تحریر: مقصود انجم کمبوہ
یورپ میں اسلام کے پھیلائو سے بعض طبقات بہت زیادہ فکرمند ہیں جبکہ بعض اسلام کے پیروکار بن کر اسکی ترویج و ترقی میں خاصی دلچسپی لے رہے ہیں وہ حقیقت پسند لوگ ہیں جو اسلامی نظریات کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں کچھ عرصہ پہلے فرانس کے ممتاز اخبار روزنامہ لی مونڈے میں ایک کھلا خط شائع ہوا تھا قلمکار گونٹر گراس نے کھلے خط میں مطالبہ کیا تھا کہ کوڈام میں مسجد تعمیر کی جائے مصنف نے اپنے مطالبے کے حق میں یہ دلیل پیش کی کہ اب کیتھو لکس اور پرونسٹنٹس کے بعد مسلمان، جرمنی کی تیسری بڑی جمیعت ہیں اس لیے برلن میں مسلمانوں کی عبادت کے لیے مسجد تعمیر ہونی چاہیئے۔ مصنف نے اپنی رائے ظاہر کرتے ہوئے کہا چونکہ یہ صورت حال برقرار رہے گی اس لئے مسلمانوں کے لیے عبادت گاہ ہونا ضروری ہے۔
انہوں نے مسلمانوں کی موجودہ صورت حال کو سترہوں صدی کے اواخرمیں فرانس کے ہیوگناٹس پرونسٹنسٹ باشندوں کے مماثل قرار دیا ہے جنہیں کیتھولک فرانس سے زبردستی نکال دیا گیا تھا ۔ اور انہوں نے برلن میں پناہ لے کر اپنے چرچ تعمیر کئے تھے ۔ جرمنی میں مسلمانوں کی تعداد 2.8 ملین سے زائد ہے اس لحاظ سے اسلام جرمنی میں ایک اہم قوت ہے جسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیئے ۔ بطور خاص اس لحاظ سے ملک میں پہلے ہی 2010 مساجد اور دینی مراکز ہیں صرف کولون شہر میں ایک سو سے زائد مساجد اور اسلامی مراکز کام کر رہے ہیں ۔ کولون میں اس وقت مسلمانوں ی تعداد 75000 سے زائد ہے ۔ اس شہر میں مسلمانوں کی تعداد جرمنی کے تمام شہروںسے زیادہ ہے۔ مسلمانوں کی آبادی کے لحاظ سے ڈورٹمنڈ دوسرے نمبر پر ہے ۔ اوپر کے اس بڑے شہر کی تقریباً 40 فیصد آبادی ترک مسلمانوں پر مشتمل ہے جو 1960 کے عشرے کے اواخر میں علاقے کی فیکٹریوں میں کام کرنے کے لیے جرمنی آئے تھے ۔ علاقے میں ترک مسلمانوں کی تعداد تقریباً دو ملین سے زائد ہے۔
ڈورٹمنڈ کی سب سے بڑی مسجد شہر کے شمال میں کیل” سٹرا سے ” میں واقع ہے ۔سفید اور سبز رنگ کی اس عمارت میں پہلے پرونسٹنٹ چرچ تھا ۔ اس عمارت کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس کا رخ مکہ معظمہ کی جانب ہے ۔ مسجد میں نماز یوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور قابل ذکر پہلو یہ ہے کہ نمازیوں میں غالب تعداد نوجوانوں کی ہے۔ رمضان المبارک کے دوران تو مسجد کھچاکھچ بھری رہتی ہے جمعہ کے اجتماعات میں بعض اوقات نمازیوں کی صفیں مسجد کے باہر سڑک تک پہنچ جاتی ہیں ۔ فالک مائیزٹ ایک سماجی کارکن ہیں جنہیں شہری انتظامیہ نے غیر ملکی نوجوانوں کی پیشہ وارانہ تربیت کی ذمہ داری سونپ رکھی ہے ۔انکا کہنا ہے کہ کیل “سٹراسے” مسجد میں فرزاندان اکرام کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے جبکہ مسیحی چرچ خالی ہوتے جا رہے ہیں ۔ جرمنی کے دوسرے شہروں کی طرح یہاں کے بیشتر مسلمان ترک اور سُنی مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں ۔ نماز عربی زبان میں ادا کی جاتی ہے۔
