تحریر: ایم ابوبکر بلوچ چوک اعظم
16 دسمبر کے سانحہ پاک آرمی سکول پشاور نے تمام پاکستانیوں اور اہل اسلام کو ہلا کر رکھ دیا ہے سکول کا وہ ہال جہاں عقل و دانش اور ستاروں پر کمندیں ڈالنے کی باتیں ہوتیں تھیں وہاں دہشتگردوں نے خون کی ایسی ہولی کھیلی کہ چاند چہرے ،روشن آنکھیں اور پھول و کلیاں خاک و خون میں لتھڑ گئیں فرش پہ ہر طرف خون ہی خون بکھرا ہوا تھا حتیٰ کہ کتابیں اور بستے بھی خون سے بھیگ گئے اور گولیوں سے چھلنی دیواریں تک ظلم و بربادی کا منظر پیش کر رہی تھیںپاکستان کا کوئی بچہ کوئی ماں اور کوئی باپ ایسا نہیں جو غمزدہ نہ ہو کوئی ایسی آنکھ نہیں جو اشکبار نہ ہو وفاقی حکومت، صوبائی حکومت اور پاکستان کی تمام تنظیموں نے سانحہ کی مذمت کی ہے۔شہداء کے حق میں شمعیں روشن کی گئیں ہیں ۔پاکستان کے تمام شہروں میں شٹر ڈائون ہوا ہے اور مذمتی قراردادیںمنظور کی گئیں ۔اس موضوع پہ لکھنے کو بہت دل چاہتا تھا لیکن الفاظ نہیں ملتے دل خون کے آنسو رو رہا ہے لکھنے سے پہلی قلم آنسوئوں سے بھیگ جاتی ہے کچھ روز سے سوشل میڈیا پہ ہماری ایک ماں کی ویڈیو نے ہر سننے والے کو رونے پہ مجبور کر دیا اوردل چاہا کہ اپنی اس ماں کا پیغام ہی انہی کی زبانی آپ تک پہنچا دوں کہ شاید ہماری عوام ہوش کے ناخن لے۔
آج میں آپکے سامنے چند سوال رکھنا چاہتی ہوں اور آپ لوگوں سے انکا جواب چاہتی ہوں کیوں کہ آپ سب لوگ ان چیزوں کے ذمہ دار ہیں جی ہاں آپ سب لوگوں کے ساتھ میں بھی شامل ہوں آج صبح میں نے یہ خبر دیکھی اور ہر بڑے اینکر کو یہ بولتے سنا کہ وہ وقت آچکا ہے جب ہم نے اٹھکر کچھ کرنا ہے جب ہم نے کوئی تبدیلی لانے کے بار ے میں سوچنا ہے سچ میں کچھ کر کے دیکھانا ہے لیکن افسوس بہت افسوس کے ساتھ مجھے کہنا پڑ رہا ہے بے شک میرا تعلق بھی میڈیا سے ہے میرا بھی میڈیا سے ایک سوال ہے کہ وہی پرانی شکلیں، وہی پرانے لوگ ، وہی پرانے سیاستدان ، وہی پرانے مولناٰ ، وہی پرانے مفتی ، وہی پرانے صحافی بیٹھے ہیں وہی پرانی باتیں کی جارہی ہیں ان میں سے کوئی بات مجھے نئی نہیں لگی وہی باتیں جو ہر سانحے پہ کی جاتی ہیں وہی باتیں جو واہگہ بارڈ ر کے سانحے پہ کی گئی تھیں ،وہی باتیں جو اس دہشتگردی سے ملتے جلتے جتنے واقعات ہوتے ہیں ان پہ کی جاتی ہیں دہشگردی کا بدلہ لیا جا ئے گا دہشتگردوں کو مٹا دیا جائے گا ان موقعوں پہ میں ایک سوال اپنے دل میں کیا کرتی تھی میں آپ لوگوں سے کرنا چاہتی ہوں کہ اگر پاکستان کی تاریخ میں کوئی ایسا لیڈر آ بھی جاتا ہے پاکستان واقعی اگر ترقی یافتہ ملک بنتا ہے کیا ان مائوں کے بچے واپس آ جائیں گے جو جا چکے ہیں ہر وہ گھر جو اس اذیت کو سہہ رہا ہے کیا اس پہ پاکستان میں اس تبدیلی سے فرق پڑ جائے گا ؟مجھے بتایئے یہ میڈیا ہمارا ان سیاستدانوں کو کیوں دکھا رہا ہے جنکی باتیں ہم روزانہ سنتے ہیں ان مائوں کو کیوں نہیں دکھا رہا جنکے کلیجے پھٹے ہیںآج، انکو کیوں نہیں دکھا رہا صرف اس لئے کہ لوگ برداشت نہیں کر پائیں گے۔
