تحریر:محمد شاہد محمود
چارسدہ میں دہشتگردوں نے نہتے طلبا کو خون میں نہلا دیا ، باچا خان یونیورسٹی پر حملے میں انیس طالب علموں سمیت اکیس افراد شہید اور نو زخمی ہو گئے۔ پاک فوج کے بروقت آپریشن میں چاروں دہشت گرد مارے گئے۔ بزدل اور انسانیت کے دشمنوں کا تعلیم کی پیاس بجھانے والوں پر ایک اور وار ، خیبر پختونخوا میں پھر تعلیمی ادارے کو نشانہ بنایا۔ چھپ کر وار کرنے والے بزدل دشمنوں نے دھند کا فائدہ اٹھایا ، صبح نو بجے چارسدہ میں باچا خان یونیورسٹی کی پچھلی سائیڈ سے داخل ہوئے۔ دو سیکورٹی گارڈز کو زخمی کرنے کے بعد کینٹین اور ہاسٹل میں گھس کر دستی بم پھینکے اور اندھا دھند فائرنگ کر دی۔ سفاک دشمن نے ہاسٹل میں سوتے ہوئے طلبا کو بھی نشانہ بنایا۔ یہ منظر دیکھ کر ہر طرف افراتفری مچ گئی۔ طلباء نے مرکزی دروازے کی طرف دوڑ لگا دی اور عمارت سے باہر نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ طالبات نے خوفزدہ ہونے کے بجائے بہادری دکھائی۔ خود بھی باہر نکلیں اپنی ساتھی طالبات کو بھی حوصلہ دے کر باہر لائیں۔ پولیس کی بھاری نفری تھوڑی دیر میں موقع پر پہنچ گئی اور ان کا دہشت گردوں سے فائرنگ کا تبادلہ شروع ہو گیا۔
اس دوران پاک فوج کے جوان برستی گولیوں میں یونیورسٹی میں داخل ہو گئے۔ سکیورٹی اہلکاروں نے فوری کارروائی کرتے ہوئے دہشت گردوں کو یونیورسٹی کے بلاکس میں محصور کردیا اور چاروں دہشتگردوں کو سیڑھیوں اور چھت پر جہنم واصل کرکے یونیورسٹی کو کلیئر کرالیا۔ شہدا میں دس کے قریب طلبا کا تعلق چارسدہ سے تھا۔ اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر سید حامد حسین اور اسسٹنٹ لائبریرین افتخار بھی اس اندوہناک واقعہ میں شہید ہوئے۔ باچا خان یونیورسٹی پر دہشت گردوں کے حملے کی اطلاع ملتے ہی لوگ اپنے پیاروں کی تلاش میں مارے مارے پھرتے رہے۔ ہر طرف چیخ و پکار، خواتین دھاڑیں مار مار کر روتی رہیں۔ حملے کی اطلاع ملتے ہی یونیورسٹی میں زیرتعلیم طلباء کے والدین اپنے بچوں کی تلاش میں بھاگ کھڑے ہوئے۔ اس موقع پر خواتین یونیورسٹی کے باہر سینہ کوبی کرتی رہیں اور اپنے پیاروں کا پوچھتی رہیں۔ حملے کے بعد پورے صوبے میں خوف وہراس پھیل گیا۔
والدین اپنے بچوں کو تعلیمی اداروں کو بھجوانے سے کترانے لگے۔ والدین کے مطابق اپنے بچوں کو صبح تیار کرکے ان درندوں کے ہاتھوں مروانے کیلئے نہیں بھجواتے۔ آخر ہم کہاں جائیںکس سے انصاف مانگیں، کس سے تحفظ مانگیں، والدین نے سکیورٹی اداروں اور حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے اپیل کی کہ ہمارے بچوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔ یونیورسٹی کے نوجوان طالب عملوں میں سے بہت سے ایسے تھے جنہوں نے بالائی منزل سے چھلانگ لگا کر اپنی جان بچائی اور زخمی ہوگئے۔ چند ایسے تھے جو پشاور سکول کے بچوں کی مانند کلاسوں میں موجود میزوں کے نیچے یا پھر اپنے کمروں میں چھپ گئے۔ چند عینی شاہدین نے حملے کے بعد باچا خان یونیورسٹی کے باہر موجود میڈیا سے گفتگو کی۔ ایک طالب علم نے بتایا کہ حملہ آوروں نے پہلا فائر سکیورٹی اہلکاروں پر کیا اور اس وقت وہ خود بھی قریب ہی موجود تھے۔ ہم نے کہا بھاگو یار یہ تو دہشت گرد آ گئے۔
