تحریر : انجم صحرائی
پی پی پی سے مسلم لیگ (ق ) اور مسلم لیگ (ق) سے پی پی پی اور اب پی پی پی سے تحریک انصاف جوا ئن کر نے والے سردا ر بہادر خان سیہڑ اور ملک نیاز احمدجکھڑ بارے گو خبر نئی ہے مگرمعاف کیجئے اس میں خبر میں نیا پن کچھ بھی نہیں ہمارا میڈ یا بھی کمال کا ہے یوں لگتا ہے کہ انہو نی ہو گئی اور ایک بڑا بریک تھرو تھا جو اپنے سننے والوں اور پڑ ھنے والوں کو دیا ۔ حالا نکہ ایسا کچھ بھی انو کھا نہیںہوا یہ ہمار ی تا ریخ سے بے خبری ہے کہ ہم ان پی پی پی چھوڑ کر تحریک انصاف جوائن کر نے والوں کی نو حہ خوانی کر رہے ہیں ۔ ہمارے بعض دوست ان کی اس سیا سی قلا بازی کو نظریہ سے غداری قرار دے رہے ہیں جان سے امان پا ئوں تو پو چھوں کہ ان جا نے والوں کا نظریہ تھا کیا ؟ انہی کا ہی نہیں بلکہ جن آ قا ئوں کو چھوڑ کر یہ گئے ہیں اور جن کے دامن کو انہوں نے تھا ما ہے ان کے نظریا ت کیا ہیں ؟ ایک زما نہ ہوا کر تا تھا جب ایشیا سرخ ہے اور ایشیا سبز ہے کے نعرے لگا کرتے تھے سبز اسلام پسندوں کا سلو گن ہو تا تھا اور سرخ شو شلشٹ نظریات کے اظہار کی اصطلا ح تھی ۔ایوب خان دور میں جنم لینے والی پی پی پی نے اسلامی شو شلزم کا نعرہ لگا کر ایک نئے سیا سی کلچر کو متعارف کرایا ۔ جے اے رحیم ، مبشر حسن ، شیخ رشید ،حنیف رامے اور معراج محمد خان جیسے با ئیں بازو کے دانشوروں نے اسلامی بنیاد پرستوں کے خلاف کا میاب مہم جو ئی کا آ غاز کیا ۔ اور یوں ملک میںسبز اور سرخ بنیا دوں پر ایک نظریا تی کشمکش شروع ہو ئی ۔ یہ وہ ز ما نہ تھا جب آج کی سپر پا ور امریکہ کو روس جیسی ایک بڑی سپر پاور کا چیلنج در پیش تھا اور ان دو بڑی سپر پاورز میں دنیا کی با لا دستی کے لئے سرد جنگ زوروں پہ تھی اور ہم سبز اور سرخ کے نعرے لگا تے دانستہ یا نا دانستہ ان دو بڑی قو توں کے مقا صد پو رے کر نے میں اپنا پورا زور لگا رہے تھے ۔ کہا جا سکتا ہے کہ اس زما نے میں نظریا تی سیا ست تھی یا پھر اس سے بھی پہلے قیام پا کستان سے بھی پہلے انگریز سا مراج کے خلاف چلا ئی جانے والی تحریک آزادی کو بھی ایک نظریا تی تحریک کہا جا سکتا ہے کہ اس تحریک میں سا مراج کی غلا می سے نجات کا نظریہ شا مل تھا ۔ پھر تحریک پا کستان کو بھی آپ ایک نظریاتی سیا سی تحریک کہہ سکتے ہیں۔
