counter easy hit

الطاف بھائی کی ایم کیو ایم میں واپسی

Altaf Hussain

Altaf Hussain

تحریر: میر افسر امان

ایم کیو ایم کے قائد الطاف بھائی کو پاکستان سے گئے ،بلکہ کراچی سے گئے، کئی سال بیت چکے ہیں۔ کبھی کبھی وہ واپس بھی آجاتے ہیں مگر وہ بھی حقیقی طور پر نہیں صرف زبانی واپس آتے ہیں۔ پھر ایم کیو ایم کے کارکنان اُنہیں پاکستان آنے سے روک دیتے ہیں ۔کارکنان کا خیال ہے الطاف بھائی کے معاملے میں وہ رسک نہیں لے سکتے۔ پاکستان میں ان کی جان کو خطرہ ہے۔

کارکنان کو اپنے قائد سے والہانہ محبت ہے۔ویسے بھی ایم کیو ایم کا نعرہ ہے ہمیں منزل نہیں رہنما چاہیے۔ اس دفعہ تو واپس آنے کے بجائے الطاف بھائی نے ایم کیو ایم چھوڑنے کا اعلان کر دیا اور کہا کہ بس میں حیدر آباد میں الطاف حسین یونیورسٹی کے افتتاح کے موقعے پر آخری خطاب کر کے پارٹی چھوڑ دوں گا۔ پھر کارکن جانیں اورپارٹی جانے ۔ ویسے بھی ایم کیو ایم کو ئی مورثی پارٹی نہیںکہ الطاف بھائی کا کوئی رشتہ دار پارٹی کی قیادت سنبھال لے۔اس دفعہ ناراضگی کی وجہ کارکنان کی ماروائے عدالت پے در پے اموات ہیںاور سی پی ایل سی کے چیف احمد چنائے کے گھر رینجرز کا چھاپہ ہے۔ ترجمان رینجرز نے کہا ٢٤ سالہ لاریب کو بازیاب کرا لیا ہے جسے سائٹ ایریا سے اغوا کیا گیا تھا۔

ترجمان نے کہاتاوان کے ١٥ لاکھ روپے بر آمد کر لیے ۔ اغوا شدہ لاریب نے کہا بازیاب نہیں ہوا،اغوا کار خود چھوڑ گئے تھے۔ احمد چنائے نے بھی گھر پر چھاپے کی تردید کر دی اورکہا کہ رینجرز اہلکار معلومات کے تبادلے کے لیے آئے تھے۔رینجرز اور سی پی ایل سی کے درمیان کوئی ٹکرائو نہیں، مجھے بدنام کرنے کے لیے تیسری پارٹی سازش کر رہی ہے۔ایم کیو ایم نے پریس کانفرنس کر کے کہا کہ احمد چنائے نے اپنا موقف تبدیل کر دیا بہتر ہوتا احمد چنائے پریس کانفرنس نہ کرتے یا پھر حقائق بیان کرتے۔ الطاف بھائی نے احمد چنائے کے گھر چھاپہ پر سخت نوٹس لیا اور کہا فوج بتا دے مہاجروں کو کبھی پاکستانی سمجھے گی یا نہیں۔خدمات کا اعتراف کرنے کے بجائے احمد چنائے کے ساتھ رینجرز کا ناروا سلوک قابل مذمت ہے۔

اسٹبلشمنٹ صاف صاف بتا دے کہ ان کی نظر میں کوئی مہاجر معزز کہلانے کا حقدار نہیں؟ ایم کیو ایم کے کارکن سہیل احمدجو سیکٹر انچارج بھی تھا جسے سفید کپڑوں والوں نے ایک ماہ قبل گرفتار کیا تھا۔ اس کی لاش موچکو کے ویرانے سے ملی۔ کارکن کی لاش کے ساتھ ایم کیو ایم نے احتجاج کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ ہائوس کے سا منے دھرنا دیا اور کراچی آپریشن کے خلاف مظاہرہ کیااور کہا قائم علی شاہ کراچی آپریشن کے نام نہاد کپتان ہیں۔ اس پر قائم علی شاہ نے سندھ اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعلیٰ ہائوس پر حملہ کیا گیا ہے۔ ہم مجرموں کو پکڑیں گے اور کراچی کو امن کا گہوارہ بنائیں گے۔ کسی کو امن امان خراب کرنے نہیں دیں گے۔ایم کیو ایم ایک طرف فوج بلانے کا مطالبہ کرتی ہے۔

قائم علی شاہ نے لسٹ لہراتے ہوئے کہا کہ دہشت گردوں کے نام بتا دوں تو متحدہ سب سے زیادہ احتجاج کرے گی۔ انہوں کہا کہ میں دشت گردوں نام کیا لوں ،سب کو پتا ہے۔ یقیناً پتا توسب کو ہے، کراچی کا امن کس نے خراب کیا ہوا ہے؟رینجرزبھی ٹرگٹ کلنگ میں ایم کیو ایم کا نام لے چکی ہے۔گزشتہ دنوں پولیس چیف غلام قادر تھیو نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے ایم کیو ایم کی اندرونی کہانی بیان کی تھی۔ پولیس چیف سے یہ بیان منسوب ہے کہ” سادہ لباس میں جو لوگ ایم کیو ایم کے کارکنوں کو اغوا کرتے ہیں ان کا تعلق خود ایم کیو ایم کے مختلف گروپوں سے ہے” اس بیان کی قائم علی شاہ سندھ اسمبلی میں اپنی تقریر کے دوران تصدیق کی۔

