تحریر : وجاہت صدیقی
کالمسٹ ڈاکٹر بی اے خرم مستقل کالم نگار اور شعبہ صحافت میں قلم کے ایسے پاسبان ہیں جنہوں نے ہمیشہ اپنے قلم کی نوک سے لفظوں کا جادو جگایا ہے،پاکستان بھر کے مختلف اخبارات میں آدرش کے نام سے ان کا کالم شائع ہوتا ہے،میں گزشتہ ایک عرصہ سے ڈاکٹر صاحب کی تحریر کو باقاعدگی کیساتھ پڑھتا ہوں،ان کی تحریر میں بحثیت قاری مجھے وہ سب کچھ مل جاتاہے جو کہ کسی بھی موضوع پر تشنگی مٹانے کیلئے کافی ہوتا ہے، اسی طرح گزشتہ روز ڈاکٹر بی اے خرم کی تحریر “کالم چور”کے عنوان سے پڑھنا نصیب ہوئی جس میں انہوں نے شاہد شکیل کی فیس بُک پر شئیر ہونے والی ایک پوسٹ کے حوالے سے لکھا تھا، ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ یہ پوسٹ احتجاج کے طور پر شئیر کی گئی ہے جسے دیکھ کر انہیں بھی بہت دُکھ اور افسوس ہوا اس پوسٹ میں بتایا گیاتھا کہ کس طرح پاکستان کے کچھ لوگ بڑی مہارت اور آسانی سے پوری کی پوری تحریر چُرا لیتے ہیں۔
شاہد شکیل کے مطابق 2015 میں دل کے موضوع پر لکھی ہوئی ان کی ایک تحریر کسی دوسرے شخص نے اپنے نام سے منسوب کر کے شائع کی، اس حرکت کی وجہ سے شاہد شکیل دلبرداشتہ ہو گئے اور انہوں نے احتجاجاً کالم نگاری سے دستبرداری کا عندیہ دیا، کولون جرمنی میں مقیم پاکستانی لکھاری شاہد شکیل کے کالم جاندار، مئوثر اور علمی میں ہوتے ہیں، ڈاکٹر صاحب کا شاہد شکیل کے نام اپنے پیغام میں کہنا تھا کہ اُن کی تحاریر سے پاکستان کے لوگ مستفید ہوتے ہیں۔
ہمارا انہیں مشورہ ہے کہ وہ کالم چوروں کے آگے گھٹنے ٹیکنے کے بجائے اپنے لکھنے کا سفر جاری رکھیں تاکہ آئندہ بھی اُن کے پڑھنے والے اُن کی تحاریر سے فائدہ اٹھا تے رہیں ،راقم الحروف کوبھی ڈاکٹر صاحب سے مکمل اتفاق ہے اور جناب شاہد شکیل صاحب کو یہی مشورہ ہے کہ وہ ایسے اوچھے ہتھکنڈوں اور کالم چوروں کی وجہ سے اپنے لکھنے کا عمل ترک نہ کریں بلکہ اس کار خیر میں اپنا حصہ ڈالتے رہیں ان بے ضمیروں اور تحریر چوروں کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ،دراصل شاہد صاحب ایسے لوگ کچھ بھی کریں انہیں وہ حقیقی قلبی خوشی کبھی بھی میسر نہیںآتی جو کہ ایک کالم نگار کواپنی تحریر کے اختتام پر نصیب ہوتی ہے اور یہی ان کی ناکامی ہے۔
دراصل کچھ لوگ اپنی منزل کا تعین تو کر لیتے ہیں مگر شارٹ کٹ راستوں سے اپنی اس منزل تک پہنچے کی کوشش کرتے ہیں جو کہ انہیں محنت،دیانت اور صداقت سے حاصل ہونی ہے مگر وہ ایسا نہیں کرتے ،اب یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ منزل کیا ہے؟ منزل اس مقام کو کہا جاتا ہے جس مقام پر پہنچنے کے بعد ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہم جس مقصد کے لئے دن رات کو شاں رہے آج اس کے حاصل کا دن ہے۔ اور ہم نے اپنی محنت اور لگن سے لا حاصل کو حاصل کر لیا۔ اور دل میں اطمینان و سکون کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر امڈ آتا ہے۔ اور خوابوں کی حقیقی تعبیر عمل میں آتی ہے۔ اور یہ حاصل منزل کی ٹھوس نشانیاں اور یہی منزل ہے۔