کیا ہم ابھی برداشت کر پا رہے ہیں ہم سے وہ چیزیں چھپائی جا رہی ہیں میں کہتی ہوں اگر آج وہ ظلم و ستم دکھا دیتے میڈیا والے جو سکول میں بچوں کے ساتھ کیا گیا ہے کسی لیڈر کو ہمیں آواز دینے کی ضرور ت نہ پڑتی ہم خود سڑکوں پہ ہوتے ہم خود انکے گریبان پکڑتے ۔ یہ کون ہوتے ہیں ہماری مائوں سے انکے بچے چھیننے والے؟اگر آپ ماں ہیں مجھے بتایئے جب آپ صبح اٹھکر اپنے بچے کی الماری کھو لیں گی تو آپ کے دل پہ کیا گزرے گی ہر و ہ ماں جب اپنے بچے کی پسندیدہ ڈش بنائے گی وہ اس دن بھی روئے گی جس دن اسکی سالگرہ کا دن آئے گا وہ اس دن بھی روئے گی اس کی ہر فرمائش کو یاد کر کے روئے گی وہ مرتے دم تک اسے نہیں بھو ل سکتی میں جانتی ہوں کہ ایک ماں کا مرا ہوا بچہ پیدا ہوتا ہے وہ اس کو بھی مرتے دم تک نہیں بھولتی اگر اس کی یاداشت کسی بیماری کی وجہ سے چلی جائے وہ پھر بھی اپنے بچے کو نہیں بھولتی اور خاص طور پر ان بچوں کو جو اس سے جدا ہو جاتے ہیں ۔پلیز خدا کے لیے !میرا آج اپنے صحافی بھائیوں سے بھی ایک سوال ہے سب بہت اچھی باتیں کر رہے تھے ٹھیک ہے بہت دلاسے دے رہے تھے اور کہہ رہے تھے آ ج پلیز کسی قسم کا جشن کا سماں نہ ہو کوئی ہوٹلنگ نہ ہو اگر آپ نے کسی قسم کے کھانے رکھے ہیں تو ان کو کنسل کر دیجیے ہاں ہمارا میڈیا ذمہ داری نبھاہ رہاہے میڈیا کے اسی شو کی بریک کے اندر میوزک کے ساتھ Addasچلائے گئے ٹھیک ہے آپ میڈیا پہ بیٹھ کے اپنی عوام کو تو سب کچھ بتا رہے ہیں کہ آج آپ یہ سب کچھ ختم کر دیں کیا آپ اپنے چینل کو ایڈ بند کرنے پہ مجبور کر سکتے ہیں جن گھروں کے بچے گئے ہیں وہ تو ٹی وی دیکھ ہی نہیں رہے نہ وہ ٹی وی دیکھ سکتے ہیں یہ سب ہم دیکھ رہے ہیں ہمارے دلوں پہ گذر رہی ہے اور ہم سے وہ چیزیں چھپائی جا رہی ہیں کہ آپ سب لوگ برداشت نہیں کر پائیں گے میرا خیال ہے اگر کسی ایک سانحے کی اصل تصاویر کبھی ٹی وی پہ دکھائی گئی ہوتیں تو شاید اگلا سانحہ نہ ہوتا ہر بندہ سمجھتا ہے کہ وہ خود ان سب چیزوں کا ذمہ دار ہے وہ اپنے ارد گرد کے ماحول پہ نظر رکھتا اپنے پڑوسیوں پہ نظر رکھتا میرے پڑوس میں کون آ کر رہ رہا ہے کیونکہ وہ نہ چاہتا کہ اس طرح کا کوئی سانحہ دوبارہ پیش آئے وہ کبھی نہ چاہتا کہ جس طرح بچوں کو مرتے ہوئے دیکھا ہے یا جس طرح بڑوں کو مرتے ہوئے دیکھا ہے کبھی کسی اور کو دیکھنا پڑے لیکن نہیں۔
