تحریر : منظور فریدی
ہم نے اپنے پریس کلب کے فلیکسز اور بینرز پر جلی حروف میں لکھا ہوا ہے ،،جبری استحصال معاشرتی ناانصافی کے خلاف ہم پہنچائیں گے آپکی آواز ارباب اختیارات تک ،،مجھے ایک خط موصول ہوا جس میں ایک لڑکی نے آرمی چیف جناب جنرل راحیل شریف کو مخاطب کر کے جو لکھا ہے وہ من وعن نظر قارئین ہے یہ خط پڑھنے کے بعد مجھے یہ ہمت ہی نہیں ہوئی کہ میں اس کے سیاق وسباق یا الفاظ میں کوئی تبدیلی کروں یا اسے گول ہی کر جائوں جیو کی اس سائٹ کے علاوہ بھی میں نے وہ خط اپنے سیئنیرز کو ارسال کیا ہے کیونکہ میرا شمار تو لکھاریوں میں نہیں ہوتا اور نہ ہی میں سمجھتا ہوں کہ میں کوئی لکھاری ہوں اپنے دل کی بات لکھنے کے لیے بھی بڑوں سے اپنے الفاظ کی اصلاح کرواتا ہوں ابھی اب میں وہ خط اسی کے الفاظ میں بیان کرتا ہوں۔
محترم جناب جنرل صاحب آداب وسلام کے بعد قوم کی ایک بیٹی نے قومی اخبار کے ذریعہ آپ سے رابطہ کرنے کی جسارت کی ہے اور اس امید کے ساتھ کہ آپ اس گھرانہ کے چشم و چراغ ہیں جسے نشان حیدر جیسا سب سے بڑا اعزاز بھی مل چکا ہے حکومت تو بعد از شہادت یہ اعزاز دیتی ہے مگر اللہ پاک نے جو انعامات شہیدوں کے لیے رکھے ہیں اتنی ہی عزت اور انعام غازیوں کے لیے بھی رکھے ہیں اصحاب بدر کا واقعہ اس بات کا ثبوت ہے میں ذیادہ پڑھی ہوئی تو نہیں مگر اس واقعہ کا بخوبی علم ہے جب قوم کی ایک مظلوم بیٹی نے اسلامی حکومت کو خط لکھا تو محمد بن قاسم آیا اور اس نے راجہ داہر کو شکست دیکر ہندوستان میں اسلامی حکومت قائم کر دی تھی۔
محترم جنرل صاحب اس وقت محمد بن قاسم تو ایک لمبی مسافت سے آیا تھا مگر آپ تو اسی ملک میں موجود ہیں جہاں ان گنت راجہ داہر پیدا ہوچکے ہیں مگر کوئی انکو پوچھنے ولا ہی نہیں اسلامی ملک کی حکومت میں کون ایسا بندہ شامل ہے جو اسلام سے واقف ہو یا اسلامی اقدار کا فروغ چاہتا ہو یہاں تو کلمہ نماز تک نہیں آتی انہیں اور عوام کو ان لوگوں نے زر خرید غلاموں سے بد تر زندگی میں دھکیل کر اسے جمہوریت کا نام دیا ہوا ہے یہ کونسی جمہوریت ہے جہاں مریم نواز شریف نے تو ایک لاکھ روپے کا لباس پہنا ہو لاکھوں روپے کا میک اپ کیا ہوا ہو اور قوم کی بیٹیوں کو اپنی عزت بچانے کے لیے جان گنوانی پڑے یا کوئی بھیڑیا اگر عزت تارتار کرڈالے تو اسے اس لعنتی طبقہ کی مکمل حمائت حاصل ہو میں نے سنا ہے کہ آپ بہت جلد اپنے عہدہ سے سبکدوش ہو رہے ہیں۔
جناب جنرل صاحب صلاح الدین ایوبی بھی ایک جرنیل ہی تھا جس نے مصر کے حالات سنوارتے سنوارتے اپنا ایک لشکر تشکیل دیا اور پھر مسجد اقصیٰ بھی آزاد کروا لی اس وقت کے خلیفہ کا حال بھی یہی تھا کہ اپنے بیڈروم میں عیاشی کے علاوہ اسے کوئی کام نہ تھا اور آج آپ کے اردگرد جتنے بھی سیاست دان موجود ہیں یہ سب اس ملک کے دشمن اس ملک کی عوام کے ناخدا بنے بیٹھے ہیں جس ملک میں دو وقت کی روٹی کے لیے خون کی