پشاور (یس ڈیسک) پشتو کے عظیم فلسفی شاعر امیرحمزہ خان شنواری کوہم سے بچھڑے 21 برس ہو گئے۔ لیکن ان کی یاد آج بھی ہر صاحب ذوق و جمال کے دل میں روشن چراغ کی طرح زندہ ہے۔
تلواروں کے سائے میں پلنے والے صاحب جمال شاعرامیر حمزہ خان شنواری 1907 میں لنڈی کوتل میں پیداہوئے۔ میٹرک کے بعد تعلیم کو خیرباد کہہ دیا۔ پشتو شاعری اور فلسفہ میں جو مقام انہیں حاصل تھا۔
وہ آج تک کسی اور کو نصیب نہ ہوسکا۔ مختصر عرصہ میں بابائے غزل، امام الشعراء اور فخر خیبر جیسے کثیر القابات پائے۔امیر حمزہ خان شنواری نے 1940 میں پشتو ادب کی تاریخ میں پہلی مرتبہ خیبر ادبی جرگہ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی۔ 3 سو سے زائد ریڈیو ڈرامے اور درجنوں فلموں کے اسکرپٹ بھی لکھے۔
قیام پاکستان سے قبل پشتو زبان کی پہلی فلم لیلئ مجنون کا نہ صرف اسکرپٹ لکھا بلکہ اس میں بطور اداکار کام بھی کیا۔امیر حمزہ خان شنواری کی 35 کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ان کی تصانیف کا اردو،انگریزی،روسی اور فرانسیسی سمیت متعددزبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