تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
وطن عزیز کی بہت بڑی روحانی گدی اور سلسلہ تصوف کے موجودہ گدی نشین کے محل نما بنگلے کے وسیع و عریض شاھانہ ڈاریئنگ روم میں ہم بیٹھے تھے ۔ ڈرائینگ روم کی آرائش ڈیکوریشن پیسز مہنگے شاہانہ دبیز قالین دیواروں پر لگی سونے کے پانی والی سینریاں حنوط شدہ شیر اور ہر نوں کے مجسمے جن کی کھال میں بھوسہ بھر کر کھڑا کیا گیا تھا جیسے یہ زندہ ہوں’ دیو ہیکل جہازی سائز کے نرم گداز صوفے جن کے اندرہم دھنسے ہو ئے تھے ڈرائینگ روم کے چپے چپے سے شاہانہ کروفر اور امارت کی جھلکیاں نمایاں تھیں ہمیں لگ رہا تھا ہم کسی بہت بڑے خاندانی جا گیردار یا بادشاہ کے ڈرائینگ روم میں بیٹھے ہیں’ ہما رے چاروں طرف غیر ملکی نوادرات کا سیلاب آیا ہوا تھا ہم لاہور سے بہت دور تھے ہما رے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ لا ہور سے اتنی دور ایک چھوٹے شہرکے گدی نشین کا محل نما گھر ایسا ہوگا۔
قیمتی نوادرات کی بہار آئی ہو ئی تھی عام گھروں میں لو گ بڑے فخر سے ایک بڑا ما سٹر پیس سجاتے ہیں جبکہ یہاں تو بے شمار قیمتی اشیاء کی بھر مار تھی وسیع و عریض ڈرائینگ روم کا چپہ چپہ ایسے قیمتی نوادرات سے اٹا پڑا تھا بلکہ ضرورت سے زیادہ ہی سجا یا گیا تھا یو رپ امریکہ ، بر طانیہ اور مڈل ایسٹ کے پردیسی مریدوں نے مہنگے ترین تحائف پیر صاحب کے قدموں میں لا کر ڈھیر کر دئیے تھے تحائف کی اتنی زیادہ بھر مار تھی کہ پیر صاحب کا جہازی سائز کا ڈرائینگ روم بھی چھوٹا پڑ گیا تھا۔
ڈرائینگ روم کا شاہانہ منظر دیکھنے والے کو مر عوب کر رہا تھا یقینا جو بھی یہاں آتا ہو گا اِس شاہا نہ انداز کو دیکھ کر یہی سوچتا ہو گا کہ یہ بھی پیر صاحب کی زندہ کرا مت ہے ڈرائینگ روم کا شاہانہ منظر دیکھ کر لگ رہا تھا کہ یہ کسی بہت بڑے سیاستدان ، جا گیردار یا پھر فلمی ہیرو کا گھر ہے روحانیت کی تلاش میں آنے والوں کو روحانیت تو ملتی ہو گی وہ پیر صاحب کے شاہانہ ٹھاٹ با ٹھ سے ضرور متا ثر ہو تے ہو نگے ۔ آنے والے ابھی ڈرائینگ روم کے سحر سے نہیں نکلتے ہو نگے کہ جب اُن کی نظر مو جو دہ فلمی اداکار کی مانند گدی نشین پر پڑتی ہو گی جو شاہانہ مغلیہ ریشمی لباس میں ملبوس ریشمی جھالر وں والی مسند پرپورے تکبر کے ساتھ جلوہ افروز ہو تا ہے تو رہی سہی کسر بھی پو ری ہو جاتی ہو گی۔
پیر صاحب کا شاہانہ ریشمی لباس سونے چاندی کی ریشمی تاروں سے بنا ہوا سنہرا جو تا سر پر ۔ سنہری تا ج نما ٹوپی ہا تھوں میں زمرد سچے مو تیوں کی تسبیح گلے میں قیمتی پتھروں پر مشتمل مالا اور انتہائی مہنگی طلائی گھڑی اور ہیرے جوا ہرات سے سجی سو نے کی بڑی بڑی انگو ٹھیاں گلے میں پڑی ما لا ئیں اور ہا تھوں میں پہنی انگوٹھیوں میں بڑے سائز کے قیمتی پتھر جو کبھی کسی کے ہا تھ میں نہ دیکھے ہو ں با ت یہاں ختم نہیں ہو ئی سنگی مجسموں کی طرح ایستادہ جھکے ہو ئے اور انتہائی ادب و احترام سے چلتے ہو ئے غلام نما خادمین کی بہت بڑی تعداد جو پیر صاحب کے اشاروں پر حکم بجا لا رہے تھے غلاموں کی اس فوج کو پیر صاحب کا خلیفہ اور چھوٹا بھا ئی کنٹرول کر رہا تھا غلاموں کی تا بعداری دیکھ کر یوں لگ رہا تھا کہ ہم پرانے وقتوں کے کسی با دشاہ کے دربا رمیں آگئے ہیں۔
خادموں کی نقل و حرکت اور تا بعداری سے لگ رہا تھا کہ اگر اُن سے ذرہ برابر بھی غلطی یا کو تا ہی ہو گئی تو اُن کی جان تک جا سکتی ہے ۔ اُن کی نقل و حرکت اور جسمانی حرکات سے لگ رہا تھا کہ وہ کسی بہت بڑے ولی اللہ کی خدمت بجا لا رہے ہیں اِس کو وہ اپنی زندگی کی بہت بڑی سعادت سمجھ رہے تھے ڈرائینگ روم کے مختلف کو نوں میں بڑے سائز کے الماری نماائیر کنڈیشنڈ پو ری کو لنگ سے کمرے کے ما حول کو اور بھی آرام دہ بنا رہے تھے اِس آسائش کی بلا تعطل فراہمی کے لیے بجلی کے دو کنکشن لگا ئے گئے تھے کہ اگر ایک لا ئین پر لو ڈ شیڈنگ ہو تو آٹو میٹک طور پر دوسری لا ئین شروع ہو جا ئے اِس سہولت کو اور بہتر بنا نے کے لیے بڑے سائز کے جنریٹر بھی مو جو د تھے۔
