تحریر : ایم سرور صدیقی
لوگ اللہ تعالیٰ کی قسم کھاتے ہیں لیکن خود اللہ تبارک تعالیٰ نے آخری الہامی کتاب میں قلم کی قسم کھائی ہے اب غوروفکر کی بات یہ ہے کہ جس چیزکی قسم خالق ِ کائنات کھائے اس کی کیا عزت،توقیر یا حرمت ہوگی۔قلم علم کی علامت ہے اور علم کوانبیاء کرام کی وراثت کہاگیاہے اس اعتبارسے صحافت، تعلیم و تدریس اور اس سے متعلقہ پیشے کتنے متبرک ہیں اس کا اندازہ خود لگا لیجئے قرآن مجید میں ہمیں ہدایت دی گئی ہے کہ ” حق بات کو جھوٹ کے پردے میں مت چھپائو” یہ صحافیوں، ججز، وکیلوں، گواہی دینے والوں کو بالخصوص اور ہر شخص کوبالعموم حکم دیا گیا ہے۔ سورش کشمیری نے تو قلم کی حرمت کو بہن اور بیٹی کی عصمت جیسی حرمت قراردیا تھا حبیب جالب کا کہناہے
ہمارے ذہن پر چھائے نہیں ہیں حرص کے سائے
ہم جو محسوس کرتے ہیں وہی تحریر کرتے ہیں
صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون کہا جا تاہے جس نے معاشرے میں توازن قائم کررکھاہے یہ توازن نہ ہوتو جنگل کا قانون بھی شرما جائے،یہ میڈیا کا خوف ہے کہ حکمران طبقہ ، بااختیار لوگ، بڑے سے بڑا افسر،اداروں کے کرتا دھرتا، متکبر افرادیاپھرظالم اپنی من مانی کرنے سے گریزکرتے ہیں ورنہ ظلم کی حاکمیت میں کوئی پوچھنے والا بھی نہ ہو ۔صحافت کا شعبہ عوام کی داد رسی،انصاف کی فراہمی،مسائل اجاگر کرنے اورلوگوںکو باخبر رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔وہ لوگ کتنے قابل ِ تحسین ہیں جوعام آدمی کو ظلم سے بچانے کیلئے ظالموں سے ٹکرا جاتے ہیں پاکستان میں درجنوں صحافی اپنے پیشہ وارانہ فرائض کے دوران اپنی جانوںکا نذرانہ پیش کرچکے ہیںیقینا ان شہداء پر انسانوں کو ناز ہے اورانسانیت ان پر فخرکرتی ہے
لیکن ان تمام باتوںکے باوجود لوگوںکوآگہی سے روشناس کروانا،قلم سے جہاد شایددنیا کا سب سے مشکل کام ہے اللہ تعالیٰ نے انسان کو حق سے آگاہ کرنے کیلئے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر مبعوث کئے تاریخ بتاتی ہے کہ ان کا زمانہ دشمن ہوگیا مگر انبیاء کرام اپنے مشن سے پیچھے نہیں ہٹے دنیاوی لالچ ،ظلم اورجبربھی راستے کی رکاوٹ نہ بن سکا ۔ان کے بعد۔اولیاء کرام نے ان کے سلسلہ کو آگے بڑھایاصحافت، تعلیم و تدریس اور اس سے متعلقہ کام دراصل اسی سلسلہ کا ایک تسلسل ہے
ہم صبح پرستوں کی یہ ریت پرانی ہے
ہاتھوں میں قلم رکھنا یاہاتھ قلم رکھنا
ہم غورکریں۔۔تو محسوس ہوگا کہ قلم ظلم کے خلاف جہادکا پیغام بھی ہے اور روشنی کا استعارہ بھی ۔۔اس کی بدولت استحصال سے نجات مل سکتی ہے اور دل منور ہوتے ہیں دلوںکی کثافتیں دھل جاتی ہیں ، جہالت کے اندھیرے چھٹ جاتے ہیں اللہ تعالیٰ نے قرآن میں انسان سے سوال کیا ہے(مفہوم) تم بتائوکیا نا بینا اور بینا ایک ہوسکتے ہیں ان پڑھ اور تعلیم یافتہ برابر ہو سکتے ہیں۔۔۔آج علم کی بدولت انسان نے کائنات کو مسخرکرلیاہے چاندپر ایک نئی ذنیا بسانے کی باتیں ہونے لگی ہیں۔۔کہکشاں میں زمین سے مشابہہ سیارہ دریافت کرلیا گیاہے ۔۔زمین کا سینہ چیرکر قیمتی معدنیات کو تصرف میں لایا جارہاہے الغرض علم کی بدولت دنیا کے قریہ قریہ کو چہ کوچہ میں آشائشوںکا ایک نیا جہاں موجودہے انٹر نیٹ کی وجہ سے دنیا سمٹ کر ایک گلوبل ویلج میں تبدیل ہوگئی ہے
