تحریر : اختر سردار چودھری
کمرے میں موجود بستر پر ایک شخص لیٹا ہوا تھا بیمار اور کمزور تھا ،اس کے رخساروں کی ہڈیاں ابھرآئی تھیں اور گال اندر کی طرف دھنس گئے تھے۔ اس کا کھلتا ہوا رنگ بیماری کی وجہ سے اور نکھر گیا تھا۔ بستر مرض پر لیٹے ہوئے یہ مریض بانی پاکستان بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح تھے۔ان کے اسی رنگ روپ ،لمبے قد ، پر مغز بحثوں نے کبھی رتی جناح کو اتنا متاثر کیا کہ وہ انہیں پسند کرنے لگیں تھی ۔رتی جناح 20 فروری 1900ء کو بمبئی میں پیدا ہوئیں۔ قائداعظم محمد علی جناح ان کے والد سر ڈنشا پیٹٹ کے دوستوں میں شامل تھے ۔ ان کی شخصیت نے رتی کو اس قدر متاثر کیا کہ ان کی قربت محبت میں بدل گئی۔ 18 اپریل 1918ء کو رتی نے بمبئی کی جامع مسجد کے امام مولانا نذیر احمد کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلیا۔ ان کا اسلامی نام مریم رکھا گیا، اگلے دن وہ قائداعظم محمد علی جناح کے عقد میں آگئیں۔لیکن آج اس خوش لباس کے بال بکھرے ہوئے تھے اور ان میں سفید،چاندی کی طرح چمک رہی تھی۔ چہرے پہ جھریاں تھیں ۔ان سب کے باوجود اس کا چہرہ باوقار اور پر جلال تھا۔ آنکھوں چمک تھی اور ہونٹوں پر ہلکی سے مسکراہٹ ۔نرس اس کا ٹمپریچر نوٹ کر رہی تھی ۔نرس نے تھرما میٹر سے ٹمپریچر نوٹ کیا تو قائد اعظم کی گونجی ۔ میرا ٹمپریچر کتنا ہے؟ سر! یہ میں صرف ڈاکٹر کو بتا سکتی ہوں۔ نرس نے مضبوط لہجے میں جواب دیا۔ مگر میں اپنا ٹمپریچر معلوم کرنا چاہتا ہوں۔
قائد اعظم نے اصرار کیا۔ نرس ایک لمحے کو ہچکچائی ۔کیونکہ یہ اصرار کسی معمولی آدمی کا اصرار نہیں تھا۔بانی پاکستان ،ملک کے گورنرجنرل کا تھا ۔جس سے عوام شدید محبت کرتی تھی ۔یہ ملک کا بہت بڑا بلکہ سب سے بڑا آدمی تھا۔ لیکن اس کے باوجود اس نرس نے اصولوں پر سمجھوتا نہیں کیا اور اپنے موقف پر ڈٹی رہی۔ سوری سریہ میں آپ کو نہیں بتا سکتی۔ اس نے کہا اور تیزی سے کمرے سے باہر نکل گئی۔کمرے میں مریض کی بہن فاطمہ جناح بھی موجود تھی۔ عظیم قائد مسکرایا اور اپنی بہن کی طرف رخ کر کے بولا۔ میں اس قسم کے لوگوں کو پسند کرتا ہوں۔ جو خوف زدہ ہونے سے صاف انکار کردیں۔ جن کی زندگی کا ہر لمحہ اور پہلو اصولوں کی پاسداری میں گزرا۔وہ جہاں اصولوں کی پاسداری دیکھتے اسے سراہتے تھے۔اسے پسند کرتے تھے۔پاکستان کے قیام کے لیے قا ئد اعظم نے کسی چیز کی پروا نہیں کی ۔نہ ا پنے آرام کی نہ غذا کی نہ دواکی نہ صحت کی۔بس ایک مقصد تھااور اس مقصد کی خا طر انہوں نے دن رات ایک کیا ہوا تھا۔
