اسلام آباد: قائد حزب اختلاف سید خورشید کا کہنا ہے کہ عوام بھوکی مررہی ہے اور حکومت ملکی قرضوں میں 8 ہزار ارب روپے کا اضافہ کرکے معیشت کی بہتری کے دعوے کررہی ہے۔
قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے خورشید شاہ نے کہا کہ 2008میں دنیا میں مہنگائی کا طوفان آیا، عالمی کساد بازاری 2008 میں شروع ہوئی تب پیپلز پارٹی کی حکومت تھی، اب تو کساد بازاری بہت کم ہو چکی ہے، اس وقت دنیا میں پیٹرولیم مصنوعات کی قمیتں بھی زیادہ تھیں لیکن اس وقت کے اعدادووشمار اور آج کے دیکھ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہم صرف قرض لینے میں آگے نکل گئے ہیں، پاکستان کو حاصل ہونے والی عالمی مراعات کے باوجود موجودہ حکومت میں ہماری برآمدات 19فیصد ہیں جب کہ ہمارے دور میں 29 فیصد تھیں۔ خورشید شاہ نے کہا کہ ہمارے دور میں ملکی قرض 14ہزار ارب تھے اور اب یہ اب 22 ہزار ارب تک پہنچ گئے، ملک کے بیرونی قرضوں میں 8 ہزار ارب روپے کا اضافہ کردیا گیا اور پھر کہتے ہیں کہ معیشت بہت اچھی ہے، میٹرو اور اورنج ٹرینوں سے معیشت اچھی نہیں ہوتی، بھوک ختم کرنے سے معیشت بہتر ہوتی ہے، صرف دعووٴں سے نہیں، معیشت وہ اچھی جس میں لوگوں کو روٹی ملے اور عوام خوشحال ہوں، وہ کہانیوں کی بات نہیں کرتے بلکہ آنکھوں دیکھا حال بتارہے ہیں، لوگ لاہور میں جناح اسپتال میں بسترنہ ہونے کی وجہ سے فرش پر پڑے ہیں، اور یہاں دعوے کئے جارہے ہیں کہ لاہور ترقی کرگیا ہے کہاں ہے وہ ترقی۔ آج دانش اسکول بند پڑےہوئےہیں کیونکہ یہ صرف الیکشن تک معاملہ تھا۔ اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا کہ لوڈشیڈنگ صرف وسطی پنجاب میں ختم ہوئی اور جنوبی پنجاب ،سندھ، بلوچستان اور کے پی میں ٹیکنیکل لوڈ شیڈنگ بڑھا دی گئی۔ جو نہریں بند کرنی چا ہییں وہ کھول دی ہیں ،پہلی بار سکھر بیراج سے ہزاروں کیوسک پانی چھوڑا گیا ہے۔ خورشید شاہ نے کہا کہ بے نظیر بھٹو نے پارلیمنٹ کے لیے گولی کھائی لیکن آپ پارلیمنٹ میں آتے نہیں۔ وفاقی وزرا آتے نہیں اور صرف عبد القادر بلوچ آ کر بیٹھ جاتے ہیں، عبد القادر بلوچ سے ہمارا دیرینہ تعلق ہے انہیں دیکھ کر شرم آ جاتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما نے کہا کہ وفاق کو کمزور کیا جا رہا ہے اور کرسی پر بیٹھ کر آپ کو نظر نہیں آرہا، گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کو ہم نے پہچان دی، سندھ نے پاکستان کی قرارداد منظور کی لیکن لوگوں کے ذہنوں میں جان بوجھ کر نفرت پیدا کی جا رہی ہے،آپ پختونوں کے خلاف کارروائیاں کر رہے ہیں،بلوچ اور سندھی افسروں کو تو آپ ترقی دینے کو تیار نہیں ہیں۔ سندھ کی زمینیں خشک ہو رہی ہیں،دریائے سندھ کا کڑوا پانی ہم پیتے ہیں،پنجاب کو 2.82 ملین ایکڑ فٹ پانی ملتا ہے اور ہمیں صرف اعشاریہ 36 ملین ایکڑ فٹ پانی دیا جاتا ہے۔ پنجاب کو 1.11 فیصد پانی ملتا ہے جب کہ سندھ کو ملتا ہی نہیں۔