اس کے باوجودآج بھی ہمارے آس پاس قلم کے دشمن موجودہیں جن کی تعداد ہماری سوچ سے بھی کہیںزیادہ ہے مزے کی بات یہ ہے کہ یہ لوگ دنیا بھر کی آسائشوںکے مزے لوٹ رہے ہیں نت نئی ایجادات ان کے تصرف میں ہیں اور یہی لوگ وسائل پر سانپ بن کر قابض ہیں۔۔۔ علم اور قلم کے دشمن آج بھی اپنے علاقوںمیں سکول قائم نہیں ہونے دیتے۔۔جہاں سرکارنے تعلیمی ادارے قائم گئے ہیں ان بااثر جاہلوںنے ان پرقبضہ کررکھاہے دیہات اور دور دراز کے علاقوںمیں سکول عملاً جانوروںکے اصطبل بن کر رہ گئے ہیں ان کی اپنی اولاد توبیرون ممالک اعلیٰ تعلیم حاصل کررہی ہے لیکن غریبوںکو پسماندہ رکھنے کیلئے سکولوںکے دروازے بندہیں
تاکہ خدمت کے لئے نسل در نسل ہاتھ باندھے غلاموںکی افراط ہمیشہ میسر آتی رہے۔ پاکستان کے کچھ علاقوںمیں تو سکول بم مارکر تباہ کئے جارہے ہیں ایسا کرنے والے نہ جانے کون سے اسلام کی خدمت کررہے ہیں جہاں علم اور قلم کے دشمن ہیں وہاں اس سے محبت کرنے والوںکی بھی کمی نہیں جو دل و جان سے علم کی روشنی پھیلانے کیلئے تگ ودو کرتے رہتے ہیںظلمت دور کرنے کایہی ایک طریقہ ہے
لوگ لکھتے رہے ظالم کے قصیدے لیکن
ہم نے ظلمت سے بغاوت کے ترانے لکھے
آج کے حالات پر نظر دوڑائیںتو ادراک ہوگا کہ دنیا کے حالات ویسے کے ویسے ہی ہیں جب پتھرکا دور تھا یاجب انسان ننگا تھادنیا پر وحشیوںکی حکومت تھی اور اس وقت بھی جب تہذبیں پنپ رہی تھیں یا فرعون کی حکومت تھی ہامان یا شداد حکمران تھے یااب جب ہم تہذیب یافتہ عہد میں ہیں ان کا جائزہ لیا جائے تو ایک بات نتیجے کے طورپر سامنے آتی ہیںدنیا میں کبھی بھی اختلاف کوبرداشت نہیں کیا جاتا جب تک مسلمانوںکو قلم سے پیار تھا دنیا پر ان کی حکمرانی تھی آج بھی دنیا کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں مسلمان فلاسفروں، کیمیا گروں ،سرجری کے ماہرین کی کتابیں پڑھائی جارہی ہیں کہتے ہیں
جب ہلاکوخان نے بغدادکی اینٹ سے اینٹ بجائی وہاںکی لائبریریوںمیں اتنی کتابیں تھیں کہ شمارممکن نہ تھا جب وہ کتابیں دریائے نیل میں پھینکی گئیں تو دریا کا پانی کئی کھنٹے رکارہا جب سے مسلمانوںنے قلم اور کتاب سے دور ی ختیارکی ہے ہم محکوم ہوگئے ہیں ۔۔۔یہ بھی جہالت کی انتہاہے کہ آج کرپشن بے نقاب کرنے پرصحافیوںپر حملے ہورہے ہیں ان کو خاک و خون میں نہلایا جارہاہے کئی قلمکارقتل کردئیے گئے یہ سب جہالت کی علامتیں ہیں تہذیب یافتہ،تعلیم سے بہرہ ور،اور روشن خیالی یہ ہے
ہم ان کا حق تسلیم کرتے ہوئے سب انسانوںکو برابری کے حقوق دیں قلم اور علم اسی بات کے متقاضی ہیں جہالت اور غربت کا خاتمہ اسی طرح ممکن ہے کہ ہم قلم سے دوستی کرلیں۔۔قلم سے وابستہ تمام افرادکی عزت کریں کیونکہ غوروفکر کی بات یہ ہے کہ جس چیزکی قسم خالق ِ کائنات کھائے اس کی کیا حرمت ہوگی؟
تحریر : ایم سرور صدیقی