شدت پسندی ہمارے معاشرے کا ایک سنگین المیہ بن چکی ہے اور اس پر افسوس تو یہ کہ ہم اس کا ادراک بھی نہیں کر رہے۔ عدم برداشت ہماری رگ و جاں میں کوٹ کوٹ کے بھری ہے۔ فرق کو تسلیم کرنا تو ہم نے سیکھا ہی نہیں ہے۔ مہذب معاشروں میں فرق سیکھنے کی علامت بنتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں فرق گالیوں، فتوؤں کی وجہ ہے۔ کوئی شخص ہم سے مختلف سوچے ہمیں تو یہ گوارہ ہی نہیں ہے، کوئی ہمارے گھڑے من گھڑت قصے پر انگلی اٹھا نے کی جرات کرے تو وہ بھی کافر ہے۔ ہماری مسجدیں، رحمان و رحیم سے زیادہ کافر کافر کے نعروں سے گونج رہی ہیں۔ ہم بحیثیت قوم اس اندھی کھائی کی جانب گامزن ہیں، جس کے اختتام پر انسانیت کی بوسیدہ لاش کئی حصوں میں تقسیم پڑی ہے۔ شدت پسندی بنیادی طور پر ذہن میں خلل کا نام ہے۔ ممبر ہو یا عام آدمی، لیڈر ہو یا کارکن سب اس دوڑ میں اندھے ہوئے دوڑے جا رہے ہیں، جیسے انہیں اس کے اختتام پر کوئی میڈل ملنا ہے اور وہ میڈل تو شاید ملے مگر وہ میڈل معصوموں کے خون اور متفرق نظریات رکھنے والے لوگوں کی لاشوں کا ہو گا۔ انتہا پسندی یوں تو ہے ہی بری شے، لیکن جب یہ مذہب کی قباء میں ہماری صفوں میں داخل ہوتی ہے تو یہ اور بھی کہیں زیادہ خطرناک ہو جاتی ہے۔ ہمارا کیا ہے، ہم نے تو جناح کی 11 اگست کی وہ تقریر جو تفرقات سے بڑھ کر کام کرنے کا پیغام دے رہی تھی اس کو بھی سنسرشپ کی سولی چڑھا دیا۔ طے یہ پایا کہ سینسرشپ والی بلا نئی نہیں ہے۔
احمدیوں کو غیر مسلم تو ہم نے قرار دلوا ہی دیا مگر ہماری حرص یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ ہم اب یہ چاہتے ہیں کہ ان کو دنیا سے ہی مٹا دیا جائے۔ مذہبی فرق اپنی جگہ مگر کسی غیر مسلم کو ناحق قتل کرنا کس شعور کو گوارا ہے؟ ایک بل اسمبلی میں مسلمان پیش کرتے ہیں، پاس بھی مسلمان کرواتے ہیں۔ لیکن سازش احمدیوں کی ہی ہوتی ہے اور اس سازش کے نتیجے میں اگلے ہی روز دو احمدی قتل کر دئیے جاتے ہیں۔
وہ مکروہ فعل جس کا آغاز ضیاء کے سیاہ دور سے شروع ہوا، وہ آج تک جاری ہے۔ مذہبی معاملات کو سیاسی گیم اسکورنگ کے لئے آج بھی سب استعمال کر رہے ہیں۔ فضل الرحمان کے مطابق، ایم۔ ایم۔ اے۔ کی شکست اسلام کی شکست تصور کی جائے گی۔ ان کا انتخابی نشان دراصل قرآن ہے اور قرآن کو ووٹ نہ دینا اس کی بےحرمتی کرنے کے برابر ہے اور فضل الرحمان کا دعویٰ ہے کہ وہ امت کو اکٹھا کر لیں گے لیکن وہ الگ بات ہے کہ ایم۔ ایم۔ اے۔ کے پہلے اجلاس میں اتحاد کا نعرہ لگانے کے بعد جب نماز کا وقت ہوا تو وہاں ایک سے زائد امامتیں ہوئیں۔ سوال تو یہ آن ٹھہرا جو ایک امام کے پیچھے خود اکھٹے نہیں ہو سکتے وہ باقیوں کو کیسے اکٹھا کریں گے؟ دوسروں کے بچوں کو جہاد کی ترغیب دینے والے حافظ سعید اپنے بیٹے کو الیکشن لڑوا رہے ہیں۔ ایک کرین والی سرکار، سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں دہشتگرد قرار پائے جانے والے قاتل کے نام پر ووٹ مانگ رہی ہیں اور مخالفت کرنے والوں کو بالٹیاں بھربھر گالیوں سے بھی نواز رہی ہے لیکن نہیں جناب! ان کے سربراہ کے مطابق ان پر گالیوں کا الزام ایک سازش ہے۔ وہ الگ بات ہے اس گلوبل گاؤں میں وہ ویڈیوز موجود ہیں جس میں وہ تمام غلیظ گالیاں جسے سن کے بندہ کانوں میں روئی ٹھونس لے وہ دے رہے ہیں اور بلا تفریقِ رنگ، نسل، مذہب اور برادری کے سب کو ایک جتنی ہی دے رہے ہیں۔ کراچی میں ایک شخص جن کا نام بھی اورنگزیب سے ملتا ہے اور اعمال و نظریات بھی، وہ بھی انتخابات میں، ایک مسلک کو صفہءِ ہستی سے مٹا دینے کے نعرے پر ووٹ کی درخواست کر رہے ہیں۔ لدھیانہ یوں تو اپنی انڈسٹری کی وجہ سے جانا جاتا ہے اور صنعت کار خاصے معتدل لوگ ہوتے ہیں، ہر شے میں میانہ روی کے قائل ہو تے ہیں، مگر نجانے احمد لدھیانوی صاحب وہاں کے کیسے ہو گئے اور وہاں کے تھے ہی تو یہاں ہم معصوموں کو تنگ کرنے کیوں چلے آئے؟ یہ احمد لددھیانوی صاحب جھنگ سے حق نواز جھنگوی کے نام پر ووٹ اکٹھے کر رہے ہیں۔
ان کے تو بڑے کھلے نظریات ہیں مگر ان اکثریتی سیاسی جماعتوں کی منافقت کا ہم کیا کریں؟ پاکستان تحریک انصاف کے بہت اہم کارکن، اسد عمر، جن کے بارے میں کم از کم میری رائے یہ ہی تھی کہ نہایت سلجھے ہوئے اور اصول پرست سیاست دان ہیں۔ لیکن اس رائے پر آج مجھے سخت شرمندگی بھی ہے۔ جب وہ مولانا خلیل، جن کے القاعدہ کے ساتھ روابط ہیں، ان سے ملنے پہنچے اور پارٹی میں شامل بھی کر لیا۔ ڈھٹائی تو یہ کہ اس فیصلے کا مسلسل دفاع بھی کر رہے ہیں۔ دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) دونوں اورنگزیب فاروقی کی حمایت کر چکے ہیں۔ عمران خان پھر احمدی مٹاؤ ریلیوں میں بھی جا کر بلند و بانگ خطابات کر رہے ہیں اور ختمِ نبوت کا کارڈ مسلسل استعمال کر رہے ہیں۔ حالانکہ وہ خود ان کی اپنی جماعت اس بل کو پاس کرواتے وقت صم بکم کی مجسم تصویر بنی ہوئی تھی۔
پالیسی میکرز کی بھی اس وقت کوئی سمجھ نہیں آ رہی، محض ایک جماعت کو گرانے کے لئے ان نفرت انگیز کالعدم جماعتوں کو آزاد کر دیا گیا ہے اور مشرف جس طرح فخر سے بتاتے ہیں کہ ہم نے انہیں سپونسر کیا، اسلم انصار کی نظم کا عنوان ہی یاد آتا ہے۔ میرے عزیزو! تمام دکھ ہے۔
ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ جب ہم ایسے لوگوں کو غیر مسلح اور ر ی ہیب کے عمل سے گزارے بغیر قومی دھارے میں لائیں گے تو یہ لوگ ہماری مین سٹریم کو بھی آلودہ کر دیں گے۔ یہ لوگ پارلیمان میں پہنچ کر معیشیت کی بات تو ہر گز نہیں کریں گے بلکہ آپ انہیں اپنے انتہا پسندانہ نظریات لوگوں تک پہنچانے کے لئے ایک پلیٹ فارم فراہم کر رہے ہیں۔ اس عمل سے یہ لوگ اور زیادہ طاقتور ہو جائیں گے اور ساتھ ہی معاشرہ ایک اندھی کھائی کی جانب گامزن ہو گا۔ ابھی جو چند لوگ پارلیمان میں اقلیتوں کے حقوق کے لئے بول لیتے ہیں، ان کی آمد کے بعد وہ بھی کوئی کونا کدھرا ڈھونڈنا مناسب سمجھیں گے۔ اندرونی سطح پر تو اس کے اثرات ہوں گے ہی بین الاقوامی سطح پر جس قسم کی لعن طعن ہم پر ہو گی، ابھی تو گرے لسٹ پر پر ہیں کل کلاں بلیک لسٹ میں بھی جگہ بنا لیں گے اور اس کے ریاست پر کیا اثرات ہوں گے یہ ہم سب ہی جانتے ہیں۔
سیاسی جماعتوں سے ہاتھ جوڑ کر گزارش ہے کہ حضور مانا کہ انتخاب جتنا بہت اہم ہے آپ کے لئے۔ مگر خدارا وہ نفرت کے بیج مت بوئیں جو ہماری آنے والی نسلیں کاٹ نہ سکیں، یہ ملک پہلے ہی عدم برداشت کا گھر ہے۔ آپ کا کارکن تنقید پر سامنے والے کے کپڑے پھاڑ دیتا ہے اور ماں و بہنوں کی وہ وہ غلیظ گالیاں دیتا ہے کہ خدا کی پناہ۔ آپ اس میں اور اضافے کی وجہ مت بنیں۔ آپ نے تو ویزے لگوا کر بیرونِ ملک چلے جانا ہے اور اقتدار میں آنے کے بعد پہلا کام اپنے بچوں کو باہر شفٹ کروانے کا کرنا ہے اور کچھ کے تو پہلے ہی سے شفٹ ہیں، خدارا ہمارے بچوں کے مستقبل پر کچھ رحم کھائیں۔ کچھ تھوڑی سی شرم، جس کی امید تو نہیں ہے مگر ہمیں غلط ثابت کرنے کے لئے ہی کر لیں۔
اس تمام گالم گلوچ، تو کافر، میں کافر کی صداؤں میں، ایک اکتیس سالہ نوجوان جبران ناصر کراچی کے حلقہ این۔ اے۔ 247 سے الیکشن لڑ رہا ہے۔ جس کا بنیادی نظریہ یہ ہے کہ حق سب کے لئے۔ اگر میں حقیقت پسندی سے کام لوں تو سچ تو یہ ہے کہ جبران چند سو ووٹ ہی لے پائیں گے۔ مگر پھر بھی تمام جہانوں کے پالنے والے سے دعا ہے کہ کوئی ایک تو ایسا شخص ہماری پارلیمان میں پہنچے جو صحیح اور غلط میں تفریق نفرت کے چشمے کے بغیر کرنا جانتا ہو۔ جس کی زبان سچ بولتے ہوئے لڑکھڑاتی نہ ہو، جو نڈر ہو، جو جینا جانتا ہو اور جینا کیسے ہے یہ سکھانے کا ہنر جانتا ہو۔ کاش کہ یہ شخص ایوانوں میں پہنچے کہ جب لدھیانوی اور فاروقی جیسے لوگ نفرتوں کی زبانیں زہر اگلیں تو کوئی تو ہو جو جواب دے سکتا ہو؟ کوئی تو ہو جو خدا کے رکھوالوں سے خدا کے بنائے انسان کو بچانے کی کوشش کر سکے۔ کوئی تو ہو!کاش کوئی تو ہو!
بقول احمد ندیم قاسمی،
زندگی کے جتنے دروازے ہیں، مجھ پر بند ہیں
دیکھنا ….. حدِ نظر سے آگے بڑھ کر دیکھنا بھی جرم ہے
سوچنا ….. اپنے عقیدوں اور یقینوں سے نکل کر سوچنا بھی جرم ہے
آسماں در آسماں اسرار کی پرتیں ہٹا کر جھانکنا بھی جرم ہے
کیوں بھی کہنا جرم ہے،
کیسے بھی کہنا جرم ہے
سانس لینے کی تو آزادی میسر ہے مگر
زندہ رہنے کے لئے کچھ اور بھی درکار ہے
اور اس “کچھ اور” کا تذکرہ بھی جرم ہے
اے ہنر مندانِ آئین و سیاست!
اے خداوندانِ ایوانِ عقائد!
زندگی کے نام پر بس اک عنائت چاہئیے
مجھے ان سارے جرائم کی اجازت چاہئیے۔