جب یہ مقصد پورا ہو گیا تو بالا شبہ وہ بہت تھک چکے تھے ۔بیماری نے ان کو اندر سے گھن کی طرح کھا لیا تھا ۔لیکن انہوں نے اپنی بیماری کسی پر ظاہر نہ ہونے دی تھی یہ کمزوری اگر مخالفین پر عیاں ہو جاتی توجو ان کا مقصد تھا اسے نقصان کا ندیشہ تھا ۔کمزوری نے انہیں ہڈیوں کا ایک پنجربنا دیا تھا۔پاکستان بننے کے بعد قائد اعظم کو زندگی کی مہلت بہت کم ملی تھی۔ صرف ایک سال اور چھبیس دن۔ یہ مختصر عرصہ بھی ایسا جس میں بیماری اور کمزوری اپنے عروج پر تھی۔ لیکن یہ بات بڑی عبرت انگیز ہے ۔بڑی حیر ت انگیز ہے ،بڑی سبق آمیز ہے کہ اس ملک کے بڑے سے بڑے لیڈر نے اب تک زیادہ سے زیادہ عرصے میں ،وسائل و اختیارات ہوتے ہوئے بھی پاکستان کے لئے پاکستان کی عوام کے لیے اتنا کام نہیں کیا جتنا قائد اعظم نے اتنی مختصر سی مہلت میں کیا۔
محترمہ فاطمہ جناح اہنے بھائی کو پیار سے” جن “ہی کہا کرتی تھیں ۔اور انہوں نے ایک جن کی طرح ہی ملک و قوم کے لیے اس مختصر وقت میں کام کیا ۔آج وہ جن بستر مرگ پر تھا لیکن وہ پریشان نہیں تھا ۔ڈاکٹر ان کے مخلص آرام کے لئے بار بار اصرار کرتے رہے لیکن یہ اصرار وہ ہمیشہ مسکرا کر ٹال دیتے تھے۔ ایک دفعہ انہوں نے ڈاکٹر کے زیادہ اصرار پر کہا۔ کیا تم نے کبھی سنا ہے کسی جنرل نے چھٹی کی ہو جب اس کی فوج میدان جنگ میں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہو۔30 اکتوبر1947١ء کی یونیورسٹی اسٹیڈیم لاہور میں نے انہوں نے کہا اس جدوجہد کے ساتھ ساتھ اپنا حوصلہ بر قرار رکھئے ۔موت سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہمیں پاکستان اور اسلام کی وقار کے تحفظ کی خاطر موت کو جرات کے ساتھ گلے لگانا چاہیے ہمیںاپنا فرض ادا کرتے رہنا چاہیے اور خدا پر مکمل بھروسہ رکھنا چاہیے ۔روئے زمین پرکوئی ایسی طاقت نہیں جو پاکستان کو ختم کر سکے یہ ہمیشہ قائم رہنے کے لئے بنا ہے۔
یکم جولائی کو کراچی میں اسٹیٹ بینک کا انہیں افتتاح کرنا تھا۔ ڈاکٹروں نے انہیں سفر اور تقریر سے منع کیا مگر قائد اعظم کا کہنا تھا کہ یہ ہماری اقتصادی اور معاشی خوش حالی کا سوال ہے میں ضرور جائوں گا انہوں نے پروگرام کے مطابق اسٹیٹ بینک کا افتتاح کیا تقریر بھی کی مگر اس عالم میں کہ ان کی آواز بمشکل نکل رہی تھی اور وہ رک رک کر کھانس کر تقریر کر رہے تھے۔7جولائی کو انہیں پھر کوئٹہ لے جایا گیا۔21 جولائی کو طبعیت سنبھلتی نہ دیکھ کر لاہور کے نامور فزیشن ڈاکٹر کرنل الہی بخش کو کوئٹہ بلوا لیا گیا۔ معائنہ کے بعد معلوم ہوا کہ قائد کے پھیپھڑوں میں انفکشن ہے اور انہیں ٹی ۔بی ہو چکی ہے۔ مکمل آرام ان کی صحت کا تقاضا تھا مگر یہ تقاضا انہوں نے کبھی پورا نہیں کیا۔
