اوسکر پسٹوریس جوہانسبرگ میں پیداہوا۔جنوبی افریقہ کایہ شہر دنیا کے خوبصورت ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ پیدائش مقامی اسپتال میں ہوئی۔ڈاکٹرنے طبی معائنہ کے وقت محسوس کیاکہ اوسکرکے گھٹنوں سے لے کر پیروں تک ہڈی نہیں ہے۔فوراً ایکسرے کرایا۔ ڈاکٹرکااندازہ بالکل ٹھیک تھا۔اوسکرکی ٹانگوں کے نچلے حصے میں ہڈیاں پیدائشی طور پر غائب تھیں۔
یہ ایک ایسی بیماری تھی جس میں کچھ ہڈیوں کے جینزنہیں ہوتے۔ گیارہ ماہ کی عمرمیں ڈاکٹروں نے گھٹنے کے نیچے سے دونوں ٹانگیں کاٹ دیں۔ اوسکراب آدھاانسان رہ گیا۔ مگر خدانے اسے حیرت انگیز صلاحیتیں دی تھیں۔دس برس کی عمرمیں اوسکرایک مقامی کلب میں کشتیاں لڑنے لگا۔تمام کپڑے پہن کررکھتا تھا۔جوتے بھی نہیں اتارتاتھا۔ کشتی کے فن میں اوسکرنے بہت زیادہ کامیابی حاصل کی۔ایک دن مقابلے میں زخمی ہوگیا۔ جب کوچ زخمی اوسکر کو کلینک لے کرگیاتوسب حیران رہ گئے۔
کسی کومعلوم نہیں تھاکہ وہ ایک معذوربچہ ہے۔اوسکرنے کسی کومحسوس تک نہیں ہونے دیاکہ اس کی ٹانگیں نہیں ہیں۔ صحت یاب ہونے کے بعداس نے فیصلہ کیاکہ دنیا کا سب سے تیزرفتاراتھلیٹ بنے گا۔مگرمسئلہ یہ تھاکہ کس طرح دوڑے۔مصنوئی اعضاء لگانے والے ڈاکٹرکے پاس گیا۔ڈاکٹرفرانکس وین نے جواب دیاکہ پلاسٹک سے بنی ہوئی ٹانگیں لگا تو سکتا ہے مگرمصنوعی اعضاء سے اوسکردوڑنہیں پائے گا۔
اوسکرنے ڈاکٹرکی بات ماننے سے انکار کر دیا۔ اس کا ذاتی فیصلہ تھاکہ پوری دنیامیں ہرمقابلے میں حصہ لیگااورکامیاب ہوگا۔کسی نے بتایاکہ آئس لینڈ میں ایک فیکٹری ہے جس میں ایسی مصنوعی ٹانگیں بنائی جاتی ہیں جنکے سہارے تیزدوڑا جا سکتا ہے۔ مشورہ بالکل درست تھا۔اَسرنامی کمپنی نے دوایسے بلیڈبنائے جواس کے پیروں کی جگہ کام کرتے تھے اور ان کا اوپر والاحصہ گھٹنوں میں فٹ ہوجاتاتھا۔اس کے بعد اوسکرنے پیچھے مڑکرنہیں دیکھا۔2004 میں ایتھنز کے پیرااولمپک میں حصہ لینے کاموقعہ ملا۔
دو سومیٹرکی ریس میں ورلڈریکارڈ بناڈالا۔ بارہ سیکنڈسے بھی کم دورانیہ میں دوسومیٹردوڑنے والا پہلا شخص تھا۔ 2004سے 2012تک اس نے ہر پیرا اولمپک مقابلے میں حصہ لیا۔ چار سو، دوسو اورسومیٹرکی ریس اس کی پہچان بن گئی۔لوگ اسے دیکھنے کے لیے دیوانے ہوجاتے تھے۔وہ ایک سپر اسٹار بن چکاتھا۔اوسکرنے ایک اورمشکل فیصلہ کرلیا۔وہ نارمل اتھلیٹس کے ساتھ بھی ریس لگائے گا۔یہ ناممکن تھا۔ اوسکرکے فیصلے کی بھرپورمخالفت کی گئی۔
