تحریر: پروفیسر مظہر
رائی کا پہاڑ بنانے والے سیاسی بزرجمہروں نے زور تو بہت مارا، اپوزیشن نے بھی یہ ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی کہ ہماری سیاسی اور عسکری قیادت ایک صفحے پر نہیں۔ دھرنوں کے ایام میں تو اِن کی آنکھوں کی چمک قابلِ دیدتھی اور صبح ومسا ”امپائر” کی انگلی کھڑی ہونے کے انتظار میں بے چین و بیقرار لیکن کاتبِ وقت نے قدم قدم پہ ثابت کیا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار سول اور عسکری قیادت میں ذہنی ہم آہنگی ہے۔
آپریشن ضربِ عضب سے اقتصادی راہداری تک ”شریفین” ہم قدم وہم زباں۔ سبھی جانتے ہیںکہ طالبان نامی دہشت گردوںکے ہاتھوںملکی فضائیں ہمہ وقت سوگوار رہتی تھیں ۔خودکُش حملوںاوربم دھماکوںنے زندگی کی بے ثباتی کو کچھ اوربڑھا دیاتھا۔کراچی کی خون آلودہواؤں سے اذہان وقلوب کی کھیتیاںبنجر اورفہم وادراک کے چشمے خشک کہ فضائے بسیط میںخوف کے لہراتے سایوںنے سب کچھ منجمد کرکے رکھ دیا۔بلوچستان کے حالات دگرگوںاور افراتفری کاعالم ۔پھرقدرت نے ہمیںایک موقع بخشااورسول وعسکری قیادت ملکی استحکام کی خاطرایک صفحے پر، کوئی رنجش ،غلط فہمی نہ اختلاف ۔ایسی قربت اورہم آہنگی کبھی دیکھی نہ سنی لیکن بزرجمہر پھربھی کسی ایسے روزن کی تلاش میںسرگرداںرہے جو اُن کی خواہشات کی تکمیل کاباعث بن سکے۔
بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کی اچانک پاکستان آمدپر افواہ سازفیکٹریوںکی چمنیوںسے ایک دفعہ پھردھواں اٹھنے لگا۔ کہاگیا کہ عسکری قیادت نے نریندرمودی کی آمدکو پسندنہیں کیالیکن سپہ سالارجنرل راحیل شریف نے پٹھان کوٹ حملے کے بعدسول حکومت کے فیصلوںکی یوںتائید کی کہ افواہ ساز بزرجمہر اپناسا مُنہ لے کررہ گئے۔
لاریب یہ سول اورعسکری قیادت کی افہام وتفہیم کا ہی ثمرہے کہ عروس البلاد کراچی ایک دفعہ پھررات گئے تک جاگتاہے ،بلوچستان امن کی جانب گامزن اورضربِ عضب نے دہشت گردوں کی کمرتوڑ دی ۔اب وزیرِاعظم میاں نواز شریف اورسپہ سالارجنرل راحیل شریف برادر اسلامی ممالک سعودی عرب اورایران کے مابین مصالحتی کردارادا کرنے کے لیے سعودی عرب اورایران کے دورے پر ۔شنیدہے کہ سعودی عرب اورایران کی اعلیٰ قیادت نے ہی خطے میںکشیدگی کم کرانے کے لیے پاکستان کو مصالحتی کردار اداکرنے کے لیے کہا۔ پاکستان کی یہ ادابھارت کے مَن کو نہیںبھائی ،وجہ صرف یہ کہ امن مشن کی کامیابی نہ صرف عالمِ اسلام بلکہ اقوامِ عالم میںبھی پاکستان کے وقارمیں اضافے کاباعث بن سکتی ہے جوبھارت کو منظور نہیں۔
14 جنوری کوبھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان وکاس سوارپ نے کہاکہ پاکستان کی سمت درست ہے اورجیش محمد کے خلاف کارروائی احسن اقدام ۔اُنہوںنے یہ بھی کہاکہ خارجہ سیکرٹری کی سطح کے مذاکرات باہمی مشاورت سے مختصر مدت کے لیے ملتوی کیے گئے ہیںاور بھارت تحقیقات کے لیے آنے والی پاکستانی تحقیقاتی ٹیم کاخیر مقدم کرے گا لیکن جونہی یہ پتہ چلاکہ میاںنواز شریف اورجنرل راحیل شریف امن مشن پرسعودی عرب اورایران جارہے ہیںتو وکاس سوارپ کی نیوزبریفنگ کے صرف دودِن بعد بھارتی وزیرِدفاع منوہر پاریکر نے کہہ دیاکہ پاکستان نے پٹھان کوٹ ایئر بیس پرہونے والے حملوںکی تحقیقات میںکوئی تعاون نہیںکیا ۔پاکستانی ٹیم کوپٹھان کوٹ ایئربیس کے اندرجانے کی اجازت نہیںدیں گے ،ہماراصبر جواب دے گیا۔دنیا اِس کے نتائج ایک سال کے اندر دیکھ لے گی۔