پھر بس پتہ نہیںہم نے کچھ نہیں دیکھا ہم نے ان کے قدموں کی آوازیں سنیں اور نعرہ تکبیر اللہ اکبر کے جو وہ نعرے لگا رہے تھے وہ بھی سنے۔ یونیوسٹی میں موجود ایک دوسرے عینی شاہد نے بھی دہشت گردوں کو فائرنگ کرتے دیکھا۔ بقول ان کے وہ بہت ماہرانہ انداز میں فائرنگ کر رہے تھے۔ ہم جیسے ہی یونیوسٹی میں داخل ہوئے یونیورسٹی کے داہنی طرف سے چار افراد فائرنگ کرتے ہوئے ہماری طرف آئے۔ پھر اندر موجود سکیورٹی اہلکاروں نے بھی ان پر فائرنگ کی۔ جب وہ آخری عمارت میں چلے گئے تو ہم آفس گئے اور وہیں بیٹھ گئے بہت زیادہ فائرنگ ہو رہی تھی۔ طالب علموں کا کہنا ہے کہ فائرنگ کی آوازوں نے وہاں موجود افراد کو انتہائی خوفزدہ کر دیا تھا حملے کی صورت حال کے بارے میں بتاتے ہوئے ایک طالب کا کہنا تھا کہ میرا دوست اتنا خوفزدہ ہوا کہ وہ یونیورسٹی کی عمارت سے کود کیا۔ کچھ طلبہ کا کہنا تھا کہ پہلے تو انہیں لگا کہ یونیوسٹی میں کوئی جھگڑا ہو گیا ہے مگر پھر گولیوں کی مسلسل آوازوں سے انہیں حالات کی سنگینی کا اندازہ ہوا۔ جب فائرنگ زیادہ ہو گئی تو ہم نے سارے لڑکوں کو کہا کہ وہ کمروں سے باہر نہ نکلیں۔ ہماری یونیورسٹی کے سکیورٹی والوں اور پاکستان آرمی نے ان کا بھرپور مقابلہ کیا۔
عینی شاہدین بتاتے ہیں کہ انہوں نے دہشت گردوں کو یونیورسٹی کی چھت سے فائرنگ کرتے دیکھا اور دھماکوں کی آوازیں سنیں۔ میں نے خود تین دہشت گردوں کو دیکھا۔ ایک ہاسٹل نمبر ون کے پاس تھا میں نے یونیورسٹی کے چار زخمی سکیورٹی گارڈوں کو دیکھا اور انہیں اٹھایا اور ایمبولینسوں میں ڈالا۔لوگ فون کر کے اپنے پیاروں کی خیریت دریافت کرتے رہے جونہی ساڑھے نو بجے ٹیلی وڑن پر یونیورسٹی پر دہشت گردوں کے حملے کی خبر نشر ہوئی تو چارسدہ میں خوف و ہراس پھیل گیا، مائیں اپنے بچوں کی خیریت دریافت کرنے کے لیے ڈی ایچ کیو ہستپال اور یونیورسٹی کے چکر لگاتی رہیں۔ باچا خان یونیورسٹی میں کینٹین میں ایک دوسرے کے اوپر لیٹ کر جان بچائی۔ بدھ کو باچاخان یونیورسٹی میں دہشتگردوں کے حملے کے وقت 30سے 35طالب علم یونیورسٹی کی کنٹین میں ناشتہ کر رہے تھے، کنٹین کے مالک کو فائرنگ سے اندازہ ہوگیا تھا کہ دہشتگردوں نے یونیورسٹی پر حملہ کر دیا ہے اس وجہ سے مالک نے تمام طالب علموں کو کچن میں فرش پر لٹا دیا اور کمرہ بند کرکے کنڈی لگا دی۔ اس طرح معجزاتی طورپر تمام طالب علم جاں بچانے میں کامیاب ہوگئے۔باچا خان یونیورسٹی میں ہونے والے دہشت گردوں کے مذموم حملے اور اے پی ایس پر ہونے والے حملے میں کئی طرح کی مماثلت پائی گئی ہے۔ علم کے دشمنوں نے باچا خان یونیورسٹی پر حملہ کیا، حملے کے لئے دہشت گرد عقبی راستے سے یونیورسٹی میں داخل ہوئے، دہشت گردوں نے اس سے پہلے بھی تعلیمی ادارے کو نشانہ بنایا، اے پی ایس حملے میں بھی دہشت گردوں نے مذموم کارروائی کے لئے عقبی راستہ چنا۔