اسی عالم میں پاکستان کی پہلی سالگرہ آئی اور انہوں نے قوم کے نام پیغام خود تیار کر کے جاری کیا۔اگست کی 27 کو عیدالفطر تھی۔ اس موقعہ پر ان کا پیغام ان کی آخری تقریر ثابت ہوئی۔ قائد اعظم کے آخری ریکارڈ شدہ الفاظ تھے۔صرف مشترکہ کوششوں اور مقدر پر یقین کے ساتھ ہی ہم اپنے خوابوں کے پاکستان کو حقیقت کا روپ دے سکتے ہیں۔ میرے پیغام کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر پاکستانی کو دیانت داری خلوص اور بے غرضی سے پاکستان کی خدمت کرنی چاہیے۔
یکم ستمبر کو ان پر بیماری کا حملہ ہوا اور 5 ستمبر کی شام کو انہیں نمونیہ ہوگیا۔ دس ستمبر کو ڈاکٹر کرنل الٰہی بخش نے محترمہ فاطمہ جناح کو یہ دہشت ناک اطلاع دی کہ قائداعظم اب چند دنوں کے مہمان ہیں۔ 11 ستمبر 1948 کو انہیں کراچی لایا گیا۔ رات کے تقریباً ساڑھے نو بجے ان کی طبیعت اچانک شدید بگڑ گئی۔ چوٹی کے ڈاکٹر اپنی بھر پور کوشش کرتے رہے لیکن دس بج کر پچیس منٹ پر وہ دل ہمیشہ کے لئے بند ہو گیا۔ جو حب الوطنی سے لبریز تھا ۔با بائے قوم چل بسے اور مسائل میں گھری ہوئی قوم یتیم ہو گئی۔ یہ خبر پوری ملک میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ روتے ہوئے لوگوں اور اور بین کرتی ہوئی عورتوں کا ایک سیلاب تھا۔ جو گورنر ہائوس کی طرف امڈ رہا تھا جہاں ان کے قائد کا جسد خاکی دیدار کے لئے موجود تھا۔
اسی رات بولٹن مارکیٹ کراچی کے قریب ایک ہجوم کو ایک غم زدہ شخص نے آکر یہ اطلاع دی کہ قائد اعظم کا انتقال ہو گیا لوگ جیسے سکتے میں رہ گے۔اس سے پہلے کہ وہ اس سے مزید تفصیل پوچھتے ایک شخص نے آگے بڑھ کر اجنبی کے چہرے پر زور دار طمانچہ رسید کیا اور کہا کیاکہتا ہے؟ لمحہ بھر کو وہ اجنبی حیران رہ گیا پھر اس کی آنکھیں بھر آئیں۔ اس نے طمانچہ مارنے والے کی جانب اپنا دوسرا گال بڑھاتے ہوئے کہا۔ بھائی اس پر بھی طمانچہ مارلو اور مجھے یقین دلا دو کہ قائد اعظم زندہ ہیں۔
پاکستان کے پہلے وزیراعظم اور قائد اعظم کے دست راست نوابزادہ لیاقت علی خان نے 11 ستمبر1948ء کو قوم کے نام اپنے نشری پیغام میں کہا، اللہ تعالیٰ نے قائد اعظم کو ایک ایسے وقت میں ہمارے درمیان سے اٹھالیا ہے جب کہ ہمیں ابھی اپنی قومی بقا کے دشوار ترین مراحل میں ان کی راہ نمائی کی اشد ضرورت تھی۔ ہم کو اس موقع پر اپنے اللہ کے سامنے عہد کرنا چاہیے کہ ہم غیرمتزلزل عزم کے ساتھ اس عظیم مقصد سے وابستہ ہوجائیں گے ، جس کے لیے قائد اعظم نے حصول پاکستان کے بعد خود کو وقف کردیا تھا۔ اور وہ عظیم مقصد یہ ہے کہ ہم اس نومولود مملکت کو عظیم اور طاقت ور ملک بنائیں گے۔
تحریر : اختر سردار چودھری