یہاں تک کہاگیاکہ اس کے مصنوعی اعضاء سے عام کھلاڑی زخمی ہوسکتے ہیں۔ بین الاقوامی اداروں نے اسے نارمل کھلاڑیوں کے ساتھ ریس لگانے سے ممنوع قراردیدیا۔اوسکر کا خواب اب ختم ہونے لگا۔اس نے فیصلے کے خلاف سوئزرلینڈ میں اپیل کردی۔ فیصلے کوکالعدم قراردے دیا گیا۔انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک شخص معذوری کے باوجود نارمل بہترین اتھلیٹوں کے ساتھ دوڑنے کی اجازت حاصل کرگیا۔2012کی اولمپکس میں لوگ اسے دوڑتادیکھ کرحیران رہ گئے۔ ملکی ٹیم میں اس طرح حصہ لیاکہ ساؤتھ افریقہ کی ٹیم ریلے ریس بڑے آرام سے جیت گئی۔
یہ انسانی تاریخ کاایک حیرت انگیزلمحہ تھا،جس میں ایک معذورشخص نے بہترین دوڑنے والوں کوپیچھے چھوڑ دیا۔یہ کیسے ممکن ہوا۔اس کی بنیادی وجہ اوسکرکی قوت ارادی کی بے پناہ مضبوطی اوروہ مواقع تھے،جواس کے ملک نے اس کے لیے فراہم کیے۔کسی جگہ پربھی اسکامذاق نہیں اُڑایاگیا۔ہمارے جیسے معاشرے میں آپ تصورکرسکتے ہیں کہ ایک بغیرٹانگوں والے شخص کوموقع فراہم کیاجائے کہ اپنے خواب پورے کرسکے۔یہاں تومکمل انسانوں کو ان کے حقوق نہیں ملتے۔ معذور اشخاص کی کیابات کی جائے۔
ٹریسکازورنپیدائشی نابینا بچی ہے لیکن کیلفورنیامیں پیداہونے والی اس بچی کے خواب انتہائی بلندتھے۔خواب کیونکہ آنکھوں کے محتاج نہیں ہوتے لہذاٹریسکاکاعزم تھاکہ کھیلوں کی دنیامیں بلندترین مقام حاصل کریگی۔ مگرکیسے۔ ٹریسکاتھوڑی سی بڑی ہوئی تو تیراکی سیکھناشروع کردی۔ہمارے ملک میں توخیرسوچاہی نہیں جا سکتا کہ نا بینا لڑکی کوتیراکی کے مواقع میسرکیے جائیں گے۔ تھوڑے عرصے میں کوچ نے محسوس کیاکہ ٹریسکا بہترین تیراک بن سکتی ہے۔
ٹریسکا نے پڑھنے کے ساتھ ساتھ تیراکی کواوڑھنابچھونابنالیا۔صرف پندرہ برس کی عمرمیں پیرااولمپک مقابلے میں حصہ لیا۔ 19800کی تیراکی کے مقابلے میں ٹریسکا کو گولڈ میڈل دیاگیا۔یہ لمحہ اس نابینا لڑکی کی زندگی کااہم ترین لمحہ تھا۔مگرابھی تک ٹریسکاکے ذہن میں مزید منزلیں عبورکرنے کی دھن تھی۔1980سے لے کر 2004تک پیرااولمپک مقابلوں میں حصہ لے کراس نابینا لڑکی نے دنیاکانہ ٹوٹنے والاریکارڈ بنا ڈالا۔ آج تک پچپن میڈل لے چکی ہے۔
اکتیس دسمبر 2004 کو ٹریسکا کو نیویارک کے ٹائم سکوئرمیں مہمان خصوصی کے طور پر بلایا گیا۔ جب 2005کاسال شروع ہوا، توٹریسکاکی آواز نے نئے سال کااستقبال کیا۔ ٹریسکانے جوکچھ بینائی نہ ہونے کے باوجودحاصل کیا، اس کا تصور بینائی رکھنے والا انسان بھی نہیں کرسکتا۔ شائدسوچ بھی نہیں سکتا۔ہمارے ملک میں معذوربچوں اور بچیوں کامستقبل کیا ہے، یہ تکلیف دہ سوال ہے۔ہوسکتاہے آپکے پاس اسکاجواب ہو۔ میرے پاس تو جواب نہیں ہے۔
