تحریر : ڈاکٹر عارف محمود کسانہ
دنیا اس وقت امن و سکون کی متلاشی ہے کیونکہ انسانوں کے مختلف نظریات میں بٹنے، عدم برداشت اور احترام باہمی کے نہ ہونے سے سکون ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ ان حالات میں بین المذاہب مکالمہ کی اشد ضرورت ہے تاکہ ایک دوسرے کے خیالات و نظریات کو سمجھا جائے اور غلط فہمیوں کی خلیج کم ہو اور سب ایک پر امن معاشرہ میں اپنے اپنے دین اور سوچ کے مطابق زندگی بسر کرسکیں۔ اسی کی تلاش میں سٹاک ہوم میں ایک امن کانفرس منعقد ہوئی۔ اس امن کانفرس کے محرک سویڈش بر سر اقتدار سیاسی جماعت سوشل ڈیموکریٹ کے نوجوان رہنما شفقت کھٹانہ ایڈووکیٹ تھے۔ وہ ہر سال میلاد کانفرس منعقد کرتے ہیں لیکن اس بار احباب کے مشورہ سے انہوں نے دیگر مذاہب کے لوگوں اور سویڈش سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کو بھی مدعو کیا تاکہ اس امر کا عملی اظہا ر ہوسکے کہ رسول پاک صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ تمام انسانوں کے لیے رحمت ہیں۔ میلاد کی اس تقریب کو امن کانفرس سے منسوب کرتے ہوئے سویڈش سیاسی جماعتوں سوشل ڈیموکریٹ، لیف پارٹی، گرین پارٹی اور مادڑیٹ پارٹی کے رہنما اسٹیج پر موجود تھے۔ دی کامن گرائونڈ نامی تنظیم کے سربراہ ایمیونوئیل لوتھر راتک جو کہ سیرت نبی پر لکھی گئی کتاب پر صدر پاکستان سے صدارتی ایوارڈ وصول کرچکے ہیں ، بھی شریک تھے۔ نوجوان مقررین ملک باسط اور ڈاکٹر ذیشان نے سویڈش معاشرہ میں مسلم نوجوانوں کے مسائل اور ان کے بارے میں رائے عامہ کی عمومی سوچ پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ میڈیا کی وجہ سے جو تصویر پیش کی جاتی ہے وہ درست نہیں۔ انہوں نے کہا کہ عراق اور شام میں لڑنے کے لیے جانے والے نوجوانوں کی اکثریت جرائم پیشہ ہے ۔ سویڈن میں رہنے والے مسلمان نوجوانوں کی غالب اکثریت امن پسند اور ملکی قانون کا احترام کرنے والی ہے۔ وہ میثاق مدینہ کا بھی حوالہ دے رہے تھے جس کے تحت حضورۖ نے مدینہ کے غیر مسلموں کے ساتھ پر امن رہنے اور انہیں اسلامی ریاست میں مکمل حقوق دیئے جو کہ تاریخ عالم ایک کا روشن باب ہے۔
مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک ، عراق، افغانستان ، فلسطین، کشمیر میں خون مسلم کی ارزانی اور دہشت گردی کے دوہرے معیار کو لیفٹ پارٹی کے کونسلر برکت حسین نے آڑے ہاتھوں لیا۔ انہوں نے سوال کیا کہ پیرس حملے پر موجودبہت سے سوالیہ نشانات صورت حال کو پیچیدہ بنارہے ہیں۔ سٹاک ہوم سٹڈی سرکل کی نمائندگی کرتے ہوئے ڈاکٹر عارف کسانہ نے بھی کچھ ایسا ہی سوال اٹھایا کہ یہ بتایا جائے کہ داعش، بوکوحرام، طالبان کو کون اسلحہ، مالی امداد، خوارک اور دیگر وسائل مہیا کررہاہے۔ سید ذوالفقار شاہ نے سیرت رسول پاکۖ کی روشنی میںاپنے مسائل حل کرنے اور لائحہ عمل متعین کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔مسیحی محقق ایمیونوئیل راتک نے قرآن حکیم کی آیات کے حوالے دے کر واضع کیا کہ دین اسلام پوری انسانیت کو کنبہ خداکہتے ہوئے انہیں امت واحدہ قرار دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قرآن حکیم نے کہا ہے کہ آئو جو چیز سب میں مشترک ہے اس پر اتفاق کرلیں اور حضرت ابراھیم چونکہ یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کے لیے یکساں قابل عزت اور احترام ہیں اس لیے اُن کے اسوہ کو مد نظر رکھناچاہیے۔ انہوں نے امن کانفرس کی کاوش کا بہت سراہا اور سانحہ پشاور کے معصوم شہداء کو منظوم خراج عقیدت پیش کیا۔
