تحریر : قدسیہ نورین قدسی
قوم کی بیٹیاں ہم جب بھی قوم کی بیٹی کا نام لیتے ہیں تو ہمارے دل و دماغ کے کسی نہ کسی کونے میں بس ایک ہی نام روشن ہوتا ہے اور وہ ملالہ یوسف زئی جس کو ہماری قوم نے اور پوری دنیا نیبھی پاکستان کی بیٹی کا خطاب دیا ہے اور وہ بیٹی جس نے تعلیم کے حصول کے لیے جنگ لڑی ہے اور اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف آواز کو بلند کیا اور قلم کے ذریعے تعلیم کے حصول کی آواز کو اٹھانے پر دہشت گردوں کی طرف سے نشانہ بھی بنایا گیا اور پھر بیرون ملک علاج کے بعد اسے پوری فیملی سمیت برطانیہ شفٹ کر دیا گیا اور اب بقول اس کے وہ ادھر ہی اعلی تعلیم حاصل کر رہی ہے۔
بہت جلد پاکستان آکر پاکستانیوں کی خدمت کرے گی۔ ملالہ یوسف نے تعلیم کے لیے آواز اٹھا کر پاکستان کی لاکھوں بہنوں بیٹیوں اور ماؤں کو آواز دی ہے اور نجانے کتنی ہی لڑکیوں نے ملالہ یوسف کو اپنا آئیڈیل بنایا ہیاور اس کی صحت کے لیے دن رات دعائیں کی گئی اور اسے قوم کی بیٹی ہونے کا جو اعزاز دیا گیا ہے اس کی بھر پور طریقے سے حمایت کی مگر یہاں یہاں ایک بات بہت افسوس کی ہے کہ ملالہ یوسف نے آج تک اس کا حق ادا نہیں کیا۔
کیا آج قوم کی بیٹی برطانیہ میں بیٹھ کر ان ہزاروں لڑکیوں کے لیے تعلیم کی شمعیں روشن کر پارہی ہے کیا اب وہ ان لڑکیوں کی رہنمائی کر پا رہی ہے یہاں سوال جو میرے قوم کی دوسری ہزاروں بیٹیوں کے ذہنوں میں ہے وہ یہ ہے کہ اعلی تعلیم حاصل کرنے کا حق صرف ملالہ کو ہی ہے ؟ یہاں یہاں ایک اور بات جو سب کے لیے قابلِ غور ہے۔
کیا ہمارا پاکستان اعلیٰ تعلیم نہیں دے سکتا ؟؟ جو تعلیم پاکستان میں دی جاتی ہے کیا ہم اسے اعلیٰ تعلیم نہیں کہہ سکتے اگر پاکستان میں اعلیٰ معیار کی تعلیم نہیں ہے تو پھر ہماری دوسری بہنوں کو بھی اعلیٰ تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جائے اور بیرون ممالک بھیجا جائے تاکہ اچھی تعلیم کی خواہش سب کی پوری ہو سکے لیکن بات ہے کہ کیا صرف ملالہ ہی قوم کی بیٹی ہے کیا ہم سب قوم کی بیٹیاں نہیں ہیں۔
پاکستان میں جو اتنا عام ہے کہ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ باپ جوئے خانے میں بیوی اور بیٹی بھی ہا ر دیتا ہے اور ایسے واقعات کو سرعام میڈیا پر دیکھانے کے باوجود انصاف کی فراہمی ممکن نہیں ہوتی۔
آخر کیوں کیا وہ جوئے میں ہارنے والیاں اس قوم کی بیٹیاں نہیں ہے ہمارے معاشرے میں تعلیم کی آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے وہ لڑکیاں جن کی بہت ہی کم عمری میں شادیاں کر دی جاتی ہے ان لڑکیوں کو اپنا اور پھر بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے دن رات محنت مزدوری کرنا پڑتی ہے کیا وہ اس قوم کی بیٹیاں نہیں ہے. ہمارے ملک میں ہر سال ہزاروں کے حساب سے ہوس کی نظر کر دی جاتی ہے اور پاکستان کے مختلف علاقوں میں وانی کے نام پر کتنی لڑکیوں کو زندہ مار دیا جاتا ہے اور یہاں ایک بات قابلِ غور ہے ہمارے معاشرے میں بیٹی کو ہی کیوں برا سمجھا جاتا ہے آج کل تو بیٹی کو پیدا ہونے سے پہلے ہی پیٹ میں ختم کروا دیا جاتا ہے۔
انصاف کسی نہیں ملتا کیوں .کیا وہ قوم کی بیٹیاں نہیں ہے میرے خیال میں ملالہ یوسف زئی سے بھی زیادہ محنت اور لگن سے کام کرنے والیاں ہمارے ملک میں بیٹیاں ہے جو اسی ملک میں تعلیم حاصل کرکے اپنے ہی ملک میں تعلیم کی روشنی سے دوسروں کو منور کرتیں ہیں وہ بھی تو اسی ملک کی بیٹی ہی ہے ناں. اور وہ عظیم ماں جو اپنے بچوں کو پاکستان کے لئے قربان کرتی ہے اور اپنے دوسرے بچوں کو بھی قربان کر دینے کا حوصلہ رکھتی ہے وہ بھی تو اسی پاکستان کی ہی بیٹی ہے۔
ذرا سوچئے کہ کیا اس سر زمین پاکستان جس کو اسلامی جمہوریہ پاکستان بھی کہتے ہیں جہاں اسلام عدلِ انصاف کی ہمیشہ تعلیم دی جاتی ہے جہاں سب کے حقوق برابر کے ہونے چاہیے اور پھر وہاں قوم کی صرف ایک ہی بیٹی ہے کیا دوسرییٹیاں اس قوم کی بیٹیاں نہیں ہیں۔
بیٹی کو تو اسلام نے رحمت بنا کر بھیجا ہے اور پ?ر ہم کیوں بیٹی کو زحمت سمجھتے ہے میرے خیال میں ملالہ یوسف زئی نے آج تک پاکستان کے لئے کیا کیا ہے اگر کچھ کیا ہے تو اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے ہی کیا ہے یا اس ملک سے باہر جانے کے لئے ہی کیا ہے اور اس سارے ڈرامے کے پیچھے بھی ان ممالک کا ہی ہاتھ ہے جو پاکستان کو تعلیم یافتہ ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے جو پاکستان کی ترقی اور کامیابی خوشحالی سے ڈرتے ہے۔
تحریر : قدسیہ نورین قدسی