تحریر : شاہ بانو میر
کسی کانفرنس میں دنیا بھر سے بڑے بڑے مفکر مفسر اور عالم آئے ہوئے تھے بہت لوگوں کی تقاریر تبصروں کے بعد کھانے کا وقفہ ہوا اتفاق کی بات ہے کھانے کی میز پر مسلمان عالم اور عیسائی مبلغ آمنے سامنے بیٹھے دوران گفتگو اچانک عیسائی عالم بڑے طنز سے مسلمان عالم کو دیکھ کر کہتا اوہ آپ کا دین وہی ہے ناں جس میں آپ کے نبی کی بیوی پرتہمت لگائی گئی تھی تمام دیگر مذاہب کے عالم اور مبلغ بڑی توجہ سے مسلمان عالم کی جانب دیکھنے لگے کہ وہ طیش میں آکرشائد عیسائی مبلغ سے الجھ جائیں عالم نے ایک مسکراہٹ کے ساتھ بڑے تحمل کے ساتھ اس کا سوال سنا اور کہا میرے عزیز واقعی آپ کی بات سچ ہے۔
ایسا واقعہ ہوا تھا جس میں بغیر تحقیق کے تہمت لگا دی گئی تھی لیکن اگلا حصہ آپ کہنا بھول گئے کہ ان محترم ہستی کی پاکدامنی کیئے قرآن پاک جیسی محفوظ کتاب میں برآت کی آیتیں اتر کرآفاقی گواہی دی گئی لیکن جناب والا یہ کوئی پہلا واقعہ تو نہیں ہے ہمارے نبی ً کی بعثت سے لگ بھگ 500 سال پہلے جب آپ کے نبی پیدا ہویے تھے تو ان کی پیدائش سے پہلے ان کی والدہ ماجدہ پر کیسے کیسے الزامات لگائے گئے تھے ؟اس دور کے لوگوں نے کیسے اس خاتون کا جینا دوبھرکر رکھا تھا بغیر الزام کی تحقیق کے مگر ہم مسلمان تو ان کو بھی ویسے ہی محترم پاکیزہ سمجھتے ہیں۔
جیسے ہماری حضرت بی بی عائشہ صاحبہ تھیں حضرت مریم کے بیٹے کو ہم آپ کا ہی نہیں اپنا بھی نبی مانتے ہیں اور تعظیم دیتے ہیں یہی وجہ ہے کبھی آپ نے کسی مسلم عالم کو بی بی مریم کیلئے اجتماع میں اس انداز میں بات کرتے نہ سنا ہوگا نہ ہی سن پائیں گے . کیونکہ ہمارا ایمان ہے کہ یہ واقعات اس لئے بیان کئے گئے ہیں کہ قیامت تک ایسے واقعات رونما ہوتے رہیں گے اور ہمیں قرآن پاک سے مدد لے کر ان کو سمجھنے اور ان پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے جناب والا آپ خود بتائے کس خاتون پر سب سے پہلے تہمت لگی؟ یہ کس دور کی تاریخ اور کس نبی سے شروع ہوئی سچائی کا یہ پیغام پرسکون انداز تخاطب عیسائی مبلغ کو شرمندہ کر گیا۔
اسلام کی یہی تو بڑائی ہے اور خاص خوبی جو اس میں درست انداز میں داخل ہو گیا اور استادوں نے اسکی تربیت اس کے اندر سے زہریلا غصہ نکال دیتی ہے اور کٹھ ن صبر آزما آزمایشوں سے گزار کر شاگرد کو کندن بنا دیتی ہے بہترین رہنمائی سے وہ ایسا پرسکون صابر ٹھنڈا ہو جاتا ہے کہ پھر طنز غصہ دلانے والے سوالات اس کے لئے بے معنی ہو جاتے وہ تحمل سے بات کو سنتا حالات کا مشاہدہ کرتا ہے اور اپنی عقل فہم کے مطابق بہترین ماحول کی مطابقت کے ساتھ جواب دیتا .غصہ دلا کر آپ اشتعال مٰں آکر کچھ غلط جزبات میں آکر بول دیں یہی دوسرے دین کے لوگ چاہتے- یہی اصل وقت ہوتا ہے جب خود کو اپنے اعصاب کو پرسکون رکھتے ہوئے غصے پر ضبط کی مہر لگا کر صبر کرنا ہے۔
جو کسی عالم کی نہیں عالم السلام کی جیت ہے اور یہی جیت حاصل کرنی ہے ہمیشہ الحمد للہ اس اللہ کا کروڑ بار شکر جس نے ہمیں مسلمان گھروں میں پیدا کیا اور پھر خاص خاص شکر اگر اس نے ہمیں استاد عطا کئے جو اپنی زندگی کی کڑی محنتوں میں گزارے ہوئے تجربات سے ہمیں مستفید کر کے اچھا انسان بننے میں مددگار ہوتے ہیں .لمحہ لمحہ اللہ کا شکر ادا کیجئے اگر صبر کے تحمل کے حکمت کے یہ قیمتی گُر آپکو کسی استاد سے عطا ہو جائیں .ورنہ اکیلےاز خود قرآن پاک کو پڑھنا سمجھنا۔
اس کی تاریخ کو جانے بغیر اس کی آیات میں چھپے ہوئے اصل واقعات کے شعور کے بغیر ان کو کہنا ان کو لکھنا ناممکن ہے .اللہ پاک ہم سب کو بہترین انداز میں قرآن پاک پر غور کرنے پڑھنے اور پھر عمل کر کے اچھا مسلمان بننے کی عاجزانہ توفیق عطا فرمائے .ضبط اور صبر کو بروقت استعمال مومن کی شان اسلام کی آن ہے اللہ پاک ہم سب کو عطا کرے یہ صبر ضبط آمین۔
تحریر : شاہ بانو میر