سویڈش پالیمنٹ میں گرین پارٹی کی ترجمان ایسا بیلا ڈینگیزین، سوشل ڈیموکریٹ پارٹی کے رکن پارلیمنٹ سیرکن کوشے، لیفٹ پارٹی کے کونسلر بیکر اوزنیل، ماڈریٹ پارٹی کے کونسلر جیمی بیکر، اور گرین پارٹی کے کونسلر ڈان گرون ستروم نے اسٹیج پر مشترکہ پینل کی صورت میں اپنا اپنا نقطہء نظر پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے کے باوجود دہشت گردی کے خلاف مشترکہ حکمت عملی پر متفق ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عدم برداشت اور تشدد سے جمہوریت کو خطرہ لاحق ہے۔ سویڈن میں اسلام فوبیا اور یہودیوں پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے حالات نے سب کو پریشان کررکھا ہے۔ سویڈش سیاسی رہنمائوںکا کہنا تھا کہ نفرت کو نفرت سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ ہمیں ایسا معاشرہ چاہیے جس میں سب آزادی اور احترام باہمی سے رہ سکیں۔ سویڈن میں دنیا کے ہر ملک کے باشندے اور تمام مذاہب کے لوگ پر امن رہ رہے ہیں اور چند شر پسند عناصر یہاں کا امن تباہ نہیں کرسکتے۔ اگر مساجد پرحملے ہوئے ہیں تو اگلے روز ہزاروں لوگ مساجد کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ جعفر مغل نے شام ور عراق میں لڑنے کے لیے جانے والے نوجوانوں کے حوالے سے مربوط حکومتی پالیسی کی عدم موجودگی کا سوال اٹھایا۔
امن کانفرس کے مہمان خصوصی سفیر پاکستان جناب طارق ضمیر نے بہت اہم خطاب کیا ۔ انہوں نے امن کانفرس میں خواتین ، بچوں اور مختلف مذاہب کے لوگوں کی شرکت کو سراہا۔ انہوں نے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام بنی نوع انسان کو قابل عزت قرار دیتے ہوئے اسے حق دیا کہ وہ اپنی مرضی کا دین اختیار کرے اور جو مذہب چاہے اختیار کرے۔اسلام آخر اور مکمل دین ہے لیکن کسی کو زبردستی اس میں شامل نہیں کیا جاسکتا۔ اس ضمن انہوں نے بہت ہی عمدہ مثال دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایسے ہی ہے جیسے اپنے کمپیوٹر کے لیے ونڈوز کا انتخاب کرنا۔اگر کوئی Latest Version کی بجائے ونڈوز کے پرانے ورژن کو بہتر سمجھتا ہے اور اسے ہی اپنانا چاہتا ہے تو اسے کرنے دیں ، اسے زبردستی نیا ورژن اختیار کرنے پر مجبور نہ کریں البتہ اسے دلائل دیںاور قائل کرنے کی کوشش کریں لیکن نہ مانے تو چھوڑ دیں اور یہی معاملہ دین میں اختیار کریں۔
انہوں نے کہا ہمیں عمل سے ثابت کرنا چاہیے کہ ہم بہتر ہیں۔ حضور کے لب و رخسار کی باتیں اپنی جگہ پر لیکن ہمیں اسوہ حسنہ اور آپ کے کردار کو اجاگر کرنا چاہیے۔ہمیں اپنے نبی کی طرح ہونا چاہیے اور ہماری روز مرہ کی زندگی میں رسول پاک کے کردار کی جھلک نظر آنی چاہیے۔آج ہمیں بہت سی مشکلات درپیش ہیں ، ان حالات میں ہمیں شعیب ابی طالب میں رسول پاک کا اپنے اہلخانہ اور ساتھیوں کے ساتھ قیام مدنظر رکھنا چاہیے جب آپ پر شدید مشکلات اور پریشانیوں کا دور تھا۔ ہمیں ظلم، جبراور مشتعل کرنے والے مقامات پر رسول پاک کا حلم اور عفو و درگذر مد نظر رکھنا چاہیے۔ تحمل اور برداشت کو فروغ دیں۔ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دیں جس کی سوشل میڈیا کی وجہ سے اور بھی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ انہوں کہا کہ سویڈش اچھے لوگ ہیں، ان سے اچھے مراسم رکھیں اور ہمسائیوں کا خیال کریں۔ ایک اچھے شہری کی طرح مقامی قوانین کا احترام کریں۔ امن کانفرس کے منتظم شفقتکھٹانہ ایڈووکیٹ نے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سلسلہ کو جاری رکھیں گے تاکہ مختلف الخیال لوگوں کے درمیان رابطے بڑھیں۔
امن کانفرس میں شریک ہالینڈ سے تعلق رکھنے والے مسٹر ڈبلیو پیٹر جو کہ ایک اہم ادارہ سے وابسطہ ہیں کہا کہ اس کانفرس میں شرکت کے بعد میرے خیالات مسلمانوں کے بارے میں بدل گئے ہیں اور بہت سی غلط فہمیاں دور ہوگئی ہیں اور مجھے اطمینان ہوگیا ہے کہ مسلمان ایک پُر امن دین کے پیروکار ہیں اور دہشت گردی سے ان کا کوئی واسطہ نہیں۔ واقعی امن کانفرس اپنے مقاصد میں کامیاب رہی اور ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سلسلہ کو جاری رکھا جائے اور دیگر یورپی ممالک میں اس نوعیت کے اجتماعات منعقد کیے جائیں۔
تحریر : ڈاکٹر عارف محمود کسانہ