دولت مند لوگوں یعنی سیاستدانوں پر لکھتے لکھتے قلم گھس گئے بلکہ ٹوٹ پھوٹ گئے لیکن اس ایثار اور قربانی کے باوجود شاید ہی کوئی سیاستدان اس قلم سے خوش ہو اور اسے اس کی زندہ و سلامت حالت میں بھی توڑ نہ دینا چاہتا ہو، اگر سیاستدانوں کو اس قلم کی ضرورت نہ پڑتی تو وہ اسے پیدا ہی نہ ہونے دیتے اور ان درختوں کو ہی کٹوا دیتے جن سے یہ قلم برآمد ہوتا ہے لیکن سیاسی زندگی میں بارہا ایسے لمحے بھی آتے ہیں جب یہ قلم ہی کسی سیاستدان کو اس کی غلطیوں بلکہ گھپلوں سے بچاتا ہے اگرچہ یہ ایک قلمکار کی یہ ایک حماقت ہوتی ہے کہ وہ اپنے دشمن یا قاتل کا تحفظ کرتا ہے اور اسے کسی مشکل سے باہر نکال لیتا ہے۔
ایک طرح سے یہ ایک قلمکار کی مجبوری بھی ہوتی ہے کہ برطانوی دور میں حکومت نے قلم کے بارے میں قانون سازی کر دی اور اسے ایسے قوانین کا پابند کر دیا جن کی خلاف ورزی قانون کی خلاف ورزی تھی اور برطانیہ اپنی ملکہ کے احترام میں سب کچھ کرنے پر تیار رہتا۔ پرانے زمانے کی بات ہے کہ ہمارے پڑوسی ضلع میانوالی میں ایک ڈاکو کا تعاقب کیا گیا اور معلوم ہوا کہ وہ ایک مکان کے اندر بند ہو کر بیٹھا ہے۔ ضلع کا ایس پی انگریز تھا اس نے حکم دیا کہ اس مکان کا گھیراؤ کیا جائے اور اس کمرے کی نشاندہی کی جائے، مخبروں کے مطابق یہ ڈاکو بند ہو کر بیٹھا تھا اس نے اپنے تحفظ کے لیے ظاہر ہے کہ اسلحہ رکھا ہوا تھا۔ انگریز ایس پی کو یہ سب کچھ بتا دیا گیا لیکن اس نے حکم دیا کہ اس کمرے کا دروازہ کھول دو جس میں یہ ڈاکو بند ہے اور وہ خود دروازے کے سامنے کھڑا ہو گیا۔
ایس پی کو ہمارے پولیس والوں نے مشورہ دیا کہ یہ ایک خطرناک صورت حال ہے کوئی دوسری ترکیب نکالتے ہیں اور اس ڈاکو کو پکڑ لیتے ہیں لیکن انگریز ایس پی نے کہا کہ یہ ڈاکو تاج برطانیہ اور ملکہ کا باغی ہے اور اسے نہ پکڑنا اور بند رہنے دینا تاج برطانیہ اور ملکہ معظمہ کی توہین ہے چنانچہ ایس پی کے حکم پر دروازہ کھول دیا گیا، ڈاکو نے پہلے فائرنگ کیا لیکن ایس پی نے اس سے پہلے اسے فائر کر کے ڈھیر کر دیا اور تاج برطانیہ کی عزت کو بچا لیا۔
یہ ایک پردیسی اور غیرملکی افسر تھا لیکن اپنی حکومت کی عزت پر اپنی زندگی داؤ پر لگا گیا وہ اس میں ناکام بھی ہو سکتا تھا لیکن پھر بھی اس کا نام باقی رہتا اور برطانیہ کے ریکارڈ میں وہ بطور ایک جانثار سپاہی کے زندہ رہتا۔ یہ واقعہ مجھے اپنے ہاں کے بعض واقعات کو یاد کرنے پر یاد آیا لیکن کوئی واقعہ بھی ایسا نہیں تھا جس میں کسی نے ملکی قانون کے تحفظ میں جان دے دی ہو۔ ہم لوگوں نے برطانیہ کے زمانے میں کئی جنگوں میں حصہ لیا اور ہمارے کئی سپاہیوں نے زندگی بھی لگا دی لیکن یہ سب کچھ اپنی قوم اور اپنے ملک کے لیے نہیں تھا ایک غیرملک اور قابض کے تحفظ کے لیے تھا۔
ان دنوں ہمارے ہاں بدامنی عروج پر ہے اور ڈاکے عام ہو گئے ہیں۔ قانون شکن ڈاکو دندناتے پھرتے ہیں اور بعض اوقات تو وہ معصوم بچوں کو بھی معاف نہیں کرتے اخباروں میں یہ سب چھپتا ہے اور ہم اسے پڑھتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ہمارا کوئی پولیس افسر اپنی اپنی قوم اور ملک کے لیے قربانی کیوں نہیں دیتا۔ اس سوال کا جواب شاید آسان نہ ہو اور اس کی کئی وجوہات ہیں جن میں ایک تو یہ بھی ہو سکتی ہے کہ برطانوی دور ابھی تک زندہ ہے یعنی اس کی روایات باقی ہیں اور ان روایات میں قربانی صرف چند مقاصد کے لیے ہی دی جا سکتی ہے جس کسی نے کسی نیم قومی مقصد کے لیے بھی قربانی دی اسے بہت کم یاد کیا گیا البتہ اس کی چند افسوسناک مثالیں ملتی ہیں کہ جنگوں میں اگر کسی مقامی نے تاج برطانیہ کے تحفظ کے لیے قربانی دی تو انگریزوں نے اس کی کوئی یاد گار بنا دی۔
ہمارے پوٹھوہار کے علاقے میں ایسی بعض مثالیں موجود ہیں کہ برطانوی حکومت نے اپنے کسی غیر معمولی وفادار کو زندہ رکھنے کے لیے اس کا مجسمہ کہیں رکھ دیا یا اس کے نام پر کسی سڑک کا نام رکھ دیا۔ بعض لوگ ایسے ضرور گزرے کہ برطانیہ نے ان کو زندہ رکھنے کے لیے ان کی یاد گاریں قائم کر دیں۔ آپ کو پوٹھوہار کے بعض مقامات پر ایسی یادگاریں ملتی ہیں جن میں کسی گاؤں کی عمارت کا نام کسی برطانوی کے نام پر رکھ دیا یا یہ اعزاز کسی مقامی کو دے دیا، بس اس سے زیادہ نہیں البتہ بعض یاد گاروں کا نام کسی پرانے سیاستدان کے نام پر ملتا ہے اور مقامی اسکول کی کتاب میں اس کا تذکرہ بھی۔