اس لئے مراکش ، شام یا الجزائری مسلمانوں کے علاوہ دوسرے مسلمان عربی زبان اچھی طرح نہیں جانتے یہی وجہ ہے کہ ترک نوجوان جو اسلام کی اصل روح اپنانا چاہتے ہیں ۔عربی سیکھ رہے ہیں ۔ ایسے نوجوانوں کی تعداد بتدریج بڑھ رہی ہے خاص طور سے برلن میں ترکی کے باہر ترکوں کا سب سے بڑا شہر ہے ۔ عربی سیکھنے والے کے امام صاحب کا تقرر ترک مملکت کرتی ہے اس مسجد سمیت دیگرکئی مساجد کا انتظام دیتاب یا دیانت یعنی ترک اسلامی دینی مراکز کے سپرد ہے جو انقراہ میں وزارت مذہبی امور کا ذیلی شعبہ ہے ۔ جرمن حکام اس شعبے کو ترجیحاً پسند کرتے ہیں کیونکہ یہ ترکی کے سیکولر رجحان کے حامل روائتی اسلام کا عکاس ہے جس میں مغرب معاشرتی اقدار اپنانے کی بہت گنجائش ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جرمن معاشرہ حیرت انگیز طور پر روادار ہے ۔ بہت سے لوگوں کو یاد ہو گا کہ علوم شرقیہ کی عالمی شہرت یافتہ ڈاکٹر اینی شمل نے “آیات شیطانی” نامی کتاب کی کھل کر مذمت کی تھی اور اسے ملحدانہ اور شنام طرازی قرار دیا تھا۔ فرانس کے بالکل برعکس جہاں اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ فرانس میں اسلام کو فرانسیی رنگ میں رنگا ہونا چاہیئے اور اسے دنیا داری کا مظہر ہونا چاہیئے ۔ جبکہ جرمنی مین لوگوں کی کسی کے عقائد پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا ۔ ایک ایسے ملک میں جہاں مملکت اور مذہب ایک دوسرے سے واضح طور پر الگ نہیں ہیں وہاں دوسرے ممالک کے مقابلے میں اسلام زیادہ طاقتور ہو سکتا ہے۔
فرانس کے سابق صدر متراں بھی اسلام کے مخالفوں کو حقیقت پسندی کا درس دے چکے ہیں ہلمٹ کوہل نے بھی اسلام کے پھیلنے پر کوئی خو ف کا اظہار نہیں کیا بلکہ اس نے بھی اسے رواداری کا مذہب قرار دیا ۔ انہوں نے کہا تھا کہ اسلام سے کسی کو بھی کوئی مخالفت نہیں چونکہ یہ ایک آفاقی نظام ہے ۔ مگر انتہاپسندی کے جذبات رکھنے والوں کو ضرور کوستے رہے۔ یہ سچی حقیقت ہے کہ دانشوروں ،حکومتی عہدیداروں اور انسانوں سے پیار کرنے والوں نے کبھی بھی اسلامی نظریات سے ٹکرائو کی صورتحال کو جنم نہیں دیا یہ چند ایک مذہبی انتہا پسند لوگ ہیں جو اسلام کے خلاف نفرت انگیزی ابھارتے رہتے ہیں اور مسلمانوں کی دل آزاری کرتے ہیں وقت قریب ہے کہ یہ لوگ بھی راہ راست پر آ جائیں گے یہاں دنیا کا سب سے بڑا مذہب اسلام ہے اور تاقیامت رہے گا۔ اِنشاء اللہ
تحریر: مقصود انجم کمبوہ