تحریر : شاہ بانو میر
کچھ روز قبل کچھ پروگرامز میں جانے کا اتفاق ہوا پروگرام کے اختتام پر کئی خواتین مائک پر بولنے سے پہچان گئیں اور میرے پاس آئیں ایک خاتون بزرگ تھیں میرا ہاتھ تھام کر کہنے لگیں آپکا میگزین پڑھا ماشاءاللہ بہت اچھی کوشش ہے خواتین کی جانب سے اس کے علاوہ لچھ اور بھی کہا انہوں نے جسے لکھنے کی یہاں ضرورت نہیں۔
البتہ ان کی ایک بات میری آنکھوں میں آنسو لے آئی وہ تشکر کے بھی تھے اور ندامت کے بھی تشکر کا احساس کہ اے میرے اللہ میں اس قابل ہوں؟ وہ برگزیدہ خاتون ہاتھ تھامے اصرار کیے جا رہی تھیںکہ آپکو دیکھنے کا ملنے کا بہت شوق تھا شکر ہے کہ آج ملاقات ہوگئی اور میں نم آنکھوں سے ان کی محبت اخلاص کو دیکھ کرندامت سے سوچ رہی تھی کہ کہ آج اتنا قحط ہو گیا۔ بڑے لوگوں کا کہ ہم جیسے بونوں کو کہا جا رہا ہے کہ آپ سے ملنے کا بہت اشتیاق تھا۔
ڈھلتے سورج میں چھوٹے قد بھی لمبے ہو جاتے شائد اب وہی وقت شروع ہوگیا؟ جب ہم جیسوں کو ہمارے بڑوں جیسی تعظیم دینے کا سلسلہ شروع ہوگیا؟ شائد کسی اور کوشائد خوشی ہو اس قسم کے تعریفی کلمات پر مجھے تو دکھ سے رونا آتا ہے .کہ کیا کچھ نہیں ہم سب نے اور بڑے بڑے نام عہدے اور بڑے بڑے پوسٹرزہمارے ناموں کے بغیر کسی کارکردگی کے۔
جیسے پاکستان کو جنرل راحیل نے نہیں ہم نے دوبارہ حیات نو دی ہے؟ آج سچ مچ مجھ جیسے تمام بونے بڑے قد میں دکھائی دے رہے ہیں سورج ڈھلنے سے پہلے۔
تحریر : شاہ بانو میر