تحریر:امتیازعلی شاکر
یہ اُن دنوں کی بات ہے جن دنوں پنجاب میں پولیس مقابلوں کی بہارتھی ،جرائم پیشہ عناصر یاتوپولیس کی گولیوں کانشانہ بن رہے تھے یاسرپرٹوپی ہاتھ میں تسبع کندھے پر مسلا(جائے نماز)رکھے ایسے علاقوں میں پناہ لے رہے تھے جہاں اُن کوکوئی جاننے پہچاننے والانہ ہو،چاروں طرف امن وامان کی فضاء بحال ہورہے تھی پرہمارے محلے میں چوروں کاراج تھا،کوئی ہفتہ ایسانہ گزرتاجس میں ایک دوچوری کی واردداتیں نہ ہوتیں،عرصہ دوسال اسی طرح گزرگئے پربہت ساری ایف آئی آردرج ہونے کے باوجودکوئی گرفتاری عمل میں نہ آئی ،بہت سارے افراد شک کی بنیاد پر پکڑے جاتے جنہیں بے گناہ ثابت ہونے پرچھوڑدیاجاتا،پھرایک دن وہ وقت آیاجب یہ کہاوت سچ ہوئی کہ سودن چورکاایک دن ساد کا،اہل علاقہ نے شک کی بنیادپر محلے میں مقیم ایک کرایہ دارکے گھرکی تلاشی لی تو17 چوریوں کے مکس سامان سمیت ایک چورقابوآگیا ۔پولیس کو بلاکرچوربماسامان حوالے کردیاگیا،اہل علاقہ نے پولیس سے مطالبہ کیاکہ چورکے باقی ساتھیوں کوگرفتارکیاجائے اورتمام وارداتوں کا اعتراف کرواکردوسال کے دوران ہونے والی تمام چوریوں کا سامان برآمدکرکے متاثرہ لوگوں کے حوالے کیاجائے ۔کوئی ایک ہفتہ بعد راقم بھی اہل علاقہ کے ساتھ تھانے گیا،تفتیشی آفیسرسے تفتیش کے حوالے سے دریافت کیاتومعلوم ہواکہ ابھی تک نہ توچورکاکوئی ساتھی گرفتارہواہے اورنہ ہی کسی طرح کاسامان برآمد کیاجاسکاہے،
اہل علاقہ تفتیشی آفسیر کے ساتھ تلخٰی سے پیش آئے تواُس نے چورکوحوالات سے نکال کرہمارے سامنے جیساکہ سب جانتے تفتیش شروع کردی ،کافی مارکھانے کے بعد چوربولاپانی پلائوبتاتاہوں،کانسٹیبل نے پانی کا گلاس لاکردیاتوچورنے بہت ریلکس اندازمیں پانی پینے کے بعدتفتیشی آفیسرکومخاطب کرتے ہوئے کہاجناب آپ مجھے یہ منوالیں کہ میں نے ابھی پانی کاگلاس پیاہے تومیں تمام ساتھیوں اورواداتوں کااعتراف کرلُوں گا،اس سے پہلے کہ پولیس مزید تفتیش کرتی کالے کوٹ میں ملبوس ایک صاحب نمودارہوئے ،تفتیشی آفیسر کے ہاتھ میں ضمانت کے کاغذات تھماتے ہوئے بولے اس گلاس کے اُوپرمیرے کلائنٹ کے فنگرپرنٹس ہیں ،ان فنگرپرنٹس کوثابت کرنے کیلئے آپ کوجن جن اداروں سے تعاون لیناہے لے لیں ،پہلی بات تویہ کہ میرے کلائنٹ نے کوئی چوری تسلیم نہیں کی اوردوسری بات یہ کہ پولیس حراست میںہزاروں چوریوں کااعتراف کرنابھی معنی نہیں رکھتا،عدالت ثبوتوں اورگواہوں کی بنیادپرفیصلہ دیتی ہے نہ توکسی نے میرے کلائنٹ کوچوری کرتے دیکھااورنہ ہی کوئی معقول ثبوت ہیں آپ کے پاس اورہاں سن لیں میرے کلائنٹ پرہونے والے تشددکاحساب آپ کوعدالت میں دیناپڑے گا،پھرکیا ہونا تھا
وہی جویہاں ہوتاہے سب متاثرہ لوگ آہستہ آہستہ مقدمہ کی پیروی سے پیچھے ہٹتے گئے اورعدالت نے اُس چورکوبے گناہ قراردے کربری کردیااورساتھ ہی محکہ پولیس کی سرزنش بھی کی ،یاددلاتاچلوں جب اُس چورکوبماسامان پکڑاگیاراقم بھی موجودتھا۔ پانامہ لیکس کے منظرعام پرآنے کے بعد وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان جناب میاں محمد نوازشریف اوردیگرن لیگی قیادت کے بیانات سن کریہ ساراواقعہ بہت شدت سے یادآرہا تھاسوچاقارئین کے ساتھ شیئرکرتاچلوں ،لوگوں نے دیکھامیاں صاحب نے یہ بات نہیں کی کہ وہ خوداوراُن کے بچے بے گناہ ہیںپھر بھی تحقیقات کروالیں جرم ثابت ہواتوسزاکیلئے تیارہیں ،