اپنے ملک کی طرف دیکھیے۔بیس کروڑکی آبادی میں چالیس لاکھ ایسے لوگ ہیں جوکسی نہ کسی معذوری کا شکار ہیں۔یہ محض ایک قیافہ ہے کیونکہ ہمیں اپنی آبادی کاکوئی علم نہیں۔ویسے اگرہم اندازہ کربھی لیں تو کیا تیر مارلیں گے۔ بیس کروڑیاپچیس کروڑیااٹھائیس کروڑلوگوں میں سے دس بارہ لاکھ ہی انسانی سطح پرزندہ ہیں۔باقی توسانس لیتے ہوئے شناختی کارڈ ہیں جنکی کوئی اہمیت نہیں۔پورے ملک میں چالیس لاکھ کے قریب انسان معذورہیں۔ ان کے لیے صرف اورصرف پانچ سوخصوصی اسکول ہیں۔یعنی آٹھ ہزار بچوں کے لیے ایک اسکول، ایک درسگاہ۔ کیا یہ تعداد تسلی بخش ہے، قطعاً نہیں۔
یہ بچے اوربچیاں قطعاً بدقسمت نہیں۔ان کی اصل بدقسمتی یہ ملک ہے جس میں حادثاتی طورپرپیداہوگئے ہیں۔عام سرکاری اسکولوں کاکوئی حال نہیں۔توان خصوصی اسکولوں کاکیاحال ہوگا۔ دوسوکے قریب نجی ادارے ہیں جو کسی نہ کسی طور پرخصوصی لوگوں کی تعلیم وتربیت کر رہے ہیں۔ جس ملک میں بنیادی تعلیم وتربیت کے مواقع عام لوگوں کوحاصل نہیں،وہاں خصوصی لوگوں کاکیا ذکر کرنا۔ پندرہ لاکھ کے لگ بھگ لڑکیاں اورخواتین بھی ان چالیس لاکھ افراد میں شامل ہیں۔ تعلیم کو تو رہنے دیجیے۔ ان کے لیے کوئی ٹرانسپورٹ تک مختص نہیں۔
اگر کہیں علیحدہ سیٹوں کا نشان بنابھی ہے تواس پر دوسرے لوگ آرام سے براجمان ہوں گے۔ کسی معذورشخص کے لیے کوئی بھی نشست خالی نہیں کرتا۔ مہذب دنیامیںاگرٹرین یابس میں ان کی صرف دو مخصوص نشستیں ہیں، تو بدترین رش میں بھی خالی رہیں گی۔ اگرکوئی معذورشخص آجائے،توبس یاٹرین کا منتظم اس وقت تک گاڑی نہیں چلاتاجب تک خصوصی شخص اطمینان سے اپنی سیٹ پربیٹھ نہیں جاتا۔ہمارے ہاں،اتنے بہتر رویے کی توقع نہ ہونے کے برابر ہے۔ سواری اترنے اورچڑھنے کے لیے بھی کوئی خاص انتظام نہیں ہے۔
اندازہ فرمائیے کہ وہیل چیئر پربیٹھاہواانسان کسی بھی عام بس یاٹرین میں کیسے سوارہوسکتاہے!اس کے لیے ناممکن ہے۔ خصوصی لوگوں کے لیے کھیلوں کے انتظامات کی طرف آئیے۔ آج تک کوئی گراؤنڈ یا اسٹیڈیم مختص نہیں کیا گیا جس میں ان لوگوں کی تربیت کی جاسکے۔ انھیں کھیلنا سکھایا جائے۔ ان میں اعتماد پیداکیاجائے کہ وہ بھی معاشرے کا صحت مندحصہ ہیں۔ بین الاقوامی معیارکی ایک بھی کھیلوں کی سہولت ان لوگوں کے لیے موجودنہیں ہے۔
بدقسمتی سے پورامعاشرہ تسلیم کرچکاہے کہ یہ تمام لوگ ایک سماجی بوجھ ہیں اورانکاکوئی مقام نہیں۔ ایسے جاہل لوگ بھی موجودہیں جومعذوری کوگناہوں کی سزا گردانتے ہیں۔ میراسوال ہے،کس کے گناہوں کی۔ یہاں توجرائم سے لتھڑے ہوئے لوگ ساٹھ سال سے مقتدرہیںاورمزے کر رہے ہیں۔ان طاقتورلوگوں کے لیے یہاں کوئی مسئلہ نہیں۔ ہمارا مشکل ملک کسی بھی خصوصی بچی کوٹریسکا نہیں بنا سکتا۔ کسی بھی لڑکے کو اوسکرجیسابرق رفتارایتھلیٹ نہیں بنا سکتا۔ معذوری گناہ یاجرم نہیں ہے۔ہم جیسے بدقسمت معاشرے میں جنم لینااورزندرہ رہنا اصل جرم ہے۔ اس جرم کی بھرپور سزاان چالیس لاکھ لوگوں کوہروقت ملتی رہتی ہے! مگر کوئی بھی انکو اصل جرم نہیں بتاتا!