مجھے پیپلز پارٹی کے ایک دوست سے پتہ چلا کہ آج پیپلز پارٹی اور نون لیگ نے قومی اسمبلی میں کچھ ایسا کرنا ہے جسے برسوں یاد رکھا جائے گا۔ اس نے بتایا کہ ہم نے رات بھر بلاول بھٹو کی تیاری کرائی ہے اُس کی تقریر سننے والی ہے۔
نیب کے دفتر کے باہر پیپلز پارٹی کی خواتین ورکرزاور ایم این ایز کے ساتھ جو کچھ پولیس نے کیا۔ وہ اب حکومت کو اسمبلی میں بھگتنا پڑے گا ۔پیپلز پارٹی باقاعدہ تحریک استحقاق پیش کرے گی ، سچ مچ بڑی زیادتی کی گئی ہے ۔ہماری ایم این ایز کو پولیس نے گرفتار کیا،یعنی ملک کی مقدس ترین خواتین گرفتار کرلی گئیں اور نون لیگ بھی ججوں کے معاملے پر پوری طرح تیار ہوکر آئے گی ۔سومیں بھی کارروائی دیکھنے پہنچ گیا ۔اسمبلی کی کارروائی کا آج آخری دن تھا۔میں اندر داخل ہوا تو قاسم خان سوری اسپیکر کی نشست پر جلوہ افروز تھے ۔روحیل اصغر کہہ رہے تھے ۔’’یہ عجیب اتفاق ہےسوال کرنے والا پختون ، جواب دینے والا پختون اور اوپر سے بات کرنے والا پختون ۔ ہے ناعجیب اتفاق ۔‘‘تو قائم مقام اسپیکر قومی اسمبلی قاسم خان سوری نے فوری طور پر مداخلت کی اور کہا ۔’’ اس ہال کے اندر سارے پاکستانی ہیں ۔یہ ہال پاکستانیوں کا ہال ہے ،اس کے اندر سب ایک قوم ہیں ۔ہمیں الحمدللہ فخر ہے کہ ہم سب پاکستانی ہیں ‘‘اور ہال تالیوں سے گونجنےلگا‘‘بلاول بھٹو کی طرف سے تقریر کا بار بار مطالبہ ہورہا تھا مگر قاسم خان سوری نے علی محمد کو جواب دینے کےلئے ٹائم دے دیا اور علی محمد خان نے آج اپنی زندگی کی سب سے اچھی تقریر کی۔ ان کی تقریر کچھ اتنی تیز تھی کہ نہ تو بلاو ل بھٹو کو تقریر کا موقع مل سکا اور نہ ہی نون لیگ والے ججوں کے حوالے سے شور و غوغا کر سکے ۔جس ہنر مندی سے قاسم خان سوری نے اجلاس چلایا وہ قابل داد تھا بلاول بھٹو تو اس پر اتنے غصے میں آئے کہ باہر آکر قاسم خان سوری کے خلاف پریس کانفرنس کی کہ اسمبلی ہال میں بھی آمریت قائم ہو گئی ہے۔علی محمد خان نے اپنی تقریر میں کہا ’’علی وزیر اور محسن داوڑ کی قومی اسمبلی کی رکنیت ختم کردی جائےانہوں نے کہا ہے کہ ہم پاکستانی پرچم کو نہیں مانتے ہم دو قومی نظریہ کو تسلیم نہیں کرتے ،ایسے لوگوں کواسمبلی ہال میں بیٹھنے کا حق تو کجاپاکستان میں رہنے کا حق بھی نہیں۔ اس موقع پر بلاول سمیت اپوزیشن ارکان اپنی نشستوں سے اٹھ کھڑے ہوگئے۔ معاملہ تلخ کلامی سے ہاتھا پائی تک پہنچا توقائم مقام اسپیکر نےاسمبلی اجلاس غیرمعینہ مدت کیلئے ملتوی کردیا ۔نون لیگ بھی ججز کے خلاف بھیجے جانے والے ریفرنسز پر احتجاج نہ کر سکی ۔نواز شریف نے بھی ججز کےلئے تحریک چلانے کا حکم دے دیا۔ججز کے معاملے پر لوگ خاصے تشویش میں ہیں کیونکہ حقیقت حال واضح نہیں کی گئی ۔ قصہ صرف اتنا ہے سپریم جوڈیشل کونسل میں جج کے خلاف ریفرنس بھیجا گیا ہے ۔ فیصلہ جوڈیشل کونسل نے کرنا ہے جس میں ارکان جج ہیں اور چیف جسٹس آف پاکستا ن اُس کے سربراہ ہیں ۔یعنی ججز کا معاملہ ججز ہی کو بھیجا گیا ہے۔اگر جج صاحبان نے سمجھا کہ ججز پر لگائے گئے الزامات غلط ہیں تو معاملہ خود بخود ختم ہو جائے گا اس میں احتجاج کی کہاںگنجائش ہے۔
مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ججز کیخلاف ریفرنس سے عدلیہ پر حملہ کیا گیا ہے، کیسا حملہ محترمہ!۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت نے خود اس ریفرنس کاکچھ حصہ میڈیا کو لیک کرکے اس کو متنازعہ بنایا ہے ۔جواباً ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے ہم تحقیقات کررہے ہیں کہ ریفرنس کی تفصیل کیسے لیک ہوئی ۔ اُن کا مسئلہ میں ہی حل کردیتا ہوں۔ ریفرنس کیا ہے ، یہ خبر مجھے اتفاقاً معلوم ہو گئی تھی۔خبر کا کیا ہے ۔ دو دن پہلے ریلیز ہوئی یا دو دن بعد ۔فیصلہ تو یہ ہونا ہے کہ ریفرنس میں موجود الزام درست ہیں یا غلط ۔ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے یہ بھی کہا ہے کہ اپوزیشن اپنے لئے بولنے کا جمہوری حق تو چاہتی ہے لیکن حکومتی ارکان کو یہ حق دینے کیلئے تیار نہیں ہے۔بے شک اس وقت قومی اسمبلی کو کرپشن کے آگے ڈھال بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ نیب نے آصف علی زرداری کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دئیے ہیں ۔انہوں نے جو پچھلی بار نیب کو انٹرویو دیا تھااس کی کہانیاں زبان زد عام ہیں۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ جب کسی بے نامی اکائونٹ کا ذکر کرتے تھے تو اسے بزنس اکائونٹ کہتے تھے ۔بے شک آصف علی زرداری کےلئے ان کے تمام بے نامی اکائونٹس بزنس اکائونٹ ہی ہیں۔قومی اسمبلی کواپوزیشن مچھلی منڈی بنانا چاہتی ہے۔
مجھے نہایت افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ قومی اسمبلی دراصل قانون ساز اسمبلی ہے اس کے ممبران کا بنیادی مقصد قانون سازی ہےمگر کتنے ارکان ایسے ہونگے جو قانون سازی کے کام کو سمجھتے ہونگے ۔یہاں تو زیادہ تر بزنس مین ہیں یا جاگیردار،انہیں کیا پتہ کہ قانون سازی کیا ہوتی ہے ۔وہ تو سب اسمبلی کو اقتدار حاصل کرنے کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں ۔گزشتہ دنوں یہ خبر بڑی عام تھی کہ اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصرتبدیل ہونے والے ہیں، عمران خان اُن سے ناراض ہیں،انہوں نے ان سے ملنے سے انکار کردیا ہے ۔ دراصل اسد قیصر نے شہباز شریف کیساتھ خفیہ ملاقات کی تھی، اپوزیشن کے ساتھ ان کے مراسم کے کچھ اور قصے بھی مشہور ہوئے ۔ مگر جیسے ہی اسد قیصر کی تبدیلی کی خبر آئی ،اسد قیصر عمران خان سے ملے عمران خان نے انہیں کچھ اور ٹائم دیا مگر اسد قیصر پی ٹی ایم والا قصہ دیکھ کر چھٹی پر چلے گئے ۔ایک خبر یہ بھی تھی کہ اسپیکر قومی اسمبلی اسد ہی رہیں گے ممکن ہے قیصر کی جگہ عمر کا لفظ آجائے ۔مجھے تو مستقبل میں قاسم خان سوری اسپیکر قومی اسمبلی بنتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