تحریر : عبد الرزاق
ابھی تو وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف کے بھارتی ہم منصب نریندر مودی سے ملاقات کے خوشگوار اثرات مدہم بھی نہ ہونے پائے تھے کہ دہشت گردوں نے پاک بھارت دوستی کے چڑھتے سورج کو گہنا دیا۔ایک اطلاع کے مطابق دہشت گردوں نے بھارت کی پٹھان کوٹ ائیر بیس پر حملہ کر دیا۔سیکیورٹی اہلکاروں کی مزاحمت سے دہشت گرد اگرچہ اپنا حتمی ٹارگٹ تو حاصل نہ کر سکے لیکن پاکستان اور بھارت کے درمیان جنم لینے والی دوستی میں دراڑ ڈالنے میں کافی حد تک کامیاب ہو گئے۔دہشت گردی کے اس واقعہ کے رونما ہونے کے بعد بھارتی میڈیا نے اپنی روایت برقرار رکھتے ہوے ہمیشہ کی طرح بغیر سوچے سمجھے اور بلا تصدیق اپنے منفی پراپیگنڈے کی توپوں کا رخ پاکستان کی جانب موڑ دیااور دہشت گردوں کے تانے بانے پاکستان سے جوڑنے میں مگن ہو گیا۔ماضی بھی گواہ ہے کہ ہندوستان میں دہشت گردی کا جو بھی واقعہ رونما ہوا بھارتی میڈیا اسے پاکستان کے کھاتے میں ڈالنے میں پیش پیش رہا۔اور ایسے ایسے من گھڑت الزامات کی گردان سننے کو ملتی کہ پوری دنیا میں بھارتی میڈیا جگ ہنسائی کا باعث بن جاتا۔دوسری جانب بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی پھرتی بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے اور ان کی مستعدی بھی حیران کن ہے۔
حملہ کے محض چند لمحوں بعدہی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے شگوفہ چھوڑا کہ انہوں نے ایک کال ٹریس کی ہے جس میں ایک دہشت گرد پاکستان میں کسی سے بات کر رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ میں پٹھان کوٹ پہنچ گیا ہوں ۔اور دوسری جانب سے اس نوجوان کو یہ جواب ملا کہ کچھ کھا پی لو اور اپنا مشن مکمل کرو۔یاد رہے یہ وہی قابل ایجنسیاں ہیں جنہوں نے ایک جاسوس کبوتر پکڑا تھا اور پھر اس کبوتر کو پاکستانی جاسوس کبوتر ڈکلیر کر کے پوری دنیا میں جو ندامت اٹھائی تھی وہ بھی کیمرے کی آنکھ میں محفوظ ہے ۔البتہ ایک بات طے ہے اس مرتبہ بھی بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی یہ من گھڑت کہانی سے کوئی مثبت نتیجہ برآمد ہو نہ ہو پاکستان اور بھارتی حکومت کی جانب سے جاری پر امن کوششوں پر کاری ضرب ضرور لگے گی اور دوسری جانب بھارتی انتہا پسندوں اور جنونیوں کو بھی دل کھول کر زہر اگلنے کا موقع میسر آ جائیگا او ر ان کی پاکستان ہندوستان مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی کوشش تحریک کی صورت اختیار کر جائے گی اور یہ سلسلہ تا دم تحریر شروع ہو بھی چکا ہے۔
پٹھان کوٹ حملہ کے تناظر میں تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ کچھ ہی روز ہوے ہیں کہ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج اور بعد ازاں بھارتی وزیراعظم نے لاہور کا نہایت کامیاب دورہ کیا ہے اور جس والہانہ پن سے ان کا استقبال کیا گیا یہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اور اب جب دونوں ممالک کے درمیان دیرینہ حل طلب مسائل سے متعلق مذاکرات کا دور شروع ہونیوالا تھا کہ پٹھان کوٹ واقعہ رونما ہو گیا ہے۔اور یقینی طور پر یہ واقعہ پاک بھارت گرم جوش تعلقات کو سرد مہری میں بدلنے کا پیش خیمہ ثابت ہو گاکیونکہ پٹھان کوٹ واقعہ کو بنیاد بنا کر شیو سینا حرکت میں آ چکی ہے اوراس کے رہنماوں نے نفرت آمیز بیانات داغنا شروع کر دیے ہیں۔شیو سینا رہنماوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ ان حالات میں پاکستان سے مذاکرات اور تعلقات کی بحالی نامنظور ہے۔
