تحریر : وقار انسا
صبر ان اخلاق فاضلہ میں سے ہے جس میں ارادے کی مضبوطی اور عزم کی پختگی کی ضرورت ہے مجبوری اور لاچاری کی حالت میں کچھ نہ کر سکتے ہوئے کسی تکلیف ومصیبت کو برداشت کر لینا ہرگز صبر نہیں بلکہ اس کا تانا بانا استقلال و استقامت اور ثابت قدمی سے قائم رہتا ہے اس وصف کو قائم رکھنا اور اس کا باموقعہ صحیح استعمال ہی صبر ہے امام غزالی احیائے العلوم میں اس کا مفہوم یہ بیان کرتے ہیں خواہشات سے بد اعمال کو ترک کر دینا ایک ایسا عمل ہے جس کا ثمر ایک خاص کیفیت کی صورت میں پیدا ہوتا ہے اسی کا نام صبر ہے کہیں صبر کا مفہوم عفو درگزر سے عبارت ہے تو کہیں ضبط نفس استقامت وثابت قدمی کو صبر کہا گیا ہے اس کے مشکلات کو خاطر میں نہ لانا پریشانی ومصائب میں زبان پر شکوہ نہ لانے کو صبر کہا گیا کہ انسان ان کو اللہ تعالی کی مصلحت پر محمول کرے اور اسی ذات حکیم سے بہتر نتائج کی امید رکھے قرآن میں ایسے صاحب صبر لوگوں کی تعریف کی گئی ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ میں صبر کا پہلو بہت نمایاں ہے صبر انبیا کرام کا شیوہ رہا صبر وایمان لازم وملزوم ہیں حضرت ابراہیم علیہ اسلام کے صبر کی بہت سی مثالیں ہیں- اسی طرح حضرت یعقوب علیہ اسلام حضرت موسی اور حضرت عیسی کا صبر بھی پڑھتے ہیں- سب نے بہت صبر کیا لیکن حضرت ایوب کا صبر طویل مدت پر محیط تھا حضرت ایوب علیہ اسلام اللہ کے وہ پیغمبر ہیں جن کی زندگی پیغمبران حق میں ایک مثالی صابر کی تھی صبر ایوب بڑا مشہور ہے -آپ کا جسم ایسی تکلیف میں مبتلا رہا کہ جسے برداشت کرنا بڑا مشکل تھا لیکن آپ نے اس تکلیف پر اتنے طویل عرصہ تک صبر کیا کہ آپ کا صبر بے مثال اور لافانی بن گیا حضرت ایوب علیہ اسلام بڑے مالدار اور خوشحال تھے اللہ تعالی نے بڑی شان و شوکت اور عظمت و عزت دی تھی۔
بیشمار نعمتوں سے مالا مال کیا تھا اتنی نعمتیں پاکر بھی آپ ہر وقت یاد الہی میں مصروف رہتے اور اللہ کی راہ میں اپنا تن من دھن قربان کرتے رہتے ایک مرتبہ اللہ تعالی نے شیطان سے ازراہ فخر کہا کہ دیکھو میرا بندہ کتنا فرمانبردار ہے اس پر شیطان نے کہا کہ حضرت ایوب کی تمام تر عبادت اور زہد وتقوی صرف خوف اور لالچ کی بنا پر ہے- یہ بے حدو حساب نعمتیں جو اس کو ملی ہیں۔
اگر اس سے چھن جائیں تو میں دیکھوں گا کہ وہ تیری عبادت کیسے کرتا ہے اور اس کا دل تیری اطاعت میں کیسے لگتا ہے اللہ نے جواب دیا کہ ایوب میرا بندہ ہے اور مال ودولت نہ ہونے سے بھی وہ میرا بندہ ہی رہے گا تو آزما کے دیکھ !شیطان کے کہنے پر حضرت ایوب پر آزمائش کا وقت آگیا – مال ومتاع سب راہ خدا جاتا رہا حتی کہ بیماری اور مصیبت نے آگھیرا یہاں تک کہ آپ کے جسم میں کیڑے پڑ گئے آپ شہر چھوڑ کر ویرانے میں چلے گئے مگر وہاں بھی اتنی تکلیف کے باوجود خدا کی یاد سے ایک لمخہ بھی غافل نہ ہوئے۔
آخر سو سال کی طویل بیماری کے بعد آپ نے اللہ کے حضور شفا یابی کی دعا مانگی تو آپ شفا یاب ہوگئے اور اللہ تعالی نے پھر اپنی نعمتوں سے نواز دیا اس شفا یابی کے لئے آپ نے جو دعا مانگی وہ دعائے ایوب کے نام سے مشہور ہے جو پارہ نمبر17 میں سور الانبیا کی آیت نمبر 83 ہے -جس کا ترجمہ ہے کہ مجھ کو تکلیف پہنچ رہی ہے اور تو سب مہربانوں سے بڑھ کر مہربان ہے حضرت ایوب نے یہ دعا پڑھی تو اللہ کی رحمت امڈ آئی وہ اولاد جو چھن گئی تھی وہ واپس مل گئی جو شان وشوکت ختم ہوئی تھی وہ دوبارہ مل گئی۔
اس دعا کے اثر سے ان کی ہر تکلیف رفع ہوئی صبر کا وصف انسان میں قناعت اسقامت اور اور استقلال کے اوصاف پیدا کرتا ہے اور انسان کی زندگی کو بامقصد بنا دیتا ہے یہ جینے کا قرینہ اور قرب الہی کا وسیلہ ہے اور انسان کی لغزشوں اور گناہوں کا کفارہ بھی۔
تحریر : وقار انسا