تحریر: شبینہ گل
اللہ پاک نے تمام مخلوقات کی تقدیر کو آسمان و زمین کی تخلیق سے پچاس ہزار سال پہلے لکھ دیا تھا ، قلم سے۔ یہ وہ قلم ہے جس کے بارے میں حدیث کا مفہوم بیان کرتا ہے کہ اللہ پاک نے سب سے پہلے قلم پیدا کیا اور اسکو حکم دیا کہ ” لکھ ” ، قلم نے عرض کیا ، ” کیا لکھوں ” تو حکم دیا کہ ” تقدیر الہی کو ” تو قلم نے حکم کے مطابق ابد تک ہونے والے تمام حالات و واقعات کو لکھ دیا۔ یہ وہ قلم ہے جس کی اللہ پاک نے قسم اٹھائی ہے
ن و القلم یسطرون
اللہ پاک نے پہلے قلم تقدیر پیدا فرمایا جس سے تمام کائنات و مخلوقات کی تقدیریں لکھیں ، پھر دوسرا قلم پیدا فرمایا جس سے زمین پر بسنے والے لکھتے ہیں اور لکھیں گے۔ اور اس دوسرے قلم کا ذکر بھی قرآن پاک میں کیا۔
علم با القلم
قلم خواہ فرشتوں کا ہو یا انسانوں کا ، اللہ پاک نے اسکی قسم اٹھا کر اسکی عظمت و برتری ظاہر کی ہے۔ دنیا میں بڑے بڑے تمام کام سب قلم ہی سے ہوتے ہیں۔ ملکوں کی فتوحات میں تلوار سے زیادہ قلم کا موثر ہونا منقول و معروف ہے۔ یہی وہ قلم ہے جسے اٹھا کر اقبال نے مسلمانوں کے لئے اپنے خواب رقم کر کے قلم کا حق ادا کردیا۔ یہ تو اتنی معزز چیز ہے جس کی حرمت کا آج کسی کو پاس نہیں رہا۔ ایک وہ زمانہ تھا قلم کے غازیوں کا جو اپنے قلم کی روشنی سے لوگوں کے تاریک سیاہ پڑتے دلوں کو روشن کرتے تھے اور ایک یہ دور ہے گفتار کے غازیوں کا جن کے قلم شاہکار تو لکھتے ہیں مگر پھر بھی نجانے کیوں وہ پر اثر نہیں ہوتے۔
قلم اٹھانے والوں کے دلوں میں کھوٹ ہے یا پڑھنے والوں کے دلوں میں گداز مفقود ہوگیا ، واللہ علم۔ شاید قلم تھامنے والوں کے کردار اتنے بلند نہیں رہے جو ہمارے اسلاف کے تھے۔ بلا شبہ آج قلم کی جگہ انگلیوں کی پوروں نے لے لی ہے لیکن تا ابد یہ قلم کسی نہ کسی صورت ہماری انگلیوں کی زینت بنتا رہے گا ہم ہر دور میں کسی نہ کسی قدم پر اسکے محتاج رہیں گے۔ جتنا آج کے دور میں اصلاحی تحاریر اور قلمکاروں کی بہتات ہے اتنی ہی آج بے ادبی کی بھی کثرت ہے۔ شاید اسکی وجہ بھی یہی ہے کہ آج ہمارا قلمکار مادہ پرستی کا شکار ہے ، وہ پیسے اور شہرت کے لئے لکھتا ہے۔
اسکی ترجیح قلم کی بدولت ملنے والی اصلاح کی بجائے وہ سہولیات اور شہرت ہیں جو اسے معاشرے میں با عزت مقام دلا سکیں ، خواہ وہ کسی کے سدھار کا موجب بنیں یا نہ بنیں یہ آج کے لکھاری کا درد سر نہیں۔ اور یہی نیت اسکے قلم سے نکلے الفاظ کی تاثیر پہ اثر انداز ہوتی ہے۔ وہ رومی وہ سعدی وہ اقبال وہ فرید ، سب تہہ خاک ، جن کی روحیں آج تڑپتی ہونگی کہ تہہ خاک تو ہم ھوئے ، ہمارے لفظ اور انکی تاثیر تو آج بھی تمہارے طاقوں میں سجی نوحہ کناں ہیں ، پھر کیوں تم احسان فراموش ھوئے؟
آج ہم قلمکاروں کو ایک عہد کی ضرورت ہے۔
کہ ہم اپنے قلم کی حرمت کو پھر سے زندہ کریں ، اسے سستے جذبات کی تسکین کا موجب بنانے کی بجائے اس قلم کی روشنی سے شہید پیدا کریں غازی پیدا کریں جنگجو پیدا کریں اور بلند کردار مومن پیدا کریں۔ اس قلم کی اسی حرمت کو لوٹایں جس کی وجہ سے اللہ پاک نے اسکی قسم اٹھائی تھی۔ یہ ہمارا ذمہ ہے کہ جب ہم اٹھائے جایں تو ہمارے دامن قلم کی بے حرمتی کا گناہ نہ سمیٹے ھوئے ہوں۔ اس قلم کے نور سے اپنی آنے والی نسلوں کے چہرے منور کریں اور ٹیکنالوجی کے طفیل معصوم غنچوں کے چہروں کو ہوس پرستی کی کالک سے بچا کر قلم کی روشنیاں بکھیریں۔
لوح بھی تو قلم بھی تو
تیرا وجود الکتاب
تحریر: شبینہ گل