کراچی: سندھ کے دارالحکومت کراچی میں سیاسی سرگرمیاں عروج پر ہیں ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) کے سیاسی قلعہ لیاقت آباد ( لالو کھیت ) میں بڑے جلسہ عام کے انعقاد کے بعد ایم کیو ایم کے دو دھڑوں بہادر آباد اور پی آئی بی نے لیاقت آباد میں اسی جگہ یعنی ٹنکی گراؤنڈ میں مشترکہ جلسہ منعقد کیا۔
جہاں پیپلز پارٹی نے جلسہ کیا تھا اور دوبارہ ’’ مہاجر سیاست ‘‘ کرنے کا اعلان کیا جبکہ مہاجر قومی موومنٹ کے چیئرمین آٖفاق احمد نے بھی لیاقت آباد فلائی اوور پر جلسہ منعقد کیا ، جس میں انہوں نے جنوبی سندھ صوبہ بنانے کا مطالبہ کیا ۔ 12 مئی کو پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف نے ایک ہی گراؤنڈ میں جلسہ منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ تادم تحریر دونوں جماعتوں میں تصادم کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا۔ سندھ حکومت نے 10 مئی کو آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کرنے کا اعلان کیا ہے۔
کراچی کی سیاست میں پید اہونے والے سیاسی خلاء کو پر کرنے کے لیے مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتیں غیر معمولی کوششوں میں مصروف ہو گئی ہیں ۔ یہ خلاء پید اہونے کے تین بڑے اسباب ہیں ۔ پہلا سبب یہ ہے کہ کراچی کی سیاست پر تین عشروں سے زیادہ اجارہ داری رکھنے والی ایم کیو ایم کئی دھڑوں میں تقسیم ہو گئی ہے ۔ ایم کیو ایم سے منحرف ہونے والے اہم رہنماؤں نے ایک نئی سیاسی جماعت پاک سرزمین پارٹی بھی قائم کر لی ہے، جس کا بیانیہ ایم کیو ایم سے بہت مختلف ہے۔
دوسرا سبب یہ ہے کہ کراچی میں بہت حد تک امن قائم ہو گیا ہے۔ طویل عرصے کے بعد ان علاقوں میں بھی وہ سیاسی جماعتیں اپنی سرگرمیاں شروع کیے ہوئے ہیں ، جو کبھی ان کے لیے نو گو ایریا تھیں ۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے 44 سال کے بعد لیاقت آباد جیسے علاقے میں ایک جلسہ عام منعقد کیا ۔ اس طرح دیگر سیاسی و مذہبی جماعتیں بھی ایم کیو ایم کے زیر اثر علاقوںمیں سرگرم ہیں، جو لوگ اس وقت 30 سے 35 سال تک کی عمر کے ہیں ، انھوںنے پہلی دفعہ کراچی کا ایسا ماحول دیکھا ہو گا۔ کراچی میں سیاسی خلاء پیدا ہونے کا تیسرا سبب نئی حلقہ بندیاں ہیں۔ ان حلقہ بندیوں سے پہلی دفعہ اردو بولنے والوں کے ساتھ ساتھ دیگر زبانیں بولنے والوں کی منتخب ایوانوں میں نمائندگی کے آثار پیدا ہوئے ہیں۔ اگر عام انتخابات تک کراچی میں امن قائم رہتا ہے اور دیگر سیاسی جماعتوں کو سرگرمی کا موقع ملتا ہے تو کراچی میں سیاسی منظر نامہ تبدیل ہو سکتا ہے۔
اس صورت حال کا ادراک کرتے ہوئے شاید ایم کیو ایم کے دونوں دھڑوں نے مشترکہ جلسہ کے انعقاد کا فیصلہ کیا اور طویل عرصے بعد مہاجر سیاست کرنے کا اعادہ کیا۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ٹنکی گراؤنڈ لیاقت آباد میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے ایم کیو ایم پر زبردست تنقید کی اور کراچی شہر اور اردو بولنے والوں کی تباہی کا ایم کیو ایم کو ذمہ دار قرار دیا ۔ انہوںنے ایم کیو ایم کا نام لیے بغیر کہا کہ ہمیں ’’ مستقل قومی مصیبت ‘‘ سے نجات حاصل کرنا ہے۔ اس جلسہ کے جواب میں ایم کیو ایم کے دونوں دھڑوں نے ٹنکی گراؤنڈ میں جو جلسہ منعقد کیا ، اس میں ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے پیپلز پارٹی پر سخت تنقید کی اور جاگ مہاجر جاگ کا نعرہ لگایا ۔
ایم کیو ایم بہادر آباد دھڑے کے سربراہ خالد مقبول صدیقی نے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم وڈیروں ، جاگیرداروں اور کرپشن کرنے والوں کے لیے مستقل قومی مصیبت ہیں جبکہ ایم کیو ایم پی آئی بی گروپ کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ ہمیں ’’ پاپا ، پھپھو اور پپو پارٹی ‘‘ نے للکارا ہے۔ ان کے جلسے کے دوسرے دن آفاق احمد نے لیاقت آباد کے فلائی اوور پر جلسہ منعقد کیا اور کہا کہ الیکشن قریب آئے تو ایم کیو ایم کے رہنماؤں کو مہاجر سیاست یاد آ گئی۔ انہوں نے جنوبی سندھ صوبہ کا مطالبہ کیا ، جس پر پیپلز پارٹی اور سندھ کی قوم پرست جماعتوں نے سخت ردعمل کا اظہار کیا اور کہا کہ الیکشن کی وجہ سے سندھ میں نفرت کی آگ نہ بھڑکائی جائے ۔ سندھ کے عوام کبھی سندھ کی تقسیم قبول نہیں کریں گے۔
کراچی میں سیاسی خلاء پر کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ 12 مئی کو کراچی میں کئی سیاسی جماعتیں اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کریں گی۔ یہ دن 12 مئی 2007 کی یاد میں منایا جاتا ہے، جب اس وقت برطرف چیف جسٹس افتخار چوہدری نے کراچی کا دورہ کرنا تھا لیکن وہ ایئرپورٹ سے باہر نہیں نکل سکے تھے اور کراچی میں 50 سے زائد سیاسی کارکنوں اور شہریوں کو شہید کر دیا گیا تھا ۔ 12 مئی کو پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف دونوں نے گلشن اقبال کے علاقے میں حکیم سعید گراؤنڈ میں جلسہ منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے۔
ضلعی انتظامیہ نے پیپلز پارٹی کو جلسہ منعقد کرنے کی اجازت دی ہے کیونکہ پیپلز پارٹی نے ہی اس کے لیے درخواست دی تھی۔ ضلعی انتظامیہ نے تحریک انصاف کو خبردار کیا ہے کہ وہ یہاں جلسہ نہیں کر سکتی۔ تصادم کے خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت آئندہ مالی سال کے لیے 10 مئی کو بجٹ پیش کرے گی لیکن سندھ اسمبلی صرف تین ماہ کے بجٹ کی منظوری دے گی۔ اگلے 9 ماہ کے بجٹ کی منظوری آئندہ منتخب حکومت دے گی۔