ہم تو جی میڈیا کی پالیسی کی وجہ سے بڑوں کی وجہ سے بچوں کی وجہ سے کیونکہ کمزور دل حضرات ہیں ان کو کچھ ہو سکتا ہے تو کچھ بھی نہیں دکھائیں گے لیکن ہمارے ہی ملک کے انٹر نیٹ پہ ہر طرح کا مواد جو بچوں کے دیکھنے کے لیے ضروری نہیں ہے موجود ہے۔ پاکستان ہمیشہ نمبر ون پہ آتا ہے کیا وہ سب چیزیں بچوں کے لیے دیکھنی اچھی ہیں کیا وہ بچے دیکھ سکتے ہیں اور یہ بچے نہیں دیکھ سکتے میں کہتی ہوں کہ اگر آپ آج کے بچوں کو یہ دکھائیں تو شاید آج وہ ہمارے والدین جیسی غلطیاں نہ کریں جس کی سزا ہم بھگت رہے ہیں یہ ہمارے والدین ہیں جنہوں نے آج اس حال تک پہنچایا ہے ۔جس طرح کی حکومتیں ہمارے ملک میں آتی رہی ہیں مجھے نہیں پتہ میں نہیں جانتی میں نے بچپن سے پاکستان کو ایسے ہی دیکھا ہے چند سوال جو میں آپ سے کرنا چاہتی ہوں مجھے اس کے بارے میں بتایے ہم بہت بڑے ہیروز کو روزانہ ٹی وی پہ دیکھتے ہیں کسی بھی فیلڈ میں ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ لیکن اصل ہیروز کو ہم نہیں جانتے نہ ہمارے بچے جانتے ہیں آپ مجھے بتایے جن کے بھی بچے پڑھ رہے ہیں سکولز میں ان میں سے کتنے بچے ہیں جو نشان حیدر لینے والے فوجیوں کو جانتے ہیں ہم آٹھ فوجیوں کے نام جانتے ہیں کیونکہ ہم نے ان آ ٹھ کو اپنے کورس میں پڑھا ہمارے بچوں نے تو ان آٹھ کو بھی نہیں پڑھا یہ آٹھ سے بارہ ہو گئے ہیں لیکن چار کے نام مجھے بھی نہیں پتا کیونکہ کبھی میڈیا پہ ان کو دکھایا نہیں گیا کبھی وہ باربار دہرائے نہیں گئے ایک چیز ہمارے ذہن میں ڈال دی جاتی ہے کوئی بھی ایڈ ہو کچھ بھی ہو ہمارے ذہن میں چلا جاتا ہے کیا چھوٹے چھوٹے نغمے بنا کے ہمارے بچوں کے ذہن میں نہیں ڈالے جا سکتے کہ ہمارے بچوں کے خون میں گرم جوشی پیدا ہو جیسے ہمارے دلوں میں پیدا ہوتی تھی ہم ایسے ڈرامے دیکھا کرتے تھے جو راشد منہاس سے تعلق رکھتے ہوتے تھے میجر عزیز بھٹی کو بھی اس میں دکھایا گیاہم آج تک اس دکھ درد کو محسوس کرتے ہیں لیکن ہمارے بچوں کو نہیں پتہ کہ نشان حیدر ہے کیا چیز؟ انہیں موبائل اورآسکر ایوارڈ کا تو پتہ ہو گا لیکن انہیں نشان حیدر کا نہیں پتہ کیونکہ ان کو بتایا ہی نہیں گیا آپ مجھے بتائیے سوات میں ایک بچہ شہید ہوا ایک سکول کو اڑانے کے لیے جو دہشت گرد آ رہا تھا اس سے لپٹ کر بچے نے اپنی جان دے دی کیا اس کا نام آپ کو یاد ہے مجھے نہیں یاد کیونکہ کبھی اس کا ذکر ہی نہیں کیا گیا کبھی ٹی وی پہ اس کے لیے کچھ الفاظ نہیں بولے گئے کبھی اس کی شکل نہیں بنائی گئی اس کی کوئی خاص بات مجھے نظر نہیں آتی تو کیسے یاد رہے گی ہمارے جو بچے بڑے ہو رہے ہیں ان کو کیسے پتہ چلے گاآج کا جو بچہ تین سال کا ہے کل چھ سال کا ہو گا انکو کیسے پتہ چلے گا کہ ہمارے پاکستان میں ایسے اچھے لوگ بھی تھے فوج کا عام آدمی عام سپاہی جب مرتا ہے اسکے بارے میں ہماری میڈیا پہ کیا کہا جاتا ہے۔
