تحریر : طارق حسین بٹ
کراچی کے ناسور کے بارے میں ہر شخص بخوبی آگاہ ہے۔یہ بات ہر شخص کے علم میں ہے کہ کس طرح کراچی خا ک وخون میں لت پت رہا اور اس کے مکین کس طرح اپنے پیاروں کے لاشے اٹھاتے اٹھاتے تھک گئے ۔قتل و غارت گری اور لہو کے خراج کی یہ جنگ جب طویل ہو گئی تو پھر لوگوں کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہو گیا اور وہ اس سے نجات کی دعائیں مانگنے لگے ۔ٹارگٹ کلنگ،بھتہ خوری او ر اغوا برائے تاوان نے جب لوگوں کا جینا حرام کر دیا تو پھر قدرت کی جانب سے ان کے دکھوں کے مداوا کے لئے جنرل راحیل شریف کی صورت میں ایسا مسیحا سامنے آیا جس نے بلا تخصیص اور بلا امتیاز کراچی اپریشن کے توسط سے خاک و خون کے جاری اس کھیل کو بند کرنے کا اعلان کر دیا۔ ١٦ دسمبر ٢٠١٤ کوآرمی پبلک سکول پشاور پر دھشت گردی کے واقعے نے پاکستانی عوام کی عمومی سوچ کو بالکل بدل کر رکھ دیا۔وہ لوگ جو کل تک فوج کو انتظامی امور دینے کے خلاف تھے انھیں بھی عوامی رائے کے سامنے سرنگوں ہونا پڑا اور ایک ایسا قومی اتفاقِ رائے دیکھنے کو ملا جس میں دھشت گردی سے جڑے ہوئے افراد کے خلاف اپریشن کے لئے فوج کو کھلا میدان دے دیا گیا۔پی پی پی اور جماعت اسلامی اس اپریشن کے خلاف تھیں لیکن انھیں بھی بدلتے حالات اور عوامی غم و غصہ کے بحرِ بے کراں میں اتفاق کرتے ہی بنی۔ ایم کیو ایم اس اپریشن کا پہلانشانہ بنی کیونکہ کراچی کے سارے معاملات اسی کے ہاتھ میں تھے اور کراچی کا امن اس کی اولین ذمہ داری تھی جس سے اس نے پہلو تہی کر رکھا تھا۔
اس کے کارکنوں نے جس طرح سے عوام کو یرغمال بنایا ہوا تھا اور جس طرح بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان کو فروغ دیا ہوا تھا ایم کیو ایم کا فوجی اپریشن کا نشانہ بننا ضروری تھا ۔اس بات کی گواہی ان اقبالی بیانات سے بھی ہوتی ہے جو ایم کیو ایم کے صفِ اول کے کارکنوں کی جانب سے اخبارات کی زینت بنتے رہے اور جن کی تردید کرنے کے لئے ایم کیو ایم کے پاس وزنی دلائل نہیں تھے ۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ایم کیو کے سیکٹر انچارج انتہائی طاقتور افراد تصو کئے جاتے ہیں کیونکہ ان کی حیثیت کے سامنے مقامی قیادت کو بھی پر دم مارنے کی جرات نہیں ہوتی۔متحدہ کے ایم این اے اوررکنِ صوبائی اسمبلی ان عہدیداروں کے سامنے بھیگی بلی بنے نظر آتے ہیں کیونکہ طاقت کا سرچشمہ سیکٹر انچارج کی ذات تصور ہوتی ہے۔
لہذا ایسے حالات میں ان متذکرہ سیکٹر انچارج کے علاقے میں رہنے والے کسی بھی فرد کے لئے ایم کیو ایم کی مخالفت کرنا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہوتاہے۔یہی وہ مقام ہے جہاں سے ایم کیو ایم سے اختلافِ رائے رکھنے والوں کو اذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔جماعت اسلامی اور تحریکِ انصاف کے کتنے ہی کارکن ایم کیو ایم کی اس یلغار کا نشانہ بنے اور اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔خونِ نا حق کا یہ کلچر کئی دہائیوں پر محیط رہا جس میں سیاسی مخالفین کا چن چن کر صفایا کیا جاتا رہا۔پی پی پی ایک ایسی جماعت تھی جسے اقتدار میں ہونے کے باوجود اپنے کارکنوں کی لاشیں اٹھانی پڑی تھیں ۔محترمہ بے نظیر بھٹو کے پہلے دورِ حکومت میںپی پی پی کو ایم کیو ایم کے ہاتھوں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا اور اسے شدید زک اٹھانی پڑی تھی۔یہ وہی دور تھا جس میں ایم کیو ایم اور پی پی پی کے اغوا شدہ کارکنوں کا جنگی قیدیوں کی طرح تبادلہ ہوا تھا۔سچ تو یہ ہے کہ ایم کیو ایم کراچی کا اقتدار کسی بھی دوسری جماعت کی جھولی میں گرانے کا رسک نہیں لے سکتی تھی۔وہ سب کچھ برداشت کر سکتی ہے۔
