کتاب میری زندگی میںہمیشہ سے ہی اہمیت کی حامل رہی ہے ، بچپن یاد کروں تو’ نونہال ‘ سے لے ’بچوں کی دنیا‘تک نصابی کتابوں سے زیادہ پسندیدہ رہے ، بلکہ یہ کہا جائے کہ آج بھی ہم’ نونہال‘ ،’ تعلیم و تربیت‘ اور اشتیاق احمد سیریز مل جائے تو پڑھ لیتے ہیں اور بچپن کا مزہ لے لیتے ہیں ۔ ان کہانیوں کا اپنا ہی مزہ ہے ۔
گھر ہمیشہ ہی بچوں کی تربیت اور ان کی سوچ کو مکمل شکل دیتا ہے ۔ والدین اپنے بچوں کوجو بنانا چاہتے ہیں وہ اس کے لئے محنت بھی کرتے ہیں۔ اچھے اسکولوں کا انتخاب اور ان کی تعلیم کے لئے فکر مند ہونا والدین کے لئے بڑی اہمیت کی چیز ہے ۔ آپ کے بچے وہ ہی کچھ کرتے ہیں جو آپ کرتے ہیں ۔ ان کے ارد گرد کا ما حول ان کی شخصیت سازی میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے ۔
میں یہ سب باتیں اس لئے کہہ رہی ہوں کیوں کہ ہمیں بھی کتاب کی محبت ورثہ میں ملی اور یہی محبت کی کہانی آج بھی ہمارے پورے گھر کااثاثہ ہے ۔ کیا کریں بغیر پڑھے نیند ہی نہیں آتی ۔چاہے کتاب ہو یا کوئی اخبار۔۔۔ لیکن ’زمانے کی ہوا ہمیں بھی لگی ‘۔۔لہذا گاہے بگاہے ’فیس بک‘ بھی کھول لیتے ہیں ۔
آج اس عمر میں سوچیں توجن کتب نے میری سوچ ۔ فکر اور شعور کو پروان چڑھایا ان میں اول نام مختار مسعود کی آواز دوست کا ہے ۔ یہی وہ کتاب تھی جس نے مجھے لوگوں کو سمجھنے میں مدد دی۔ تاریخ میں دلچسپی پیدا کی ۔ پاکستان کے بنے اور ابتدائی تعمیر کو ان کی نظر سے دیکھا غرض کہ اس کتاب نے مجھے مختار مسعود کو خط لکھنے پر مجبور کر دیا اور یہ سلسلہ خط و کتابت کافی عرصے تک چلتا رہا ۔
بی ایس سی کی چھٹیا ں بھی کیا یاد گار چھٹیاں تھیں کہ ٹیوشن کے پہلے پہلے پیسوں سے ہم نے کچھ کتابیں منگائیں ۔ ان میں ’آگ کا دریا‘ اور’ لوح ایام‘ وغیرہ شامل تھیں۔’ سفر نصیب‘ ہمیں مختار مسعود نے خود بھیجی تھی جو ہمارے لئے کسی اعزاز سے کم نہیں ۔
’ آگ کا دریا‘ تو ہمارے سر پر سے گزر گئی لیکن گھر کے قریب ہی شبیر احمد عثمانی لائبریری نے ہمارے شوق کو آبیاری بخشی ۔ یہاں ہمیں قرۃ العین حیدر کی ’ چاندنی بیگم‘ اور’ میرے بھی صنم خانے‘ پڑھنے کو ملیں۔ ساتھ ہی الطاف فا طمہ کو بھی۔۔بلکہ پورا سال ہم نے بس یہ ہی مشغلہ اپنائے رکھا ۔
ساتھ ہی ہم نے رنگون والا کمیونٹی لائبریری کی ممبر شپ بھی حاصل کی۔ عموما لوگ یہاں مختلف کوکنگ کورسز کرنے آتے ہیں لیکن ہم تو صرف کتابوں کے کیڑے نکلے ۔
اس لائبریری نے ہماری کتب بینی کا دائراہ آگے بڑھانے میں ہماری مدد کی اور ہم آنگن سے ہوتے ہوئے سفر ناموں تک پہنچ گئے ۔ کتب بنی ہمیشہ ہی ہمیں حوصلہ دیتی رہی ہے۔ ہمارا میدان ہمیشہ نثر رہا ہے،اچھی شاعری کمزوری ضروری رہی لیکن کبھی پوری پوری غزلیں اور نظمیں یاد نہیں ہو سکیں بلکہ” تجھ پر اٹھیں ہیں وہ ساحر آنکھیں “کو ہم فراز کےکسی مصرعے سے بدل لیں یا اس نظم کو ہی آگے پیچھے کر دیں تو گھر والے تو چیں پیں کرتے ہی ہیں ساتھ ہی فیض بھی تڑپ اٹھتے ہوں گے ۔
آج میں بجا طور پر کہہ سکتی ہوں کہ کتب بینی نے نا صرف مجھے جو کچھ ہوں وہاں پہنچایا ۔ مجھے بولنا سکھایا، سوچ کو نئے رنگ دئیے ۔ کیوں کہ آپ کی گفتگو آپ کی سوچ اور طرز زندگی سے آپ کے مطالعہ آپ کے گھر اور والدین کی تربیت جھلکتی ہی ہے ۔آج اکثر لوگ ہی گلہ کرتے ہیں کہ معاشرے میں کتب بینی کا شوق ختم ہو گیا ہے تو ان تمام حضرات سے گزارش ہے کہ آپ خود کتب بینی کو اہمیت دیں۔ اس کے لئے وقت نکالیں تو دیکھیں کیسے معاشرہ مثبت سمت اختیار نہیں کرتا ۔
ہے تو بہت عامیت بھرا جملہ لیکن ہے سولہ آنے درست کہ جس معاشرے میں کتب بینی مہنگا سودا بن جائے اور قوم جوتوں پر ہزاروں روپے خرچ کر دے تو اس قوم کو جوتوں کی ہی ضرورت ہوتی ہے۔