پاک فوج کا ایک جوان شہید ہو گیا کون تھا وہ؟اسکا بھی گھر تھا اسکے بچے تھے اسکے بھے خواب تھے اسکے بھی ماں باپ تھے اپنا بیٹا ملک کے حوالے کیا ۔کیا صرف ایک تنخواہ کی خاطر ،تنخواہ تو ہر جاب میں ملتی ہے کیا آپ لوگوں نے کبھی سوچا ہے آرمی کے بڑے بڑے لیڈرز کے نام توآ جاتے ہیںنو ڈائوٹ میں ان سب کی عزت کرتی ہوںکیونکہ مجھے لگتا ہے آج اگر ٹی وی پہ میں نے کسی کے بیان میں کچھ تھوڑی سی طاقت دیکھی ہے جن میں عمل بھی نظر آیا تو وہ ہمارے ڈی آئی جی ،آئی ایس پی آر تھے اور مجھے سب کے بیان ایک جیسے نظر آئے اس لئے میں دل سے عزت کرتی ہوں اور میں پوچھنا چاہتی ہوںکبھی آپ نے سوچا ؟سیاچن پہ رہنے والے سپاہی کیسے اپنا ٹائم گزارتے ہیں کبھی کسی نے انکے بارے میں نہیں سوچا اور آپ اس نواز،اس عمران یا زرداری کے بارے میں باتیں کرتے تھکتے نہیں ۔آپ چار لوگ جب کہیں بیٹھتے ہیں سوائی برائی کے چاہے وہ سیاستدان ہوں چاہے وہ ہمارے مفتی ہوں چاہے وہ ہمارے مولناٰ ہوں اور کسی کی بات نہیں کرتے ۔کبھی کسی نے بتایا کہ ہمارے پاک آرمی کے جوان چاہے نیوی سے تعلق رکھتے ہوں یا پاک فضائیہ سے تعلق رکھتے ہیں وہ کیسے زندگی گزارتے ہیں وہ کس قسم کی غذا کھاتے ہیں کیا انکا دل نہیں چاہتاوہ اپنے بچوں کے ساتھ گھومیں پھریں ہو ٹلنگ کریں لیکن نہیں وہ ہمارے ملک کی خاطر وہاں پر راتیں گزارتے ہیں دن گزارتے ہیں انکو عجیب طرح کی غذا دی جاتی ہے۔
وہ ان جگہوں پہ یہ سب کچھ نہیں کھا سکتے آپ اس پہ ریسرچ کر سکتے ہیں آپکو علم ہو جائے گا میرا کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہمارے ملک میں بڑے آرام سے ٹی وی پہ بیٹھ کے کہہ دیتے ہیں پچاس ہزار لوگ مر گئے ایک سال سے تو میں پچاس ہزار سن رہی ہوں جبکہ اس ایک سال میں پچاس ہزار سے زائد مرے ہیں ۔ اب ہم امریکہ کو تو بہت باتیں سناتے ہیں امریکہ کے دو ٹاورز گئے تھے دو ٹاورز جانے پہ اس نے دو ملک اڑا دیئے کیا کہیں گے آپ اسکو؟اسکو آپ غیر ت نہیں کہیں گے ۔ آپ جو اپنی نام نہاد غیرت لے کے پھرتے ہیں مجھے اسکے بارے میں بتایئے وہ غیرت کب جوش مارے گی ؟کب جوش مارے گی ،کتنی مائوں کی گودیں اجاڑ نے کے بعد جو ش مارے گی ؟آج معصوم بچے مرے ہیں تو میرا دل پھٹ گیا ہے میں آپ لوگوں کے سامنے آنے پہ مجبور ہو گئی ہوں ۔یہاں پہ لوگ روز مرتے ہیں وہ بھی لخت جگر ہوتے ہیں چاہے انکی عمر زیادہ ہوتی ہے ۔ یہ تو بچے تھے یہ کبھی بھی برداشت نہیں ہونگے کسی سے بھی، کسی ماں سے بھی، میں کتنا روئی ہوں اپنے بچوں دیکھ دیکھ کر،اپنے بچوں کی باتیں یاد کر کے کیونکہ مجھے احساس تھا لیکن ایک ماں بھی مجھے ٹی وی پہ روتی ہوئی نظر نہیں آئی کیونکہ دیکھایا ہی نہیں گیااس طرح دیکھایا ہی نہیں گیا کہ کسی کو احساس ہو تا اور لوگ خود سڑکوں پہ نکلتے وہ دہشتگرد ان مائوں کے حوالے کر دیں چھ لاشیں حوالے کرتے تو وہ ایک ایک بوٹی نہ کر دیتے تو پھر کہتے۔