بوتل بیچنی پڑے اپنی معصوم بیٹیوں کی نئے کپڑوں کی خواہش پر انکا گلا دبانا پڑے بھوک سے بلکتے بچوں کو باپ اپنے ہاتھوں زہر دے رہا ہو ایک ماں کو اپنے بیٹے کے علاج کے لیے اپنی عزت کی قربانی دینا پڑے وقت کے حکمران سب جانتے ہوئے بھی میٹرو میٹرو میٹرو کرتے پھرتے ہوں تو یہ کونسی جمہوریت ہے اور جسے یہ مارشل لاء کہتے ہیں اللہ کی قسم عوام اسے اچھا سمجھتی ہے اسکا ڈر انہیں ہی لگتا ہے جن کے خوانچے لگنا بند ہو جائیں جن کی کرپشن بے نقاب ہو جائے جن کے استثنیٰ کو ختم کیا جائے عوام کو ایسی جمہوریت سے وہ ڈکٹیٹر شپ لاکھ درجہ بہتر ہے آپ آج صاحب اختیار ہیں وقت آپکے پاس ہے اور ذمہ دار آپ بھی ہیں۔
اللہ کو حساب دیتے وقت سوال آپ سے بھی ہوگا صرف سرحدوں کی نگہبانی نہیں اسکے اندر رہنے والی بھولی قوم کی بھی نگہبانی کا سوال ہوگا یہ سب اقتدار کے بھوکے بھیڑے ہیں انسانیت تو انکو چھوکر بھی نہیں گزری آج جو گالی الطاف نے دی ہے ان میں اور الطاف میں فرق بس اتنا ہے کہ وہ سرعام بول گیا اور یہ دیمک کی طرح اند ر سے اس ملک کو کاٹ کھا رہے ہیں آپ کو اللہ اور اسکے رسول پاک کا واسطہ آزاد کروا دیں ایسی جمہوریت سے ہمیں جس نے ہمیں اس حال تک پہنچا دیا ان سب سیاسی پارٹیوں کو بیس تیس سال بائن کردیں اور ان کے ناخدائوں سے قوم کی لوٹی ہوئی دولت واپس لیں اسے اللہ کی مخلوق پر بلا تفریق مذہب بلا تفریق ذات خرچ کریں۔
اس قوم کو میٹرو ٹرینوں کی ضرورت ہے نہ بسوں کی دھرنوں میں ناچنے کا شوق ہے نہ قادری کی تقاریر پہ جلوس نکالنے کا آپ میرا یقین کریں کہ عمران کے دھرنے میں ناچنے والے جوان بے روزگار تھے جو دیہاڑیوں پہ لائے گئے اور انہیں ناچنے ہنگامہ کرنے کے عوض انکے بال بچوں کا رزق ملا اس قوم کو عزت سے دو وقت کی روٹی چادر چار دیواری کا تحفظ اور بچوں کو تعلیم کے مواقع عنائت کردیں اس کے لیے پیسہ بھی آپ کو کسی ورلڈ بینک یا دوسرے ملک سے سود پر نہیں لینا پڑیگا کیونکہ سب مگر مچھوں کو جیل میں ڈال کر ان کے آپریشن کرنے سے جو قوم کا لوٹا ہوا پیسہ برآمد ہو گا وہ ملکی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پچاس سال تک ختم نہیں ہوگا۔
باقی آپ جب باگ ڈور سنبھال لیں گے تو نوکر شاہی سے جب تمام سیاست ختم کر دینگے اور قوم کے دیے گئے ٹیکسز اور دیگر ریونیوکے واجبات سے ملک ترقی کی راہ پر چل پڑیگا کیونکی یہ قوم ٹیکس چور نہیں بے ایمان نہیں بس ایک کمی ہے وہ ہے شعور کی کمی کہ جوتے کھا کر بھی شیر اک واری فیر زرداری سب پہ بھاری وغیرہ وغیرہ کی جگہ اس قوم کو ایک ہی نعرہ یاد ہو جو ملک کا غدار ہے شیطان کا وہ یار ہے اور اسکی جگہ اڈیالہ کی بیرک نمبر چار ہے اللہ کرے کہ آپ کو اپنی قوم کی اس بیٹی کے ٹوٹے پھوٹے لفظوں سے ہی مقصد سمجھ میں آ جائے تو اللہ آپکو وہ اجر دیگا جو وہ اپنے شہداء اور غازی بندوں کو عطا کرتا ہے۔
تحریر : منظور فریدی