تحریر: فاطمہ خان
پچھلے دنوں ایک مغربی چینل پر مختصر نوعیت کی دستاویزی فلم دیکھنے کا اتفاق ہوا یہاں خاص طور پر مغربی چینل اس لئے لکھا ہے کہ ہمارے ہاں کے چینلز کو تو سیاستدانوں کے جھگڑے دکھانے بسے فرصت نہیں ہے کجاکہ وہ کسی مثبت سرگرمی کو فروغ دیں. یہ فلم برطانیہ کےایک استاد کے بارے میں تھی جو کہ وہاں کے ایک سکول میں کم عمر بچوں کو ابتدائی نوعیت کی تعلیم دینے میں مصروف رہتا تھا۔
فلم دیکھ کر اس, بات, کا شدت سے احساس ہوا کہ وہاں کا,استاد کس قدر خوشحال ہے آپ اس استاد, کا, موازنہ وہاں کے کسی بھی امیر آدمی سے کر سکتے ہیں.فلم دیکھنے کے بعد یونہی چینل سرفنگ کرتے ہوے ایک مقامی چینل پر استاد اتجاج کرتے نظر آے جو کہ حکومت کی نجکاری فوبیا پر اپنا غصہ نکال رہے تھے بالکل ایسے ہی جیسے پی آئی اے والے ان دنوں اپنے مطالبات منوانے کے لئے سڑکوں پر,ہیں اور اب تو ان کے اس اتجاج میں لہو رنگ بھی شامل ہو چکا ہے دیکھیں یہ اونٹ اب کس کروٹ بیٹھتا ہے خیر بات ہو رہی تھی استاد کی اور بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔
ہمارے ملک میں تین طرح کا استاد ہے ایک وہ جو کسی عام سے غیر سرکاری ادارے میں پڑھاتا ہے اور جیسے تیسے کر کے اپنا گزارا کر رہا ہے ایک استاد سرکاری ادارے کا, استاد ہے جس کے معاشی حالات نسبتاً بہتر ہیں اور پھر ایک اچھے غیر سرکاری ادارے کا استاد ہے جو بہت خوشحال نہ سہی مگر پھر بھی ایک بہتر زندگی گزار رہا ہے. ہمارے معاشرے میں بہت کم لوگ اپنی خوشی سے اس شعبے کو اختیار کرتے ہیں ورنہ اکثریت حادثاتی طور پر ہی اس دشت میں قدم رکتھی ہے جہاں اکثر نارسائی ہی اس کا مقدر بنتی ہے۔
ہماری کہانیوں کے ہیروز ڈاکر یا انجینر تو ہو سکتے ہیں مگر استاد بیچارہ کبھی کسی کا آئیڈیل نہیں ہو سکتا. ایک استاد کا سب سے پہلا مطالبہ عزت ہوتی ہے جو کبھی اس کو,مل جاتی ہے اور کبھی صرف دور کھڑی مسکراتی رہتی ہے. دوسرا مطالبہ معاشی خوشحالی کا ہے جس کی تلاش میں وہ تمام زندگی اپنی جوتیاں چٹخاتا رہتا ہے مگر اس سفر میں اکثر اس کے پاوں زخمی ہو جاتے ہیں مگر منزل پھر بھی نہیں ملتی.کچھ عرصہ پہلے میں نے استاد کے احترام کے متعلق ایک تحریر لکھی تھی اور میری اس تحریر کے ردعمل کے طور پر مجھے جن قارئین کی آراء موصول ہوئیں ان میں سے اکثریت استاد کے کردار سے نالاں نظر آئی۔
ان کا خیال تھا کہ استاد میں مادیت پرستی کا عنصر ضرورت سے زیادہ شامل ہو چکا ہے اور اس کی توجہ تعلیم سے زیادہ روپے پیسے کی طرف منتقل ہو,چکی ہے اور ایک حد تک ان کا اعتراض ٹھیک بھی ہے مگر اس بات کو بنیاد بنا کر استاد کی خدمات سے صرف نظر کرنا بھی ٹھیک نہیں ہے. مانا کہ ارسطو اور ابن رشد جیسے استاد نہیں رہے اور نہ ہی ان کا ویسا احترام رہا.اب استاد کی جوتیاں پہلے اٹھانے پر جھگڑے نہیں ہوتے بلکہ اب تو استاد بیچارہ اپنی عزت بچاتا پھرتا ہے.ابھی بھی ہمارے معاشرے میں بہت سے ایسے استاد موجود ہیں جو حقیقی معنوں میں استاد کے تصور پر پورے اترتے ہیں جن کے پاس بیٹھ کر ہمیشہ محبت اور شفقت کی خوشبو آتی ہے۔
گو کہ اب ایسے استاد اور شاگرد ناپید ہیں مگر پھر بھی ہمیں کہیں کہیں ایسے لوگ نظر آ ہی جاتے ہیں.معاشروں کی تعمیر میں صدیاں لگ جاتی ہیں مجھے نہیں معلوم ہمارے معاشرے میں استاد کو اس کا حقیقی مقام کب نصیب ہو گا. مگر آثار کچھ اچھے نظر نہیں آ رہے.استاد کا احترام کیجیے اور معاشرے میں ایک مثبت سرگرمی کو فروغ دیں کیونکہ جن معاشروں میں استاد کا درجہ کسی مزدور سے بھی کم ہو انھیں مکمل تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا۔
تحریر: فاطمہ خان