تحریک پا کستان کو خواہ مذ ہبی نظریاتی سیا سی تحریک کہہ لیں یا پھر اسے معا شی سیا سی تحریک کا نام دے لیں یہ تھی ایک نظریا تی تحریک کہ ہر دو صورتوں میں انگریز سا مراج کے بعد ہندو بنیا سے آزاد مذ ہبی ، معا شی اور معا شر تی بنیا دوں پرالگ وطن کا حصول تحریک پا کستان کا نظریہ تھا۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آزاد وطن کے حصول کی تحریک میں بر صضیر پاک و ہند کے سبھی مسلمان اس نظریہ کے حامی نہیں تھے۔ آ با دی کے لحاط سے مسلمان اکثریت کے حامل علا قوں پر ایک الگ مسلم ریا ست کے قیام با رے مسلم لیگی نظریے کے علماء کا ایک بڑا طبقہ اس لئے مخا لف تھے کہ وہ سمجھتے تھے کہ پا کستان کا قیام ہند وستان کے مسلما نوں کی وحدت اور قوت کو تقسیم کر نے کا سبب بنے گا ۔ ایک اور طبقہ بھی تھا پاکستان مخالف اور وہ تھے پنجاب کے یو نینسٹ۔یو نینسٹ پا رٹی پنجاب کے جا گیرداروں کا وہ گروپ تھا جس کا نہمقصد آزادی تھا اور نہ ہی غلا می سے نجات ان کا مسئلہ تھا ۔ ان کا مقصد صرف اور صرف چڑ ھتے سورج کی پو جا کرنا اور آ نے والے اقتدارو دبار میں اپنی کر سی کی حفا ظت کر نا تھا ۔ پنجاب کے جا گیرداروں کے اس گروپ جسے یو نیسٹ مسلم لیگ کے نام سے قائم کیا گیا اس میں پنجاب کے ہندو ، سکھ اور مسلمان جا گیرداراور وڈیرے سبھی شا مل تھے ۔یو نیسٹ پا ر ٹی کے با نیان میں سکندر حیات ،فضلی حسین اور چھو ٹو رام اپنے اپنے علا قوں کے بڑے وڈیرے اور جا گیردار تو تھے ہی ان سب میں ایک اور بات بھی مشترکہ تھی اور وہ یہ کہ ان سبھی کا تعلق تاج بر طا نیہ کے وفادار اور مرا عات یا فتہ خاندا نوں سے تھا ۔ اور یو نیسٹ پا رٹی کے یہ سبھی با نیان حکو مت بر طا نیہ سے” سر ” کے خطاب یا فتہ تھے ۔تاج بر طا نیہ سے ان کی وفاداری کا اندازہ اس بات سے لگا یاجا سکتا ہے کہ 1942میں پنجاب کے ان خانوں ، چو ہد ریوں ،ملکوں اور ٹوانوں نے بھارت مو و منٹ کی مخالفت اور دوسری جنگ عظیم میں اتحادی قو توں کی اس وقت حما یت کی جب انگریز سا مراج کے لئے خلاف کی جا نے والی جدو جہد کے جرم میں آزادی کے متوالے کا لے پا نی سزا ئیں کاٹ رہے تھے اور پھا نسی گھاٹ پہ نعرہ تکبیر بلند کرتے ہو ئے شہادت کی موت کو گلے لگا رہے تھے۔
اس وقت یہی جا گیردار اور وڈیرے تھے جن کی وفا داروں کے سبب انگریز بہادر ا ن وطن فروش سپو توں کو خطا بات اور جا گیروں سے نواز رہا تھا ۔ کہا جا سکتا ہے کہ یہ جاگیردار طبقہ صرف اقتدارو اختیار کے حصول کے لئے کچھ بھی کر نے کو تیار رہتا تھا اور تیار رہتا ہے ۔ سر سکند حیات اور یو نیسٹ پا ر ٹی نے پہلی بار “I am Punjabi first then a Muslim”; کا نعرہ لگا یا . ایسے نعرے ہمیں آج بھی سننے کو ملتے ہیں ہمارے وسیب کے ایک بزرگ قوم پرست راہنما جب بھی مو قع ملتا ہے کہا کرتے ہیں کہ” میں پنج ہزار سال پرانا سرا ئیکی تے چودہ سو سال توںمسلمان ہاں” تحریک پا کستان کے دوران جب سردار سکند حیات نے مسلم لیگ کی بڑ ھتی ہو ئی مقبو لیت محسوس کی تو 1936 میں یونیسٹ پا رٹی اور مسلم لیگ کے در میان لکھنو میں” سکندر جناح پیکٹ ” کے تحت ان جا گیر داروں اور وڈیروں نے مسلم لیگ کے سا تھ اپنے روبط بڑ ھا نے شروع کئے ۔ لیکن اس کے با وجود یہ جا گیردار اور وڈیرے چو نکہ تاج بر طا نیہ کے وفادار اور خطاب یا فتہ تھے ۔ان کی جا گیریں اور ذیلداریاں انگریز سا مراج کی مر ہون منت تھیں اس لئے تحریک پا کستان میں ان کے رول کو مثبت قرار نہیں دیا جا سکتا 1942 میں یو نیسٹ پا رٹی کے سردار خضر حیات ٹوانہ پنجاب کے وزیر اعلی تھے ۔ وہ مسلم لیگ کی مخالف جما عتوں انڈین نیشنل گا نگریس اور مشرونی اکالی دل کے اتحاد اور آ شیر باد سے وزیر اعلی بنے تھے۔
پنجاب کے تقریبا سبھی جا گیردار اور لینڈ لارڈ یو نیسٹ پارٹی میں ان کے سا تھ ہے ۔1947 کے ہو نے والے صوبائی ریفرنڈم میں مسلم لیگ نے پنجاب میں86 ن میں سے79نششتوں پر کا میا بی حا صل کی ۔ یو نیسٹ پا رٹی کی بد ترین شکشت کے با وجود ٹوانہ حکو مت نے اپنے سیا سی حلیفوں انڈین نیشنل گا نگریس اور مشرونی اکالی دل کے سا تھ مل کردو ماہ تک مسلم لیگ کو حکومت نہ بنا نے دی ۔ پا کستان بننے کے بعد جب پنجاب تقسیم ہوا تب پا کستان میں جا گیر داروں ن اور وڈیروں نے مسلم لیگ کا دامن تھا ما ۔ قا ئد اعظم اور قا ئد ملت لیا قت علی خان کی وفات کے بعد ما ضی کے یو نیسٹ” منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے کے مصداق “پا کستان اور مسلم لیگ کے ما لک بن بیٹھے ۔ ما ضی گواہ ہے کہ ان یو نیسٹ خا نوادوں کا کو ئی نظریہ اور کو ئی سیاسی قا عدہ اور قا نون نہیں ۔پا کستان میں ان جا گیردار اور وڈیروں نے بیو رو کریسی ، ملٹری اشٹبلشمنٹ اور مذ ہبی اشرا فیہ سے مل کر پا کستان کی سیا ست اور ریا ست پر قبضہ کر لیا ۔ اور یہ قبضہ آج تک چلا آ رہا ہے۔ سکند مرزا کی ریپبلکن پا ر ٹی ایوب خان کی کنو نشن لیگ میں انہی وڈیروں اور جا گیر داروں کی مو جیں رہیں ۔ وہی ذوالفقار علی بھٹو جسے رو ٹی کپڑا اور مکان کا صرف نعرہ لگا نے پر قوم نے اپنے سر پر بٹھا یا ان کے اقتدار میں آ نے کے بعد پی پی پی نے انہی لو گوں کو سب سے پہلے نشا نہ عبرت بنا یا جو عوام کی بات کر تے تھے اور وہی تاج بر طا نیہ کے وفادار وڈیرے اور جا گیردار اسلا می شوشلزم کے کرتا دھرتا بن بیٹھے۔ ضیاء کی مجلس شوری ہو یا پھر پرویز مشرف کی جمہو ریت کے بطن سے عوام کی بجا ئے یہی چہرے نمودار ہو ئے۔