انہوں نے ہرباریہی کہاکہ مخالفین الزمات کی سیاست کررہے ہیں،کمیشن بنادیں گے کرپشن ثابت ہوئی توخاموشی سے گھرچلاجائوں گا،میاں صاحب اوراُن کے بچے بے گناہ ہیں توپھروہ یہ کیوں نہیں کہتے کہ اپوزیشن جہاں،جیسے چاہے تسلی کرلے انہوں نے کسی قسم کی کرپشن نہیں کی،آپ یقین کریں جس چورکی حقیقی داستان میں نے آپ کوسنائی اُس کاتعلق بالکل غریب خاندان سے تھاپھربھی اُس پرکوئی جرم ثابت نہ ہوسکا،جب وزیراعظم خودکوخاندان سمیت کمیشن میں پیش کرنے کااعلان کرنے کے ساتھ جرم ثابت ہونے کی صورت میں گھرجانے کی بات کرتے ہیں توماضی کے بے شمارواقعات یادآتے ہیں جن میں سرفہرست ذوالفقارعلی بھٹوکی پھانسی ہے،سوال یہ ہے کہ کیا بھٹو قاتل ثابت ہوگیاتھا؟کئی سال جیلوں میں بندرہنے کے باوجودآصف زرداری پرکوئی جرم ثابت نہ ہوسکا،دورکی بات کیاکرناموجودہ حکومت میں بے شمارمقدمات میں گرفتارہونے والے سابق صدرپرویزمشرف پرآج تک کوئی جرم ثابت نہیں ہوسکا،مشرف کااین آراوابھی قوم بھولی نہیں اورمیاں صاحب قوم کے سامنے اپنی صفائی پیش کرنے کی بجائے کمیشن میں پیش ہوناچاہتے ہیں
،سادہ دل پاکستانی میاں صاحب کی اس خواہش کواعتراف جرم نہ سمجھیں توکیاسمجھیں؟جبکہ قوم جانتی ہے کہ کمیشن ،کمیٹیاں اورتحقیقات ہوتی ہی جرائم چھپانے کیلئے ہیں ،میاں صاحب جنگل کے بادشاہ یعنی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں ،یہاں توایک معمولی چوراداروں کے قابونہیں آتاتوپھروزیراعظم یاوزیراعظم کے خاندان پرکوئی جرم کیونکرثابت ہوگا ؟ اُن کی پانامالیکس بارے غیرسنجیدگی کایہ عالم ہے کہ وہ حیران کن طورپر ملک کے وزیراعظم ہوکراپوزیشن کے مقابلے میں جلسے کرنے نکل پڑے ہیں ،حضورمیاں صاحب حاکم قوم کاسرپرست یعنی ماں باپ ہوتاہے پرآپ کے لب ولہجے سے لگتاہے کہ آپ کوتوصرف وہ بچے عزیزہیں جن کے نام کے ساتھ شریف لگتاہے آپ کی طرف سے باقی سب جائیں جہنم میں،ماضی میں آصف زرداری کوللکارنے والے میاں شہبازشریف بالکل خاموش ہیں انہوں ایک باربھی نہیں کہاکہ وزیراعظم فوری طورپراپنااوراپنے خاندان کاسرمایہ پاکستان واپس لائیں ،وزیراعظم کے بچوں کے نام پاناماپیپرزمیں آنے کے بعد سابق آصف علی زرداری اورمیاں نوازشریف کے درمیان بس ایک ہی فرق ہے
بڑے میاں صاحب چھوٹے میاں صاحب کے بھائی ہیں ورنہ اب تک چھوٹے میاں صاحب کرپشن کوللکارنے میں عمران خان سے بہت آگے ہوتے ۔پیپلزپارٹی کی وفاقی حکومت تھی توچھوٹے میاں صاحب لوڈشیڈنگ کے خلاف کمیپ لگاکراحتجاج کرتے رہے اب جب بڑے میاں صاحب وزیراعظم ہیں توبجلی آئے نہ آئے چھوٹے میاں صاحب نے کبھی وفاق کونہیں للکاراجس سے صاف ظاہرہوتاہے کہ اپنے رشتہ داروں کوسات خون بھی معاف ہیں ،قارئین کویاد ہوگاکہ جب آصف علی زرداری صدر تھے توچھوٹے میاں صاحب اُن کولاہورکی سڑکوں پرکس جرم میں گھسیٹناچاہتے تھے؟جی یاں ملک کی لوٹی ہوئی دولت کی ایک ایک پائی واپس لانے کے دعوے کرنے والے آج منہ ہی نہیں بلکہ آنکھ اورکان بھی بندکئے بیٹھے ہیں،چھوٹے میاں صاحب ابھی آصف زرداری کولاہورکی سڑکوں پرگھسیٹنے کاوعدہ پوراکرپائے ہیں اورنہ ہی ملک کی لوٹی ہوئی دولت کی ایک پائی بھی واپس لاپائے ہیں اوراب پانامانے کردیاہے ہنگامہ۔کسی بھی حادثے یاسانحہ کے بعد اُس سے بھی بڑاعذاب سامنے آتاہے اب دیکھیں آگے کون سابڑاسانحہ یاحادثہ قوم کامقدربننے جارہاہے،لگتاہے قوم کے مقدرمیں تعلیم،صحت،انصاف،روزگارکی سہولیات نہیں کمیشن،کمیٹیاں اورتحقیقات لکھے ہیں ،قوم اس قدرحادثات کی عادی ہوچکی ہے کہ اب چورمعمولی ہویاوی آئی پی سب جانتے ہیں کہ کچھ ثابت ہونے والانہیں
تحریر: امتیاز علی شاکر:لاہور
imtiazali470@gmail.com
03154174470