لیکن کراچی کا تسلط کسی اور کے ہاتھوں اسے قبول نہیں ہے۔کراچی پر قبضے کی یہی کہانی مختلف قومیتوں سے ایم کیو ایم کی جنگ کی اصل بنیاد ہے،کبھی اس کا نشانہ بنجابی بنے،کبھی سندھی بنے اور کبھی پٹھان اور بلوچ بنے۔اس جنگ میں ایم کیو ایم نے جس سفاکیت کا مظاہرہ کیا اس نے اس پر دھشت گرد تنظیم کا لیبل چسپاں کر دیا۔فوجی اپریشن نے اسی لیبل کی اوٹ سے ایم کیو ایم کے خلاف اپریشن کا فیصلہ کیا اور وہ کچھ منظرِ عام پر آگیا جو ابھی تک پردوں میں چھپا ہوا تھا۔ایم کیو ایم نے اس اپریشن کے خلاف سخت مزاحمت کا فیصلہ کیا لیکن فوجی اپریشن اپنے روائتی انداز میں آگے بڑھتا رہا۔رینجرز نے اس جنگ میں کسی قسم کی لچک کا مظاہرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ایم کیو خوب چلائی لیکن ہر ایک نے اس کی سنی ان سنی کر دی۔فوجی اپریشن کے نتیجے میں ایم کیو ایم کے متحرک کارکن زیرِ زمین چلے گئے لیکن جو ہاتھ لگے فوجی قیادت نے ان کو خوب رگیدا۔کئی کارکن ابھی تک لا پتہ ہیں، کئی مقابلوں میں جاں بحق ہو چکے ہیں اور کئی بیرونِ ملک فرار ہو چکے ہیں۔اس ساری مشق کا فائدہ یہ ہوا کہ کراچی کا امن واپس لوٹ آیا اور عوام نے سکھ کا سانس لیا۔
عوامی پذیرائی کی یہی وہ قوت تھی جس نے فوجی اپریشن کو تقویت بخشی اور فوجی قیادت نے دوسری جماعتوں کی جانب رخ کرنا شروع کیا۔فوج کا ایسا کرنا تھا کہ پی پی پی کی صفوں سے شورو غوغہ بلند ہوا اور فوج کو کڑوی کسیلی باتیں سہنی پڑیں ۔آصف علی زرداری کی وہ تقریر جس میں فوج کو سبق سکھانے اور ان کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی باتیں کی گئیں فوج کے لئے ناقابلِ برداشت تھی کیونکہ اس طرح فوجی اپریشن کے سارے نتائج نقش بر آب ہونے کا اندیشہ پیدا ہو گیا تھا۔اس لمحے میاں نواز شریف کے دو ٹوک موقف اور جنرل راحیل شریف کے عزمِ مصمم نے اس اپریشن کو منطقی انجام تک پنچانے کا عندیہ دے کر پی پی پی کے غبارے سے ہو انکال دی۔آصف علی زرداری تو چند دنوں کے بعد دبئی یاترہ پر نکل گئے اور فوجی اپریشن پر تابڑ توڑ حملوں کے اپنے سلسلے کو تیز تر کرنے لگے لیکن ان کی یہ ساری سٹریٹیجی فوجی اپریشن میں کسی قسم کا رخنے ڈالنے میں ناکام رہی کیونکہ عوام کی شدیدی خواہش یہی ہے کہ فوجی اپریشن جاری و ساری رہے۔ڈاکڑ عاصم حسین کی گرفتاری پر سندھ کے وزیرِ اعلی قائم علی شاہ نے جس طرح کا ردِ عمل ظاہر کیا اور فوجی اپریشن کی روح کو سندھ اسمبلی سے ذبح کروانے کی کوشش کی اس سے پی پی پی کو دفاعی انداز اختیار کرنا پڑا۔
مرکزی حکومت نے سندھ اسمبلی کی قرار داد کے بعد فوجی اپریشن کو جاری رکھنے کا پروانہ تھما دیا جس سے سندھ حکومت کو خفگی کا سامنا کرنا پڑا۔سچ تو یہ ہے کہ ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری پی پی پی کے لئے ناقابلِ برداشت ہے لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ گرفتاری کسی اورا یجنسی کے ہاتھوں نہیں بلکہ فوج کے ہاتھوں ہو ئی ہے لہذا ا ڈاکٹر عاصم کو رہائی بھی فوج کی اشیرواد سے ہی مل سکتی ہے لیکن فوج ابھی تک اس طرح کے کسی موڈ میں نہیں ہے۔وہ کراچی کو کرپشن اور جرائم سے پاک کرنا چاہتی ہے اور اس کے لئے کسی بھی قسم کے سمجھوتے کے لئے تیار نہیں ہے۔کیا ایسا ہو جائے گا ؟کیا کراچی کا امن لوٹ آئے گا ۔؟ کیا کراچی پھر روشنوں کا شہر بن پائے گا؟اور کیا سب کچھ وقتی اور ہنگامی ثابت ہو گا یا کراچی یونہی خون میں لت پت رہے گا۔؟ اس کا فیصلہ اگلے چند روز میں ہو جائے گا لیکن میرا یقین ہے کہ جنرل راحیل شریف کی زیرِ نگرانی فوجی اپریشن کے نتیجے میں کراچی ملک کا سب سے پر امن شہر ہوگا۔،۔
تحریر : طارق حسین بٹ