غلاموں کی فوج پیرصاحب اور اُن کے اہل خا نہ کی سہولت اور آرام کے لیے تند ہی سے اپنے اپنے کام سر انجام دے رہے تھے یہاں پر مو جود مریدوں کی فوج اور پو رے ملک اور دنیا میں پھیلے ہو ئے ہزاروں مریدوں نے موجودہ گدی نشین کی زندگی کوجنت نما بنا دیا تھا لا ہور سے بہت دور جنگل میں پیر صاحب اپنی ہی جنت بنا کر پو رے شاہانہ انداز سے اِس جنت نگری کو بھر پو ر طریقے سے Enjoyکر رہے تھے ۔ اور پھر ایک اور حیران کن منظر جب کچھ سرکاری آفیسر اور عام ملا قاتی پیر صاحب سے ملنے آئے تو جس طرح آکر اُنہوں نے پیر صاحب کے ہا تھ پیر چومے قدم بو سی کی زمین پر بیٹھ کر اپنی عقیدت کا اظہا ر کیا اپنے دنیاوی مسائل کا ذکر کیا تو پیر صاحب نے جس شان اور فخریہ انداز سے مختلف سرکاری افسروں کو فون کئے اور انہیں حکم صادر فرمائے کچھ افسروں کو اپنے قدموں میں شرف ملا قات بخشش کر احکامات جا ری کئے۔
اِس طرح پیر صاحب کے اثر و رسوخ کا بخو بی اندازہ ہو رہا تھا سر کاری افسروں اور پیر صاحب کی گفتگو سے اندازہ ہو رہا تھا کہ پیرصاحب کے بہت بڑے حکو متی عہدے دار مرید ہیں جس کہ وجہ سے سرکاری افسروں کو پتہ تھا کہ پیر صاحب کے ما تھے پر ہلکی سی شکن اُن کا ٹرانسفر یا نو کری جا سکتی ہے سرکاری افسر بھی غلا موں کی طرح تا بعداری کا اظہا ر کر رہے تھے ۔ پیر صاحب ہمیں اپنی شان اور اثر رسوخ دکھا رہے تھے اِس طرح وہ ہمیں اپنے مقام و رتبے سے آگاہ کر رہے تھے یہاں آنے سے پہلے پیر صاحب ہمیں اپنا گا ڑیوں کا ذاتی شو روم دکھا چکے تھے جہاں پر دنیا کی مہنگی ترین گاڑیاں کو ڑیوں کے مو ل کھڑی تھیں اپنی لمبی چوڑی جا گیر کا وزٹ بھی کرا چکے تھے۔ مزا ر پر سلامی جس شاہا نہ انداز سے ہو ئی وہ ایک الگ داستا ن ہے جو کسی اور وقت سہی۔
پیر صاحب کے پاس مجھے میرا ، ایک قریبی دوست لا یا تھا کہ جوکسی بڑی مشکل کی وجہ سے پیر صاحب مجھ سے ملنا چاہتے تھے بقول میرے دوست کے پیر صاحب کی یہ تو ہین ہو گی اگروہ مجھ فقیر کے پا س آئیں اِس لیے میرے دوست نے مجھے بہت زیا دہ مجبور کیا تھا کہ میری عزت کی خا طر آپ میرے ساتھ پیر صاحب کے پا س چلیں لہذا اب ہم اِس جنت نگری میں صبح سے گھو م رہے تھے پیر صاحب کا انداز تفاخر اور غرور دیکھ کر میں کئی با ر یہ سوچ چکا تھا کہ پیر صاحب کو اس فقیر سے کیا کا م ہو سکتا ہے ۔ میں پیر صاحب کا شاہا نہ ٹھا ٹ با ٹھ اور انداز دیکھ کر بار بار سوچ رہا تھا کہ پیرصاحب کو مُجھ سے کو ئی کام ہے یا مجھے پیرصاحب سے کو ئی کا م ہے سائل پیر صاحب ہیں یا سائل ہم ہیں ۔جب سے ہم یہا ں آئے تھے پیر صاحب ہمیں مسلسل متا ثر اور مر عوب کر نے کی کو ششوں میں لگے ہو ئے تھے۔
صبح سے وہ ہمیں اپنا مقا م و رتبہ دکھا رہے تھے ہر نئی حرکت کے بعد وہ فخریہ انداز سے ہما ری طرف دیکھتے جیسے وہ داد طلب نظروں سے ہما ری طرف دیکھ رہے ہو ں ۔ مجھے اُن کی حرکتوں سے مسلسل کو فت اور الجھن ہو رہی تھی کہ صبح سے یہ ہما رے ساتھ کیا ڈرامے با زیاں کر رہا ہے جس نیک بزرگ کی گدی پر یہ عیش کر رہا تھا وہ صدیوں پہلے آسودہ خاک ہو چکا تھا اس نیک ولی اللہ کی عبادت و ریاضت اور عشق الٰہی کے ثمرات کو یہ گدی نشین خوب انجوائے کر رہا تھا میں شدت سے انتظار کر رہا تھا کہ پیر صاحب کب اصل بات کی طرف آتے ہیں۔
تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
help@noorekhuda.org
03004352956