نریندر مودی جو بذات خود انتہا پسند پس منظر کے حامل ہیں اور آر ایس ایس جیسی جنونی جماعت سے ان کے تعلقات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں کیسے ان جماعتوں کی مخالفت مول لے کر پاکستان سے خوشگوار تعلقات کی راہوں پر محو سفر ہو سکتے ہیں۔شیو سینا جو پاک دشمنی میں ہر حد پھلانگنے میں ثانی نہیں رکھتی ۔ اس نے ہندوستانی حکومت پر تنقید کرنے کے علاوہ پاک فوج سے متعلق بھی زہر اگلنا شروع کر دیا ہے اور پاک فوج کو اس واقعہ کا محرک قرار دیا ہے جو قابل مذمت ہے اور حقائق پر پردہ ڈالنے کے مترادف ہے اور قرین قیاس ہے کہ اس واقعہ میں کسی ہندو انتہا پسند تنظیم کا ہی ہاتھ ہو جو نہیں چاہتی کہ پاک بھارت تعلقات میں مثبت پیش رفت ہو۔اگرچہ ابھی تک اس واقعہ کے پس منظر میں بھارتی حکومت کی جانب سے کوئی واضح موقف سامنے نہیں آیا جس سے یہ اندازہ ہو سکے کہ بھارتی حکومت اس معاملہ کو لے کر پاکستان سے تعلقات کو کیا رخ دے گی۔ تاہم چند ایک وزرا کے بیان منظر عام پر آئے ہیں جن میں وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کا بیان قابل ذکر ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ دہشت گردوں کو سرحد پار سے معاونت حاصل تھی لیکن ساتھ ساتھ انہوں نے یہ بھی عندیہ دیا کہ وہ پاکستان سمیت اپنے ہمسایوں سے بہتر تعلقات چاہتے ہیں ۔ اور یہ بھی پہلی مرتبہ دیکھنے میں آیا ہے کہ پٹھان کوٹ واقعہ رونما ہونے کے باوجود مودی کا ردعمل اور طرز عمل ماضی سے قدرے مختلف ہے۔
اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ مودی کو بخوبی اندازہ ہے کہ کونسی ایسی قوتیں اس کی اپنی ہی آستین میں موجود ہیں جو پاک بھارت تعلقات کے فروغ پر خوش نہیں ہیں اور یہ کارستانی ان کی بھی ہو سکتی ہے۔لیکن حقیقی صورتحال تو کچھ دن ٹھہر کر سامنے آئے گی جب تحقیقات کا دائرہ وسیع ہو گا ۔ کیونکہ جس طرح جنونی ہندو اور بھارتی میڈیا جلتی پر تیل ڈال رہے ہیں۔ مودی سے بھی کچھ بعید نہیں کہ کل کلاں کو وہ بھی ان جنونیوں کا ہم زبان ہو کر دوبارہ سے جارحانہ رویہ اختیار کر لے اور پھر نفرت انگیز بیانات کا سلسلہ شروع کر دے۔پٹھان کوٹ واقعہ میں کار فرما عوامل کو اگر باریک بینی سے دیکھا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ پاک بھارت تعلقات میں مثبت پیش رفت پر جو واویلا بھارت میں مچایا گیا اس کا عشر عشیر بھی پاکستان میں دیکھنے کو نہیں ملااس صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوے اس واقعہ میں کسی جنونی ہندو تنظیم کے ملوث ہونے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔
غالب امکان ہے کہ یہ شرارت ان انتہا پسند ہندو حلقوں کی جانب سے ہو جو پاک بھارت مذاکرات کا ہر حال میں خاتمہ چاہتے ہیں اور دونوں ملکوں کو امن کی کشتی پر سوار دیکھنا نہیں چاہتے۔ لہٰذا ہندوستانی حکومت کو تحقیقات کے دوران اس پہلو کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے اور حقائق کی پردہ پوشی نہیں کرنی چاہیے۔ کیونکہ اس نازک مرحلہ پر اگر ہندوستانی حکومت نے دور اندیشی اور سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا اور روائتی طریقہ کار اپناتے ہوے پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی تو پاک بھارت تعلقات میں بہتری کے امکانات معدوم ہو جائیں گے۔ میری دانست میں پٹھان کوٹ حملہ را کی جانب سے رچایا گیا ایک کھیل ہے جس کا مقصد پاک بھارت جامع مذاکرات کی منسوخی اور دونوں ممالک کے درمیان حائل تلخیوں کی خلیج کو مذید وسیع کرنا ہے ۔ اب دیکھنے کی بات تو یہ ہے کہ پٹھان کوٹ واقعہ کیا رنگ دکھاتا ہے اور اس واقعہ کے پس منظر میں پاک بھات تعلقات کا نیا نقشہ کیسا برآمد ہوتا ہے اور پاک بھارت باہمی تعلقات کیا رخ اختیار کرتے ہیں۔
تحریر : عبد الرزاق
03360060895