تحریک پا کستان کے وقت جنو بی پنجاب کے اکثر وڈیرے اور جاگیرداروں کا تعلق بھی یو نیسٹ پا رٹی سے تھا لیہ کے جکھڑ اور سیہڑ خاندان کی ہمد ریاں بھی یو نیسٹ پا ر ٹی کو حا صل تھیں ۔پا کستا ن بننے کے بعد ہما رے ہاں کے ان وڈیروں نے ہمیشہ اقتدار اوراختیار کا سا تھ دیا ۔ ان کا نظریہ ہمیشہ اقتدارو اختیا ر میں حصہ بقدر جثہ کا اصول رہا ۔ اللہ بخثے مر حوم سردار بہرام خان سیہڑ کو انہوں نے دو لتانہ مسلم لیگ کے بعد پی پی پی میں شمو لیت اختیار کی مختصر سے عر صہ کے لئے ایم این اے بھی منتخب ہو ئے بے نظیر بھٹو نے انہیں اپنے پہلے دور میں پیپلز پروگرام لیہ کا چیئرمین نا مزد اورپھر فیڈ رل جج مقرر کیا گیا ۔ ان کے بیٹے سردا ر شہا ب الدین خان سیہڑ پرویز مشرف دور میں لیہ کے پہلے ضلع ناظم بنے اور آج کل پنجاب اسمبلی میں پی پی پی کی جا نب سے ڈپٹی اپو زیشن لیڈر کی ذ مہ داریاں نبھا رہے ہیں ہیں سردار بہرام خان سیہڑ کی وفا ت کے بعد ان کے سیا سی جا نشین سردار جہا نگیر خان نے زیر عتاب پی پی پی چھوڑ کر جو نیجو لیگ اختیار کی اور ضیا ء الحق مار شل لا ء کو جوائن کر لیا مشرف دور میں بننے والے ضلعی نظام میں سیہڑ خاندان کی پا نچوں انگلیاں گھی میں رہیں ۔ لیہ ضلع کی نظا مت ۔تحصیل کروڑ کی نظا مت اور پھر مسلم لیگ ق کے اقتدار میں سردار بہادر خان کی وفا قی وزارت ان کا مقدر بنی ۔ ق کے بے اقتدارا ہو نے کے بعد سیہڑ فیملی کو پھر پی پی پی کی یا د آ ئی اور ایک بار پھر سردار بہا در خان نے پیپلز پا ر ٹی کو جوا ئن کر کے ایم این اے کے امید وار بن بیٹھے مگر نا کام رہے ۔ مسلم لیگ ن میں ان کے علا قا ئی حریف قا بض ہیں ۔ مسلم لیگ ق کو وہ چھوڑ کر آئے ہیں ۔پی پی پی ایک ڈو بتا ہو اجہاز ہے سردار صاحب کیا کرتے کچھ امیدیں ہیں تحریک انصاف سے سو انہوں نے تحریک انصاف کو جو ائن کر لیا ۔ تحریک انصاف جوا ئن کر نے والے جنو بی پنجاب سے تعلق رکھنے وا لوں میں ہما رے نیا ز احمد جکھڑ بھی شا مل ہیں ۔ ملک نیاز تین دفعہ ممبر قو می اسمبلی رہے وفا قی پار لیمانی سیکر یٹری رہے جکھڑ خا ندان بھی یو نیسٹ سیا سی نظر یات کا حامل رہا ہے۔
ملک نیاز جکھڑ بھی مسلم لیگ پی پی پی اور مسلم لیگ ق سے ہو تے ہو ئے تحریک انصاف تک پہنچے ہیں ۔ پر ویز مشرف دور میں تحصیل کو نسل لیہ کی نظا مت اور وفا قی پا رلیما نی سیکریٹری شپ ان کے حصہ میں آ ئی ۔ مر حوم قادر بخش جکھڑ سا بقہ مغربی پا کستان کی سیا ست میں بڑا نام رہا ہے وہ 1962میں صو با ئی کا بینہ کے وزیر بھی رہے اور پھر پی پی پی کے امیدوار کی حیثیت سے ممبر قو می ا سمبلی کا الیکشن بھی لڑا ۔ پا کستا نی سیا ست میں یو نیسٹ سو چ با قا عدہ ایک نظریہ اور ا صول کی حیثیت رکھتی ہے اور یہ سوچ ہے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے ہر آ نے والے چڑ ھتے سورج کو سلام کر نا ۔ ایوب خان کے دور حکو مت میں ہمارے وسیب کے ہی ایک سیا ستدان نے اپنے آپ کو ایوب خان کا کتا کہہ کر اپنی فر ما نبرداری کا اظہار کیا تھا جس پر حبیب جا لب نے ایسے اقتدارو اختیار کی پو جا کرنے والے سیا ستدا نوں کے لئے ہی ” کتے نہیں انسان بنو ” کا پیغام دیا تھا۔ ہماری قو می سیا ست میں آج بھی اسی اشرا فیہ کا قبضہ ہے شریف خاندان کے سیا ست میں متحرک اور فعال ہو نے کے بعد اب ہما رے یہ جا گیردار اور وڈیرے انڈ سٹری کے میدان میں بھی اپنے جھنڈے گا ڑنے لگے ہیں بد لتے ہو ئے سما جی حالات میںانہیں سیا ست کا ایک اور مصرف سمجھ اگیا ہے ۔ قر ضے اور پر مٹ ۔اب ہما رے کل کے یہ جا گیردار آج کے انڈ سٹریلسٹ بنے بڑے بڑے ہا تھ مار رہے ہیں ۔ انتخابات کروڑوں کی گیم بن چکے ہیں مہنگے انتخا بات کی وجہ سے عام سیا سی کا رکن اب ان کے لئے کو ئی درد سر نہیں رہے ۔ مقا بلہ عوام کا نہیں ارب اور کھرب پتیوں کے درمیان ہے ۔ اور عوام کا مقدر تو بس یہی کہ عمران آئے نواز جا ئے ۔ اور اب تو ہو گئی بھٹو بھٹو کے نعروں پہ تا لیاں پیٹنا ہی رہ گیا ہے حکمرا نی وڈے سا ئیں وڈے میاں اور وڈے خان کے گھر کی لو نڈی بنی ہے اور اس کے بعد مالک ہیں وہی جکھڑ ، سیہڑ ، مخدوم ، قریشی اور دولتانے ٹمن اور نوانے کہ یہ دھرتی کل بھی ان کی تھی اور آج بھی ان کی ہے ۔ ان وڈیروں اور جا گیرداروں پر مشتمل یہ سبھی پا ر ٹیاں سیا سی پا ر ٹیاں نہیں سیاسی قبا ئل ہیں جہاں عوام کی نہیں ان کے تحفظ کی بات ہو تی ہے ، سیا ست بھی اک میراث ہے جس کے لئے ہمارے ان وڈیروں کے را جے مہاراجے اور عالم پناہ اپنوں کے ہی گلے کا ٹتے اور آ نکھیں نکا لتے نظرآ تے ہیں۔ پا رٹیان بد لنا ان کی شر شت ہے اوران کی مجبو ری بھی کہ جیسے پا نی بنا مچھلی نہیں رہ سکتی اسی طرح قتدار بنا ان کے لئے سا نس لینا دو بھر ہے ان سے گلہ کیا کر نا ۔ افسو س تو ہے اس عوام پر جو ان کے جا نے پر بھی تا لیاں پیٹتے اور بغلیں بجا تے نظر آتے ہیں اور آ نے پر بھی تا لیاں پیٹتے اور بغلیں بجا تے نظر آتے ہیں ۔ دکھ تو یہ ہے کہ غربت ،پسماندگی ،بے روز گاری ، نا انصا فی ، دہشت گردی ، مہنگا ئی اور بد حالی سے بد حال قوم یہ کیوں نہین سو چتی کہ۔
دے رہے ہیں جو تمہیں رفا قت کا فریب
ان کی تا ریخ سنو گے تو دھل جا ئو گے
اپنی مٹی پے ہی چلنے کا سلیقہ سیکھو
سنگ مر مر پر چلو گے تو پھسل جا ئو گے۔
تحریر : انجم صحرائی