تحریر: ابنِ نیاز
ہر شخص اپنے اپنے انداز میں وطن سے محبت کرتا ہے۔ کبھی یہ تعمیری صورت اور کبھی تخریب کاری کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ حب الوطنی ہوتی کیا ہے اور یہ کیسے وجود میں آتی ہے؟ حب الوطنی سے مراد اپنے ملک کی چاہت، اپنے وطن سے پیار، دیس سے محبت کا اظہار کرنا ہے۔ یہ ایک پیدائشی فطرت ہے ۔ یہ ایک جذبہ ہے۔ یہ ایک خواہش ہے۔ اور اسکا اظہار تمام ممکنہ طریقوں سے ملک و قوم کی بے لوث خدمت کرنا ہے۔
حب الوطنی کے جذبے کے تحت ہم اپنے ملک کو دوسرے ممالک پر ترجیح دیتے ہیں۔ یہ ایک ایسی جبلت ہے، جو ہمارے بڑھنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی رہتی ہے۔ یہ ایک اعلیٰ و برتر احساس ہے جس کے تحت ہم سانس لیتے ہیں، کھاتے ہیں، پیتے ہیں۔ حب الوطنی کا جذبہ صرف انسانوں تک ہی محدود نہیں بلکہ حیوان بھی اس جذبے سے مبرأ نہیں۔ وہ بھی اپنے مسکن سے محبت کرتے ہیں۔ جب بھی کوئی کوئی دوسرا جانور چاہے انکی نسل سے ہو یا کوئی دوسری نسل ہو، ان کے مسکن کی طرف اس نیت سے بڑھتا ہے کہ اس پر قبضہ کر لے تو پہلا جانور کمزور ہوتے ہوئے بھی اپنی طاقت و استطاعت کے مطابق مزاحمت ضرور کرتا ہے۔ پھر چاہے وہ احتجاج کرتا ہوا وہ مسکن چھوڑے یا جان سے جائے وہ بعد کی بات ہے۔
یہ راہِ عشق ہے ،مقتل سے ہو کے جاتی ہے
سو اس سفر میں کوئی دل میں ڈر نہیں لاتا۔۔
عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ کوئی چاہے جو طریقہ بھی اختیار کرے ، کسی نہ کسی طور حب الوطنی کا جذبہ ضرور رکھتا ہے۔ لیکن یہ بات درست ہے بھی اور نہیں بھی۔ بدقسمتی سے تاریخ میں کچھ غداراور وطن دشمن تاریخ میں ایسے بھی گزرے ہیں جو بہت زیادہ بدنام ہوئے۔ ذلت ان کے حصے میں آئی اور اپنے ہم وطنوں کے درمیان آج بھی انتہائی نیچ اور گھٹیا سمجھے جاتے ہیں۔ ان میں اگر ہم میر جعفر، میر صادق کا نام لیں تو بے جا نہ ہوگا۔
اگر وطن کی خاطر جان دینے والا ہمیشہ یاد رکھا جاتا ہے تو غدارِ وطن بھی بھی اسی طرح دلوںمیں بدنام رہتا ہے۔ جب میر جعفر کی پینشن لگی تو اسکی اولاد کو پینشن دینے کی خاطر جب بلایا جاتا تو سرکاری ہرکارہ آواز لگاتا تھا کہ میر جعفر غدار کی اولاد حاضر ہو۔ اور وہ شرم کے مارے سے سر نہیں اٹھا سکتے تھے۔ اسی طرح کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنھوں نے اپنے وطن کی خاطر تکالیف جھیلیں، وطن کی خاطر جان کا نذرانہ پیش کیا لیکن اپنی زندگی میں وطن پر آنچ بھی نہ آنے دی۔ ان ہی عظیم لوگوں میں میر جعفر و میر صادق کے سپہ سالار ٹیپو سلطان اور سراج الدولہ جیسے قابلِ فخر سپوت شامل ہیں ، جنھیں آج بھی دنیا اچھے الفاظ میں یاد کرتی ہے۔یہ وہ لوگ تھے، جنھوں نے مشکلات کو تو قبول کیا لیکن وطن کی خاطر مخمل کے بستروں پر سونا گوارا نہ کیا۔