باچا خان یونیورسٹی اور اے پی ایس دونوں کے عقب میں رہائشی گائوں موجود ہیں۔ اے پی ایس میں آڈیٹوریم میں میڈیکل ٹریننگ دی جا رہی تھی جبکہ باچا خان یونیورسٹی میں باچا خاں کی برسی کے موقع پر مشاعرہ ہوا تھا۔ ہوسٹل میں گھس کر طلبا کو گولیوں کا نشانہ بنایا۔ اے پی ایس میں میٹرک کے طلبا کو نشانہ بنایا گیا جبکہ باچا خان حملے میں ماسٹرز کے طلبا کی تعداد زیادہ ہے۔ دونوں تعلیمی اداروں میں پاک فوج کے جوانوں نے دہشت گردوں کو ہلاک کرکے تعلیمی ادارہ کلیئر کرایا، دونوں آپریشنز میں آرمی ہیلی کاپٹرز کے ذریعے نگرانی کی گئی۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں ٹوئٹر کے صارفین باچا خان یونیورسٹی پر ہونے والے حملے کا گذشتہ سال آرمی بپلک سکول پشاور میں ہونے والے حملے سے موازنہ کرتے رہے۔ جوں جوں حملے کی تفصیلات سامنے آنے لگیں پاکستان میں ٹوئٹر صارفین کی جانب سے ان خدشات کا اظہار کیا جانے لگا ‘کہیں یہ حملہ آرمی سکول حملے جیسا تو نہیں۔
ایک پاکستانی صحافی نے ٹویٹ کیا: ‘ہمیں امید اور دعا کرنی چاہئے کہ یہ ایک اور اے پی ایس نہ ہو!’ ایک صارف نے لکھا: ‘محصوروں کے لئے دعائیں پھر سے کوئی اے پی ایس نہ ہو۔ ایک صحافی نے لکھا امید ہے یہ پھر سے 16 دسمبر نہ ہو۔’ ایک صارف نے لکھا: ‘خدشہ ہے یہ اے پی ایس سے زیادہ برا ہو گا۔ اس کے لئے کسے مورد الزام ٹھہرایا جائے؟’ ایک ٹوئٹر ہینڈل سے لکھا گیا: ‘کوئی بھی مذہب، کوئی بھی تنازعہ کسی مقدس مقام اور تعلیمی ادارے میں کسی کو مارنے کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ انتقام ہے۔’ زیادہ تر ٹوئٹر صارفین کی جانب سے اس کی مذمت کی گئی۔ ایک صارف نے لکھا: ‘تم لوگ جتنا ہمیں تعلیم کے حصول اور عدم تشدد سے روکو گے، ہم اس پر اتنی ہو توجہ مرکوز کریں گے۔
آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے چارسدہ حملے اور اس کے نتیجے میں ہونے والے جانی نقصان اور سکیورٹی فورسز کے آپریشن کے بارے میں وزیراعظم کو بریف کیا جبکہ وزیراعظم نے بروقت کارروائی کرنے پر سکیورٹی فورسز کی تعریف کی۔ وزیراعظم نے وزیر داخلہ چودھری نثار سے حملے کی رپورٹ طلب کر لی جبکہ انھوں نے انتظامیہ کو زخمیوں کو بہتر طبی امداد فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے۔وزیراعظم نے گورنر خیبرپختونخوا مہتاب عباسی کو فون کرکے ریسکیو آپریشن کی مسلسل نگرانی کی ہدایت کی جبکہ اے این پی سربراہ اسفند یارولی سے فون پر گفتگو میں کہا کہ باچاخان یونیورسٹی پر حملہ پاکستان پر حملہ ہے۔ بزدلانہ کارروائی پر دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو متحد ہوکر بے رحم جواب دیا جائے گا۔
تحریر:محمد شاہد محمود