دنیا میں اتنا ظلم کیوں ہوتا؟ مجھے کوئی نیک کہے تو دل چاہتا ہے کہ اس کا منہ نوچ لوں۔‘‘
’’بس! اتنی سی بات ہے۔ بتائیے، ہوں ناں پارٹ ٹائم منافق؟‘‘
ڈاکٹر صاحب پھر سے گویا ہوئے: ’’تم اپنا دماغی علاج کرواؤ، تمہارے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟‘‘
’’جی، بہت سیدھا سا مسئلہ ہے۔ علم و عشق آپ جیسے نیک لوگوں کو آگے لے جاتا ہے۔ رتبے بڑھاتا ہے، سیڑھیاں چڑھاتا ہے۔ میں اپنے رب کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کی تمام تر صفات کا میں بھکاری ہوں کہ یہ دونوں میرے لیے حجاب بن گئے۔‘‘
کھانا ٹھنڈا ہوگیا، لوگ خاموش ہوگئے، بارش رک گئی اور گانے بھی بند ہو گئے۔
عبداللہ اپنے گناہوں اور نفاق کی پوٹلی اُٹھائے آج پھر اپنے مالک کے سامنے سربسجود تھا۔
’’اے اللہ! کچھ نہیں پاس جو تیری نذر کروں۔ یہ جان ہے، یہ لے لے۔ اب تو پورا مل جا میرے مالک۔ اب تو لوگ تیرے نام پر طعنے دیتے ہیں۔ اب تو تنہا نہ چھوڑ۔ تُو تو جانتا ہے… تو میرے اور میرے گناہوں کے بیچ آجا۔ مجھ سے نہیں چھوٹتے۔
’’تجھے میرے گناہوں کا واسطہ، ایک واری میں پار لگا دے۔ مجھ سے نہیں چڑھی جاتیں یہ سیڑھیاں۔ تو خود ہی اوپر لے جا۔ آمین!‘‘