حب الوطنی قومی اتحاد اور سا لمیت کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ یہ وطن سے محبت کا احساس ہی ہوتا ہے جو ہمیں اس بات پر ابھارتا ہے کہ ہم اپنے وطن کی ترقی و خوشحالی کے لیے کام کریں۔ یہ وطن کی محبت ہی ہے جو ہماری زندگی میں وطن کے فائدے کو اپنے ذاتی مفاد پر ترجیح دینے کے لیے ایک طاقتور جذبے کو بیدار کرتی ہے۔اگر کسی ملک کے عوام محب وطن ہیںس تو وہ آپس میں اتحاد سے رہنا پسند کرتے ہیں۔انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کا یہ اتحاد ان کے وطن کی بہتری کے لیے ہے۔ اور انہیں اس بہتری کا شدت سے احاس ہوتا ہے۔ کسی بھی ملک کی مختلف اکائیوں سے ، مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ایسے کسی بھی نظریے کو قبول نہیں کرتے ۔وہ ان کے ملک کی سا لمیت یا قومیت کے خلاف کسی بھی غیر ملک کے پروپیگنڈہ سے کسی بھی طور متأثر نہیں ہوتے۔درحقیقت حب الوطنی ایک عظیم طاقت ہے جو کہ عوام کو آپس میں ایک قوم کے طور پر متحد رکھتی ہے۔
حب الوطنی کا جذبہ اپنے ملک و قوم کے لیے محنت پر اکساتا ہے۔ یہ محب وطن لوگوں کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنے ملک کی ترقی کے لیے مل جل کر کام کریں۔ان کو یہ احساس ہوتا ہے کہ اگر وہ زندگی کے مختلف شعبوں میں لگن سے کام کریں تو ان کا قومی فرض ادا ہوتا ہے۔ مزدور محنت کش ملک کی مختلف صنعتوں میں مصنوعات تیار کرنے میں مدد دیتے ہیں۔زیادہ محنت کرکے اور زیادہ وقت لگا کر وہ زیادہ مقدار میں مصنوعات تیار کر سکتے ہیں۔ اس سے نہ صرف ان کی اپنی آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ قومی پیداوار بھی بڑھتی ہے۔کسان اپنے کھیتوں میں کام کرتے ہوئے اجناس کی پیداوار کو زیادہ کرنے کا ہر ممکنہ جائز طریقہ استعمال کرتے ہیں۔ وہ لوگ جو کاروبار سے منسلک ہیں وہ ذخیرہ اندوزی یا ناجائز طریقے اختیار کیے بغیر ایماندارانہ طریقے سے اشیاء کی خرید و فروخت کرتے ہیں۔ طلباء محنت و لگن سے علم حاصل کرتے ہیں اور اساتذہ اپنی ممکنہ لیاقت و استعداد کے مطابق درس و تدریس کے کام میں مصروف رہتے ہیں۔ المختصر مختلف پیشوں اور تجارت سے منسلکہ لوگ معاشرے کے دوسرے افراد اور ملک کے فائدے کے لیے اتنی ہی محنت سے کام کرتے ہیں جتنا کہ اپنے فائدے کے لیے ۔ حب الوطنی کاجذبہ انہیں بڑی حد تک انہیں اپنے کام کے ساتھ بے لوث و بے غرض کر دیتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ وہ رقم اور پیسہ کمانے کے لیے کام کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے ملک کو خوشحال اور مضبوط بناتے ہیں۔
دنیا کی عظیم قومیں مثلاً چینی ، جاپانی امریکی وغیرہ سب محب وطن قومیں ہیں۔ چین جو کسی زمانے میں افیونی قوم کے حوالے سے دنیا میں پہچانا جاتا تھا، آج دنیا کی سپر پاورز کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہے۔ بلکہ کئی معاملات میں تو دنیا کی تمام قوموں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ صنعتی میدان میں ہر دوسری تیسری چیز یا تو چین کی بنی ہوتی ہے یا پھر اس پر میڈ ان جاپان کی مہر لگی ہوتی ہے۔ یہ وہی جاپان ہے جس پر دوسری جنگِ عظیم میں ایک نہیں بلکہ دو ایٹم بم گرائے گئے۔ ایک تہائی آبادی کو نیست و نابود کر دیا گیا۔ متأثرہ زمین گھاس تک اگانے کے قابل نہ رہی چہ جائیکہ کہ وہاں پر اجناس یا کوئی سبزی اگائی جاسکتی۔ لیکن اسی جاپان کے باقی ماندہ لوگوں نے یہ تہیہ کر لیاکہ ملک کو ترقی دینا ہے اور اس قدر آگے بڑھانا ہے کہ اس ملک جس نے اسے تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ، صنعتی میدان میں تیا پانچہ کر دے اور اس نے یہ کر دکھایا۔ یہ سب ترقی یافتہ قومیں اتنی زیادہ ترقی کرنے کے قابل صرف اس لیے ہوئیں کہ ان میں جزبۂ حب الوطنی بدرجۂ اتم موجود تھا۔