ان دہشتگردوں کو عبرت کا نشان بنانا چاہئے تھا انکی لاشیں چوکوں پہ لٹکاتے تاکہ لوگوں کو پتہ چلتا نام نہاد جہاد کا یہ انجام ہو تا ہے لیکن نہیں ہم کچھ نہیں سیکھتے ہم کچھ نہیںسیکھتے ہر دفعہ ،ایک جیسی باتیں کرتے ہیں کہ ایسا نہیں ہونا چاہئے ۔مذمت کرتے ہیں مذمت کرتے ہیں مذمت کرتے ہیں ،کن کی مذمت ؟ان مائوں سے پوچھو جنکا بچہ گیا ہے انکا کیا حال ہو گا؟انکو ہوش نہیں ہو گا میں یقین سے کہتی ہوں جس نے بھی اپنے کا خون اپنے کسی کو مرتے دیکھا ہو وہ برداشت نہیں کر سکتا ۔میرا اپنا اگر مرا ہے میں اسکو سہہ رہی ہوں کیونکہ وہ طبعی موت تھی نا ۔ یہ تو ماں نے خود اپنے ہاتھوں سے تیار کر کے بھیجا تھا وہ انتظار کر رہی تھی کہ وہ دوپہر کو آئے گا وہ پوچھے گی اسکے سکول میں پیپر تھا کیا ہوا۔اسکے سکول میں فنگشن تھا کیسا ہو ااسکے سکول میں آج کوئی ٹریننگ تھی وہ کیسی رہی ؟ اس کیلئے کھانا بنائے گی وہ ماں کیسے برداشت کریگی اسکی رات کیسے گزرے گی مجھے پتہ ہے ایسے ہوتا ہے انسان کی نیچر ہے انسان برداشت نہیں کر سکتا لیکن اس ماں کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے پلیز خدا کیلئے !آپس میں لڑنا چھوڑ دیں میں آپکے آگے ہاتھ جوڑ تی ہوں مسلمان بن جائیں ہمارے نبی نے جو بولا ہے اس پہ عمل کریں ہم کن چکروں میں پڑے ہوئے ہیں ۔ میں نہیں جانتی کسی مفتی کو کسی مولناٰ کو ،میںانکی شکلیں دیکھ دیکھ کے تنگ آگئی ہوں سوشل میڈیا پہ انکی شکلیں بنائی جاتی ہیں انکے فنی ویڈیو کلپس چلتے ہیں اور وہی میڈیا پہ آکے باتیں کر رہے ہوتے ہیں کیا یہ منافقت نہیں ہے میڈیا کے نام نہاد منافقت نہیں کرتے کیا یہ سیاستدان منافقت نہیں کررہے ؟یہ سب منافقت ہی تو ہے پلیز مجھے بتائے یہ سب کب ختم ہو گا ؟کب ہم سب اپنی نفرتیں بھلا کے نکلیں گے ۔مجھے بتایئے جو بچے مرے ہیں وہ شیعہ نہیں تھے وہ سنی نہیں تھے وہ اہلحدیث نہیں تھے بلکہ وہ سب صرف بچے تھے انکو دہشت گردی کے مطلب کا ہی نہیں پتہ تھا انکو تو صحیح طریقے سے یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ دہشتگردی کے نام پہ انکے ساتھ کیا کیا جا رہا ہے ۔ہم اپنے بچوں کو کیا دکھا رہے ہیں میرے بچے مجھ سے سوال کرتے ہیں جب کبھی میں کہتی ہوں کہ ہمارے بچپن میں لائٹ نہیں جاتی تھی بہت کم جاتی تھی ہم خود سکول جاتے تھے ہمارے ماں باپ کو اتنی فکر نہیں ہوتی تھی تووہ حیران ہوتے ہیں کہ پاکستان کبھی ایسا تھا ۔پاکستا ن کی کیا پالیسیاں ہیں میں نہیں جانتی۔ کون لوگ ہیں جن کو خوش کرنے کیلئے پاکستان کے حکمران خوش کرنا چاہتے ہیں۔