یوںمحسوس ہوتا ہے کہ جیسے منوہر پاریکرذہنی خلجان میںمبتلاء ہیں کیونکہ کوئی بھی ذی ہوش ایسابیان دینے سے گریزہی کرے گاجب اُسے یہ پتہ ہوکہ پاکستان ایٹمی صلاحیت میںبھارت سے کہیںآگے ہے ۔ایٹمی وارہیڈ لے جانے والا شاہین وَن 900 کلومیٹر ،شاہین ٹو 2200 کلومیٹر اورشاہین تھری 2750 کلومیٹرتک کی دوری تک اپنے ٹارگٹ کو سوفیصد ایکوریسی کے ساتھ تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔شاہین تھری نے بحرِہند میں2750 کلومیٹر کے فاصلے پرایک تیرتے ہوئے ٹارگٹ کودو حصوں میںتقسیم کردیا ۔یہ شاہین تھری ہی ہے جو جزائر انڈیمان (کالاپانی) میںواقع بھارت کی آخری دفاعی تنصیبات کوبھی نیست ونابود کرنے کی صلاحیت رکھتاہے ۔پاکستان رعداوربابر کروزمیزائل بنانے والادنیاکا چوتھاملک ہے ۔اِس سے پہلے صرف امریکہ ،روس اورفرانس یہ میزائل بنارہے ہیں ۔یہ میزائل لڑاکا طیاروںکے ذریعے فائرکیے جاسکتے ہیں ،یہ زمین سے زمین اور بحری جہازسے زمین پر بھی 750 کلومیٹرتک مارکرسکتا ہے۔
یہ میزائل دشمن کے ریڈارکو دھوکا دینے کی بھرپورصلاحیت رکھتاہے ۔بابر کروز میزائل کی رفتار 900 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے ۔یہ زمین سے صرف 100 میٹر اوپر پروازکر سکتاہے، راستے میںآنے والی ہررکاوٹ کوعبور کرنے اوررات کے اندھیرے میںبھی اپنے ٹارگٹ کودرست نشانہ لگانے کی صلاحیت رکھتاہے ۔نصر میزائل دشمن کے ہزاروں فوجیوںکو پلک جھپکتے ہی نیست ونابودکرنے کی صلاحیت رکھتاہے۔ یہ وہی میزائل ہے جس پر صرف بھارت ہی نہیں ،مغربی دنیابھی حیران وپریشان ہے۔
اِس کے علاوہ وہ چھوٹے ایٹمی ہتھیارہیں جن پرہمارا دوست نما دشمن امریکہ بھی مضطرب۔ اِن حالات میںبھارتی وزیرِدفاع منوہرپاریکر کے بیان کومحض ”دیوانے کی بَڑ” ہی سمجھاجا سکتاہے ۔ہم سمجھتے ہیںکہ امریکہ لاکھ بھارت کی پیٹھ تھپتھپائے ، وہ پاکستان پرحملہ کرنے کی کبھی حماقت نہیںکر سکتا ۔یہ سب پاکستان کودباؤ میںرکھنے کے حربے ہیںاوربھارت پہلے بھی کئی باریہ حربے استعمال کر چکا ہے۔
کہا جا سکتا ہے کہ ہماری بھارت کے ساتھ امن کی آشا ادھوری ہی رہے گی کیونکہ تالی ہمیشہ دونوںہاتھوں سے ہی بجتی ہے اورجب ایک ہاتھ آگے بڑھنے کوتیار ہی نہ ہوتو تالی بجنے کاانتظار احمقوںکی جنت میںبسنے کے مترادف ہے ۔بھارت کے ساتھ امن کاادھورا خواب تو صرف اسی صورت میںپورا ہوسکتا ہے اگر پاکستان اپناایٹمی پروگرام ختم کردے ،بھارت کی اقوامِ متحدہ میںمستقل ممبرشپ کی مخالفت چھوڑدے ،اقتصادی راہداری سے توبہ کرلے ،بھارت کوافغانستان تک سڑک کے ذریعے رسائی دے دے ،کشمیرکو بھول جائے اورپانی کا مسٔلہ اٹھانے سے بازآ کراپنی زمینوںکو بنجرکر لے۔ کیا پاکستان اِس کے لیے تیار ہے؟۔
تحریر: پروفیسر مظہر