مگر پولیس کے چیف نے اپنے بیان کی تردید کر دی اسے معلوم ہے کہ ایم کیو ایم کی مخالف کرنے والے پولیس والوں کا کیا حشر ہوا۔ کچھ دن پہلے اخبار میں خبر چھپی تھی ایم کیو ایم کے تین مقتول کارکنوں کے بارے میں جائنٹ انوسٹیگیشن ٹیم نے مر کز کو رپورٹ بھیجی تھی کہ خود ایم کیو ایم کے ٹارگٹ گروپ نے اِن کا قتل کیا ہے۔ ان حالات میںایم کیو ایم کے اراکین سندھ اسمبلی نے سخت احتجاج کیا۔ اس پر شہر کے حالات خراب ہوئے۔ ایک دن کی ہڑتال کی گئی اور کہا گیا کہ ایندہ ہرکارکن کی ہلاکت پر ہڑتال کی جائے گی۔پھر الطاف بھائی نے کارکنوں سے سخت قسم کا خطاب کیا اور کہا کب تک کارکنوں کی لاشیں اُٹھاتے رہیں گے۔ کراچی آپریشن کے دوران٣٦ کارکنوں کوماروائے عدالت ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔

حیدر آباد میں یونیورسٹی کے افتتاح کے خطاب کے بعد میں قیادت چھوڑ دوں گا۔ پھر کارکن جانیں اور حکومت جانے۔ اس خطاب میں ایم کیو ایم کی پوری تاریخ تفصیل سے بیان کی ۔ اس تقریر کو الیکٹرونگ میڈیا نے اپنے کئی گھنٹوں کی نشریات میں نشر کیا۔ الطاف بھائی نے ایم کیو ایم کے پوری تاریخ میں واضع کیا،کیسے اور کن حالات میں ایم کیو ایم کی بنیاد رکھی گئی۔ اس کے توڑ کے لیے پنجابی پختون کی بنیاد رکھی گئی۔ سیراب گوٹھ، علی گڑھ ، حیدر آباد اور پکہ قلعہ کے واقعات بیان کیے۔ کس طرح اس تنظیم نے ترقی کی منازل طے کیں۔کس طرح اس کے دشمنوں نے اس کے راستے میں روڑے اٹکائے۔ کیا کیا ظلم کیے گئے۔

کس طرح ایم کیو ایم کو ختم کرنے کے طریقے اختیار کیے گئے۔ کس طرح سندھ کی اردو بولنے والی آبادی نے اس کو پسند کیا۔ اردو بولنے والوں نے اس کو ہر الیکشن میں ووٹ دے کر کامیاب کیا۔گذشتہ کئی دائیوں حکومت میں شامل رہی۔حکومتی اداروں نے اس کو دو حصوں میں تقسیم کیا۔ بلا آخر کس طرح مہاجر قومی موومنٹ کو متحدہ قومی موومنٹ میں تبدیل کیا گیا۔ آج پاکستان کے ہر علاقعے میں ایم کیو ایم کے لوگ موجود ہیں۔ الطاف بھائی کے خطاب کے دوران کارکنوں میں موجود پنجابی، سندھی، پٹھان اور پاکستان کی دوسری زبانیں بولنے والے کارکنوں نے اپنی اپنی زبانوں میں الطاف بھائی سے یکجہتی کا اظہار کیا۔

مینارٹی کے کارکنوں نے بھی الطاف بھائی سے یک جہتی کا اظہار کیا ۔ کئی منٹوں تک مسلسل الطاف الطاف کے نعرے لگائے گئے۔ ایک جوش جذبے کا سماں تھا۔ کارکنوں کی انتہائی والہانہ درخواست کے بعد الطاف بھائی نے حیدر آباد کے خطاب سے ایک دن پہلے ہی اپنے استعفٰی کے آپشن کو واپس لے لیا۔اس طرح الطاف بھائی کی ایم کیو ایم میں ایک بار واپسی ہوئی ۔ یہ واپسی پہلی بارنہیں ہوئی بلکہ جب بھی پارٹی میں گروپ بندی کا خطرہ ہوتا ہے ایک منجے ہوئے سیاستدان کے طور پر پارٹی کو یک جان رکھنے کے لیے الطاف بھائی اپنے استعفٰی کا آپشن استعمال کر کے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پارٹی کو ہمیشہ مظبوط کرتے رہے ہیں۔ رابطہ کمیٹی والے اس دفعہ ہڑتال نہ کرنے والے کراچی کے صنعت کاروں کی لسٹیں بنانے اور کراچی سے ان کا صفایا کرنے کی بات کی۔ بعد میں اس بات کو واپس بھی لے لیا۔

مگر الطاف بھائی نے سخت ایکشن لیتے ہوئے رابطہ کمیٹی کے ہیڈ کو تبدیل کر دیا۔ پہلے بھی کراچی کے حالات کی وجہ سے صنعت کار اپنا سرمایا بیرون ملک منتقل کرچکے ہیں۔ ایسی حرکتوں سے باقی سرمایادار کراچی سے سرمایا باہر منتقل کر دیں گے تو ایم کیو ایم کے لوگوں کو ہی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کاش کراچی پھر سے روشنیوں کا شہر بن جائے۔ کراچی آپریش میں مجروں کو گرفتار کر کے عدلیہ کے ذریعے قرار واقعی سزا دلائی جائے۔ ماروائے عدالت قتل کسی بھی پارٹی کا ہو وہ قابل مذمت ہے۔کسی بھی پارٹی کے مجرم نے اگر جرم کیا ہے تو اسے قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔ انصاف کا بول بھالا ہو اور ٧٠ فی صد ریونیو دینے والا شہر کراچی امن کا گہوارہ بنے آمین۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر: میر افسر امان
کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان(سی سی پی)
mirafsaraman@gmail.com