حصول منزل کے لئے پہلی شرط راستہ کاصحیح انتخاب ہے۔ اس انتخاب کے بعد ہی ہم منزل تک پہنچے کے باقی مراحل طے کر تے ہیں ۔ یہاں لفظ انتخاب کا انتخاب اسلئے کیا گیا ہے کیونکہ حصول منزل کے لئے راستہ تو ایک ہے پرزاویے دو ہیں ۔ ایک زاویہ اچھائی کا دوسرا برائی کا ۔ اب یہ مسافر پر منحصر ہے کہ وہ اپنی منزل کو کونسے زاویہ سے حاصل کر تا ہے۔ جو مسافر اچھائی کے راستہ پر چل کر اپنی منزل کو حاصل کر تا ہے اسے جیسا کہ میںاپنی اس تحریر کے ابتدامیں بیان کر چکا ہوں نشانیاں میسر آتی ہیں ۔ اور جو مسافر برائی یعنی غلط راستہ سے منزل حاصل کر تا ہے ۔ وہ ان نشانیوں سے یکسر محروم رہتا ہے۔
منزل پر پہنچنے کے باوجود بھی اطمینان قلب نصیب نہیں ہوتا جس کی بنیادی وجہ راستہ کا غلط انتخاب ہے۔ کیونکہ ہر کام کی ایک روح ہے۔ یا ہر کام کا ایک حق ہے۔ یعنی جب کوئی بھی کام ہم اس کا حق ادا کئے بغیر سرانجام دیں گے تو وہ کبھی بھی مکمل نہیں ہوگا کہیں نہ کہیں کمی رہ جائے گی جیسے جب کوئی مصور اپنی منزل کا تعین کرتا ہے کہ وہ ایک تصویر بنائے گا اور وہ تصویر کسی کا چہرہ ہے اور وہ تصویر مکمل کرلے اور چہرے پر ناک نہ بنائے تو وہ تصویر مکمل نہیں ہوتی وہ اس کا ناک بنائے گا تو اس کے کام کا حق ادا ہوگا اور وہ تصویر اپنی حقیقی حالت بیان کرے گی اور بنانے والا پھولے نہ سمائے گا۔
کیوں کہ وہ تصویر اس کی منزل تھی اس طرح ادائیگی حق کے ساتھ مصور نے اپنی منزل حاصل کی اگر وہ اس تصویر کو ایمانداری سے نہ بناتا اور جلدی جلدی اپنی منزل حاصل کرنے کی کوشش کرتا تو کہیں وہ ایک آنکھ چھوٹی بناتا تو کہیں بڑی یعنی کمی چھوڑدیتا جس کی وجہ سے وہ حصول منزل کی لذت سے محروم رہ جاتا یہاں حصول منزل کے لئے برائی جلد بازی تھی اور اچھائی محنت،لگن ،ایماندداری اور کام سے مخلصی تھی اور حصول منزل کے لئے محنت ،لگن ،ایمانداری اور مخلصی دوسری اہم شرط ہے اسی طرح اگر میں اپنی بات کروں کہ میں ایک اچھا لکھاری بننا چاہتا ہوں اور لکھاری بننا میری منزل ہے تو حصول منزل کے لئے اچھائی یہ ہے کہ میں اپنی تحریروں کاحق ادا کروں جیسے الفاظ کا خیال رکھناتحریر کی شروعات اور احتتام کو باخوبی پورا کر نا تحریر میں شاعری کو ٹھیک استعمال کر نا وغیرہ تحریر کا حق ہے۔
اگر میں جلد بازی میں ایک بھی کوتاہی کا مرتکب ہو تا ہوں تو تحریر مکمل ہو نے پر اطمینان قلب نصیب نہیں ہوگا۔ کیونکہ میں حق تحریر ادا کر نے میںناکام رہا یا پھر حصول منزل کے لئے کسی کی شائع شدہ تحریروں کو پھر سے شائع کرکے یا اپنے نام سے منسوب کروں تو بھی ناکامی میرا مقدر رہے گی۔ کیونکہ حصول منزل کی تمام شرطوں میں چوری جیسی کسی بھی شرط کا کہیں ذکر نہیں۔ اگر میں تحریر کا حق ادا کروںگا تو مجھے خوشی میسر آئے گی۔
جیسا کہ میں اوپر تحریر کر چکا ہو ں کہ ادائیگی حق کے بعد دل میں اطمینان وسکون کاٹھاٹھیں مارتا سمندر امڈ آتا ہے اور خوابوں کی حقیقی تعبیر عمل میں آتی ہے یہاں حصول منزل میں برائی چوری تھی ۔ المیہ یہ ہے کہ ہم منزل کا تعین تو کرلیتے ہیں پر راستہ کا انتخاب غلط ہو تاہے۔ اور اس غلط انتخاب کے باجود ہمیں ہماری منزل مل بھی جائے تو درحقیقت ہمیں منزل نہیں ملتی۔ اور اسطرح کی درجنوں مثالیں ہم لے سکتے ہیں کہ کسی بھی شعبہ پر محیط منزل کے حصول کے لئے ہمیں صحیح راستہ کا انتخاب بے حد ضرور ی ہے۔ کیونکہ منزل کا تعین کر نا پہلی بات ہے۔ اور منزل پر پہنچنا دوسری بات ہے۔ اور منزل کو برقرار رکھنا اصلی بات ہے۔ جو کہ غلط راستہ کا انتخاب سے قطعاً ممکن نہیں ۔ اسلئے بڑی منزل اور غلط راستہ کا انتخاب حصول منزل کے لئے ناممکن ہے۔
تحریر : وجاہت صدیقی