میں نہیں جانتی کس کو خوش کرنے کیلئے پاکستان میں سزائے موت مو خر کی گئی لیکن پلیز اگر آج آپ ان بچوں کی لاشیں دیکھ لیتے کیسے ایک دوسرے کے اوپر گر ے ہوئے تھے اگر آپ لوگ انکی شکلیں دیکھتے کہ انکا یہ حال ہو رہا ہے تو شاید یہ لوگ اپنی نفرتیں بھول جاتے انکو بھی اپنے بچے یاد آجاتے ۔خدا کیلئے خدا کیلئے آپ لوگ بھی ماں باپ ہیں پلیز آپ لوگوں سے میری التجا ء ہے سب کچھ بھول جائیں صرف یہ یاد رکھیں کہ پاکستان کے صرف دشمن ہی دشمن ہیں ہمیں ان دشمنوں سے اکٹھے ہو کے لڑنا ہے ۔کبھی بچپن میں ہمیں یہ کہانی سنائی جاتی تھی اتفاق میں برکت ہے لیکن نہیں ا ب بڑے ہو کے کیا دیکھا ،کون بناتا ہے یہ کورس ؟یہی لوگ بناتے ہیں جو اتنی بڑی سیٹوں پہ بیٹھے ہوئے ہیں کیا یہ منافقت نہیں ہے ہمیں کورس میں جو پڑھایا جاتا ہے یہ لوگ خود اس پہ عمل نہیں کرتے ۔مجھے بتایئے یہ سب کب ختم ہو گا میرا آپ لوگوں سے سوال ہے ایک دوسرے کو گالیاں دینے سے کیا ہوتا ہے ایک فرقے کے لوگ فیس بک پہ پوسٹ لگاتے ہیں دوسرے فرقے کے لوگ اسے گالیاں دیتے ہیں بڑی بڑی گالیاں اتنی بڑی گالیاں جن کو سن کے دماغ پھٹ جائے کلیجہ پھٹ جائے کس کو دی جاتی ہیں وہ گالیاں ،عور ت کو ماں اور آج وہی ماں تڑپ رہی ہے پلیز چھوٹی چھوٹی باتوں پہ لڑنا چھوڑ دیں اتنے سے مسئلے کو بہت بڑا کر کے دکھاتے ہیں اور بہت بڑے مسئلے کو چھوٹا سا بنا کے پیش کرتے ہیں آج دوڑ لگی ہوئی ہے سب جگہ ۔میڈیا کے لوگوں کو اتنی بڑی خبر مل گئی ہے سب لوگ بہت پرجوش ہیں میڈیا کے اینکرز مختلف مہمانوں سے رابطے کر رہے ہیں سب نے بولنا ہے سب نے مذمت کرنی ہے لیکن نہیں میں ان چیزوں کو نہیں مانتی آج ان لوگوں کا دن تھا جنکے بچے مرے ہیں انکو میڈیا پہ دکھا یا جاتا انکا غم دکھایا جاتا کہ سب لوگوں کو عقل آتی میرے جیسے لوگوں کو آپ جیسے لوگوں کو ہوش آتا لیکن نہیں وہی چپقلش وہی الفاظ سن کے میرے کان پک گئے ہیں میں نے بہت کوشش کی کسی نیوز چینل پہ میری لایئو کا ل مل جائے لیکن بے سود اور نہ ہی کوئی چینل مجھے اتنا ٹائم دیتا اس لئے میں مجبور ہوئی کہ آپ لوگوں کو جگانے کیلئے تھوڑی سی کوشش کروں ۔مجھے نہیں پتہ میری بات آپکے دل پہ اثر کریگی یا نہیں کرے گی کیونکہ پاکستان میں عورتوں کی بات پہ زیادہ توجہ نہیں دی جاتی لیکن میں عورت بن کے نہیں ایک ماں بن کے بات کررہی ہوں میرے اند ر مزید حوصلہ نہیں ہے ہاتھ جوڑ کے آپ لوگوں کی منت کرتی ہوں پلیز سب نفرتیں بھلا دو۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو
تحریر: ایم ابوبکر بلوچ چوک اعظم