تحریر: ایم آر ملک
جنوبی پنجاب کے معروف سیاستدان ڈاکٹر مہر بلال کلاسرہ سے انٹرویو
ڈاکٹر مہر بلال کلاسرہ کا شمار اُن افراد میں ہوتا ہے جنہوں نے انتہائی قلیل عرصہ میں اپنا نام بنایا اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کے تبدیلی کے سفر میں ہراول بنے این اے 182سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا اور محض عوامی خدمت اور فرسودہ سیاست کے خاتمے کیلئے آئندہ بھی الیکشن لڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں اُن سے ملکی حالات اور سیاست کے حوالے سے ایک نشست ہوئی جو قارئین کی نذر ہے
جیو ڈاکٹر صاحب زندگی کے ماہ و سال خصوصا ً ابتدائی احوال کے بارے میں بتائیے گا کہ کار زار سیاست میں قدم رکھنے کیلئے کونسا پس منظر پیش منظر بنا َ؟ ڈاکٹر بلال کلاسر ہ بچپن ضلع لیہ میں گزرا بزگوں کا احترام اور تابعداری والدین کی طرف سے ودیعت ہوئی برائی سے نفرت اور بھلائی کیلئے مارا مارا پھرتا تھا ،آٹھویں جماعت میں اپنے خاندان کی بزرگ ترین شخصیات کی اپنے گائوں کے امام مسجد کی غیر حاضری کی صورت میں امامت کرائی میرے معتقدین میں مہر احمد کلاسرہ ،مہر صوفی داد کلاسرہ ،مہر مسکین کلاسرہ ،مہر اللہ یار کلاسرہ ،ملک یارو کمہار ، مہر منظور کلاسرہ تھے
دل چسپ بات یہ ہے کہ سوائے ایک کے باقی معتقدین کی عمریں 60،70 سال کے درمیاں تھیں پرائمری ،مڈل اور ہائی میں سکول یونین کے صدر کا عزاز حاصل رہا ،ملکی سیاست میں آنے کا سبب لاہور میں زیر تعلیم بیک وقت اُن چار طالب علموں کے دل سے نکلنے والی آواز بنی جنہوں نے یہ کہہ کر میری کایا پلٹ دی کہ آپ امیروں اور اپنے بچوں کی جنگ لڑتے رہے ہیں آپ کبھی غریب اور غریب کے بیٹے کی جنگ نہیں لڑیں گے بس میں نے غریب اور غریب کے حقوق کیلئے کمر کس لی اور عملاًسیاست میں آگیا
جیو =موجودہ حالات میں سیاست دانوں کے کردار کو آپ کس تناظر میں دیکھتے ہیں ؟ ڈاکٹر بلال کلاسر ہ =سچ پوچھیں تو فی زمانہ سیاست دان میرٹ پر نہیں سیاست تو خدمت کا نام ہے اقبال نے کہا تھا کہ جدا ہو دیں سے سیاست تو رہ جاتی ہے چنگیزی کتاب زندہ کی روشنی میں دیکھ لیں ،احادیث کی روشنی میں دیکھ لیں ،آئین پاکستان کی روشنی میں سیاست کے کردار کو کنگھالیں
کہیں میرٹ کا نام و نشان نہیں گلوبل ویلج کی شکل میں دنیا اکیسویں صدی میں سانس لے رہی ہے اور ہمارا سیاست دان سترویں صدی میں کھڑا ہے وہی جبر ،پولیس تشدد ،اور یہی سیاست دان ہمیں ایک صدی مزید اندھیرے میں رکھنا چاہتا ہے
جیو=قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد کیا آپ سمجھتے ہیں کہ قائدانہ صلاحیتوں پر کوئی پورا اُترے گا ؟ ڈاکٹر بلال کلاسر ہ =قائدانہ صلاحیتوں کی بات آئے تو قائد اعظم محمد علی جناح کا نام زبان پر آتا ہے اُنہی کی کاوشوں کا شاخسانہ ہے کہ آج ہم ایک آزاد وطن میں سانسیں لے رہے ہیں میں آج خدا کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ ایک انسان تھے بے لوث ،ہائی کلاس لانگ ،غریب پرور اور دانشور اُن کی انہی صفات کو سامنے رکھتے ہوئے سیاست میں قدم رکھا قوم اب وقت کا ضیاع نہ کرے خصوصاًاین اے 182کے عوام میرے اس پیغام پر کان دھریں کہ میرے جیسے ہی لوگ اُن کی مسیحائی کا حق ادا کریں گے
جیو =آپ ایک نظریاتی اور محب وطن سیاست دان ہیں پارٹیوں کے اندر نظریات مسخ ہوتے جارہے ہیں آپ کیا کہیں گے جبکہ نظریاتی ورکروں کی نظر اندازی سیاست کا وطیرہ بن چکی ہے ؟ ڈاکٹر بلال کلاسر ہ =ورکرز پارٹی میں ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں اور بد قسمتی سے جس طبقہ کا سیاست میں استحصال وطیرہ بنتا جارہا ہے وہ ورکرز ہیں آج پارٹیوں کے اندر نظریات ،منشور اور سیاست دانوں کا حلف وفاداری یہ محض ڈھونگ ہیں اقتدار کی ہوس اس نہج پر آپہنچی ہے کہ سیاست دانوں کیلئے پارٹیاں بدلنا کوئی معیوب نہیں رہا یہی نظریات کے مسخ کرنے کا سبب ہے