حب الوطنی کا جذبہ ایک قوم کو متحد رہ کر اور بہادری سے بیرونی خطرات کا مقابلہ کرنا سکھاتا ہے۔ یہ جذبہ ملک کو درپیش خطرات کی موجودگی میں اپنا سب کچھ قربان کرنے پر تیار کرتا ہے۔ نوجوان مسلح افواج یا رضاکاروں کی جماعت میں شمولیت اختیار کرتے ہیں۔ اور یہ کام بڑی تعداد میں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے ہوتا ہے۔ اچھا کمانے والے اور امیر لوگ اپنی اپنی استطاعت کے مطابق قومی یادفاعی فنڈ میں امدادی رقوم جمع کراتے ہیں۔ اگر حکومت جنگ کے خطرے کے پیش نظر عوام پر کچھ نئے ٹیکس لاگو کرتی ہے تو عوام ان کی ادائیگی کے لیے بھی تیار ہوجاتے ہیں ۔ جب حقیقتاً جنگ شروع ہو جاتی ہے تو تمام مسلح عوام مسلح افواج کی جنگ کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ ہر قسم کا تعاون کرتے ہیں۔ یہی عوام ان کی ایک جگہ سے دوسرے جگہ حرکات و سکنات میں ، خوراک اور جنگ سے متعلقہ سامان کو ایک جگہ سے دوسرے جگہ پہچانے میں تمام ممکنہ سہولیات مہیا کرتے ہیں۔حب الوطنی کے مثبت پہلوئوں کے ساتھ کچھ منفی پہلو بھی موجود ہیں جن سے اجتناب ہی کرنا چاہیے تاکہ قومی اتحاد میں ایک باعزت مقام حاصل ہو سکے اور پھر اس مقام کو قائم بھی رکھا جا سکے۔ جب حب الوطنی کا جذبہ اعتدال سے تجاوز کرجائے تو پھر نتیجہ تنگ نظری، دھوکہ ، فریب اور ناجائز ذرائع و اختیارات کی صورت میں نکلتا ہے۔اور نتیجہ قومی و بین الاقوامی امور سے متعلقہ کاموں میں تعصباتی سوچ اور رویے کو جنم دیتا ہے۔ اس قسم کی حب الوطنی کا جذبہ جب لوگوں کی رگوں میں سرایت کر جاتا ہے تو پھر اس کو صرف یہی احساس رہتا ہے کہ کوئی اس کے ملک کو ، اسکی املاک کو، اسکے عوام کو نقصان نہ پہنچائے۔اس کے لیے وہ اتنہا تک جانے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ حتٰی کہ قانون بھی اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے۔ خدائی فوجدار بن کر غداروں کا خاتمہ کرنے کا فرض اپنے ذمہ لے لیتا ہے۔ لیکن نقصان اسے ہی ہوتا ہے۔ کیونکہ ایک حدیث کے مفہوم کے مطابق جو شخص کسی ایک انسان کو قتل کرے گا (میدانِ جنگ کے علاوہ) وہ شخص شاری انسانیت کا قاتل ہے۔ بعض لوگ اس پر اعتراض کرتے ہیں کہ اگر قتل کرنے والا کسی ڈاکو کو، کسی غدار کو یا کسی بھی ایسے شخص کو مار دیتا ہے جو کسی نہ کسی لحاظ سے انسانیت، مذہب یا ملک کو نقصان پہنچاتا ہے تو یہ ثواب کا کام ہے ۔ ہاں یہ تو ممکن ہو سکتا ہے کہ جو شخص اللہ، اسکے پیارے رسول ۖ یا قرآن پاک کی شان میں گستاخی کرے اور حکومتِ وقت اس کے خلاف کوئی بھی کارروائی نہ کرے تو پھر شاید عوام کو توہین مذہب کا قانون ہاتھ میں لینا پڑے، لیکن اس کے لیے بھی علمائے کرام، فقہا کرام سے اجازت لینی لازمی ہے۔ البتہ دوسرے قسم کے لوگوں کے لیے قانون ہاتھ میں لیتے وقت وہ یہ ضرور ذہن میں رکھے کہ قانون بھی تو ملک کا ہی ہوتا ہے۔ اب اگر وہ خود قانون کی خلاف ورزی کرے تو درحقیقت خدا کی نافرمانی ہوئی، کیونکہ اسی خدا کا حکم ہے کہ جو تم پر حاکم بنایا جائے، اس کی تابعداری کرو ماسوائے اس کے جب وہ شرک کا حکم دے یا اسلام کے منافی کام کا کہے۔ پھر دوسری بات یہ کہ جب وہ قانون اپنے ہاتھ میں لیتا ہے تو پھر محب وطن ہونے کا دعویدار کیسے ہوتا ہے؟کیونکہ وطن سے محبت کرنے والے تو وطن کی ہر بات کو عزیز رکھتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے کوئی عاشق اپنے محبوب کی ہر جائز و ناجائز بات کو محبوب رکھتا ہے۔
یہ اتنہائی مناسب ہو گا کہ ہماری قومی پالیسی اس طرح کی بنائی جائے جو عوام کے دل و دماغ میں جہاں تک ممکن ہو جذبہ حب الوطنی بیدار کرے۔ ملک کی ترقی و خوشحالی کے لیے یہ ایک انتہائی سود مند بات ہو گی کہ طالب علم معاشرے میں حب الوطنی کے جذبے کے ابھارا جائے۔ انہیں اس کی قدر و قیمت کے بارے میں سکھایا اور پڑھایا جائے۔ ان کے تعلیمی نصاب میں جذبۂ حب الوطنی اور اسکی خواہش کے متعلق مواد کو شامل کیا جانا چاہیے۔ جو انہیں حقیقی طور پر محب وطن شہری بنا سکے۔ ہماری تاریخ میں حب الوطنی کی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں جو کہ ان طلباء کو اچھی طرح ذہن نشین کرانی چاہییں۔ انہیں ہمارے اسلاف کے عظیم الشان ماضی کے متعلق پڑھایا جائے۔ اور جدید دور میں ان کی ذمہ داریوں کے متعلق انہیں بہرہ مند کیا جائے۔تاریخ ، ثقافت ، روایات اور ہماری قوم کے مستقبل کے مقاصد سے متعلق کتابیں اگر موجود ہیں تو ان سے استفادہ کیا جائے اور اگر نہیں ہیں تو پھر تحریر کرائی جائیں اور ان کو پھیلایا جائے۔ حب الوطنی کے جذبے کو مزید تقویت پہنچانے کے لیے ہمارے پاس اب بہترین ذرائع موجود ہیں۔ اطلاعات و نشریات کے ذرائع، ریڈیو، ٹی وی ، اخبارات، اور خاص طور پر انٹرنیٹ وغیرہ اس سلسلے میں اہم کام سر انجام دے سکتے ہیں۔ لوگوں میں معاشرتی اور قومی فرائض کو اجاگر کرنے اور ان کے شعور کو جگانے کے لیے ان ذرائع کا استعمال نہایت ضروری ہے۔جب ان ذرائع کو استعمال کیا جائے گا جو کہ آج کل ہمارے اذہان پر آکٹوپس کے پنجے کی طرح چھائے ہوئے ہیں، تو ہمارے لاشعور بلکہ تحت الشعور کو بھی جھنجھوڑنے کا کام ہو گا۔ جس کی وجہ سے ہم ہر کام اس طریقے سے انجام دیں گے کہ جس میں ملک کا مفاد ہو گااور نقصان پہنچانے کا معمولی سا شائبہ بھی ہمارے ذہن کے کسی کونے میں سر نہیں ابھارے گا۔
حب الوطنی کے صرف اس جذبے کی قدر کی جا سکتی ہے جو سچا اور مثبت ہو۔ اس جذبے کو دل میں رکھتے ہوئے ہمیں بین الاقوامی امور اور نظریات کو سامنے رکھنا رکھنا چاہیے۔ تا کہ یہ بین الاقوامی قوانین کے خلاف نہ ہو۔ورنہ عین ممکن ہے کہ مختلف قومیں ہوش مندی سے کام لینے کی بجائے ایک دوسرے کے خلاف اٹھ کھڑی ہوں۔ حب الوطنی بذاتِ خود کوئی مقصد نہیں ہے کہ قومیت کو سامنے رکھتے ہوئے لوگو ں میں زبردستی اس جذبے کو ابھارا جائے اور لوگوں سے زبردستی ملک و ملت کی عزت کرائی جائے۔ اگر ایسا کیا جائے گا تو بجائے حب الوطنی کا جذبہ بیدار ہونے کے لوگوں میں ایک ضد اور اناپرستی پیداہوجائے گی۔ اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ نہ ملک رہتا ہے اور نہ جذبۂ حب الوطنی۔
تحریر: ابنِ نیاز