آپ نے انڈیا میں جو ہمارا ہمسایہ ملک ہے کبھی سنا ہے کہ جنتا کا کوئی فرد کانگریس میں گیا یا امریکہ میں کسی ریپبلکن نے ڈیموکرٹیک جوائن کر لی نہیں ایسا نہیں ہوتا کیونکہ وہاں نظریات کی سیاست ہے ہمارے ہاں مفادات کی سیاست جیو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہماری بانہیں لاشیں اُٹھا اُٹھا کر تھک چکیں وطن عزیز کیلئے مسلم اُمہ کا رول آپ کیسے دیکھتے ہیں ؟
ڈاکٹر بلال کلاسر ہ =نائن الیون کا واقعہ بد قسمتی سے ایک ایسا خود ساختہ واقعہ تھا جس کا مقصد محض مسلم اُمہ کو ٹارگٹ کرنا تھا عصر حاضر میں مکالمے کی اشد ضرورت ہے مغربی تھنک ٹینک اور مسلم اُمہ کا تھنک ٹینک باقاعدہ حالات کے تناظر میں بحث کرے اور اپنے اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کرے جہاں تک مسلم اُمہ کا رول ہے اُس نے تو ہمیشہ دہشت گردی کی نفی کی ہے جبکہ مسلم سربراہوں یا او آئی سی نے اپنا موثر کردار اس سلسلے میں نہیں نبھایا جیو =پیشہ مسیحائی میں آپ ایک ڈاکٹر کے کردار کو کن نظروں سے دیکھتے ہیں ؟
ڈاکٹر بلال کلاسر ہ =پیشہ مسیحائی کی وضاحت تو دنیا کی تاریخ کرتی ہے مسیحائی کا پیشہ تو حضرت عیسیٰ سے چلا ،حضرت لقمان کی حکمت و دانائی کا ذکر تو کتاب زندہ میں ہے مسلمانوں کی تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیں حکماء ولایت کے درجہ پر فائز تھے ڈاکٹر کو انسانیت کی خدمت کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے پیشہ کے تقدس کو بحال کرنا چاہیئے کہ پرانے وقت کے اور آج کے اساتذہ کو دیکھ لیں جیو آپ سیاست کی موجودہ بدلتی ہوئی صورت حال میں علاقائی اور ملکی سیاست میں کیا کردار ادا کرنا چاہیں گے ؟
ڈاکٹر بلال کلاسر ہ سیاست کی موجودہ صورت حال میں ان سیاست دانوں سے عوامی خدمت کی توقع رکھنا عبث ہے ان کا سیاست میں آنے کا مقصد ہی چور بازاری ،سرکاری زمینیں الاٹ کرانا ،حتیٰ کہ قبرستانوں کی زمینوں پر بھی یہ اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں سڑکوں کی تعمیر اور سکولوں کی تعمیر میں کمیشن ایک طرف یہ کردار ہے اور دوسری طرف وطن عزیز کا ایک محب وطن فرد خانہ کعبہ میں درود ابراہیمی پڑھ کر سیاست میں قدم رکھ رہا ہے جو ظاہر ہے سیاست میں طوفان برپا کرے گا جب ہم تبدیلی کی بات کرتے ہیں تو ہمیں 1400برس پیچھے جانا پڑتا ہے
جب رحمت دو عالم ۖ دنیا میں آئے تو وہ دور تھا کہ بچیوں کو زندہ درگور کردیا جاتا تھا آپ آئے تو یہی بچیاں گھر میں رحمت قرار پائیں بار بار اقتدار کے سنگھاسن پر محض مفادات کی خاطر بیٹھنے سے ،پارٹیاں بدلنے سے ،مفادات کی خاطر لوگوں کو بے وقوف بنانے سے تبدیلی نہیں آتی آپ این اے 182میں موازنہ کرلیں میرے کریکٹر کا اور دیگر سیاست دانوں کا میں کہتا ہوں کہ مجھ سے بہتر اگر کوئی ہے تو وہ آگے آئے اُس کے ہوتے ہوئے میرے آنے کا جواز ہی نہیں بنتا اگر میری جگہ پر مجھ سے کوئی بہتر آتا ہے تو یہ تبدیلی ہے عام مسلمانوں کا کردار دیکھیں یہ ایک غزوہ کا واقعہ ہے کہ ایک مجاہد ایک زخمی کیلئے پانی لیکر جاتا ہے
جب اُسے پانی پلانا چاہتا ہے تو ایک اور زخمی کی آواز آتی ہے کہ پانی ،پہلا زخمی کہتا ہے کہ اُسے پلادو وہ اُسے پلانے کی کوشش کرتا ہے تو آواز اتی ہے پانی وہ زخمی کہتا ہے کہ اُسے پلادو میری خیر ہے وہ اُس کی طرف بڑھتا ہے قصہ مختصر وہ جب آخری کی طرف بڑھتا ہے تو وہ شہید ہو چکا ہوتا ہے وہ بھاگ کر واپس مڑتا ہے تو وہ بھی شہید ہو چکا ہوتا ہے سارے شہید ہوجاتے ہیں یہ آخرت کی پگڈنڈی ہے اور یہ عام مسلمانوں کا کردار تھا جو خلیفہ تھے اُن کا کردار کیا ہوگا میرا ایک ہی مشن ہے کہ سیاست برائے خدمت تبدیلی یہی ہے کہ علاقہ کی پسماندگی کا خاتمہ کرتے ہوئے غربت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے ،برائی کا خاتمہ کیا جائے اور بھلائی کو عام اور میں اپنے آپ کو احتساب کیلئے پیش کرتا ہوں کہ مجھ پر خزانے کا ایک پیسہ بھی ثابت ہو جائے تو سارا مال اللہ کی راہ میں تقسیم کر دوں گا
تحریر: ایم آر ملک