تحریر: مسز جمشید خاکوانی
پاکستان کے صنعتی مرکز فیصل آباد کے بازاروں میں یوں تو ہزاروں رکشہ ڈرئیور مل جاتے ہیں لیکن ان میں ایک محمد فیاض نامی ڈرئیور انوکھی شخصیت کے مالک ہیں فیاض اپنے لوڈ رکشے پر تاجروں کا کپڑا ہی ایک مارکیٹ سے دوسری جگہ منتقل نہیں کرتے بلکہ اپنے گاہکوں کو زندگی کے مختلف پہلووں اور ان سے جڑے کرداروں سے بھی ہم آہنگ کرواتے ہیں فیاض رکشہ ڈرئیور ہونے کے ساتھ ساتھ ادیب بھی ہیں اور اب تک بارہ ناولوں سمیت پینتالیس ڈرامے بھی لکھ چکے ہیں ان کے کام کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ انکے اب تک شائع ہونے والے بارہ میں سے گیارہ ناول تین بار شائع ہو کر بک چکے ہیں لیکن انکی مفلسی کا یہ عالم ہے کہ وہ آج بھی وفاقی وزیر پانی و بجلی عابد شیر علی کے بالکل پڑوس میں پونے دو مرلے کے کرائے کے گھر میں زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔
فیاض بتاتے ہیں کہ وہ ایک غریب خاندان میں پیدا ہوئے اور میٹرک کی چالیس روپے فیس نہ ہونے کے باعث اپنی رسمی تعلیم مڈل سے آگے نہ بڑھا سکے تاہم غربت کو کتابیں پڑھنے کے شوق پر حاوی نہیں ہونے دیا محمد فیاض کی تعلیم چھوٹی تو انہوں نے اپنا اور گھر والوں کا پیٹ پالنے کے لیئے ریڑھی پر چھلیاں بیچنا شروع کر دیں چونکہ کتابوں کا جنون کی حد تک شوق تھا اس لیئے تھوڑے تھوڑے پیسے جمع کر کے اس قابل ہو گئے کہ اپنی ایک چھوٹی سی لائبریری بنا لی اور وہاں بیٹھ کر زندگی کی حقیقتوں کو قلم بند کرنا شروع کیا۔
فیاض کا پہلا ناول ”گھنگرو اور کشکول”2005 میں شائع ہوا جس میں انہوں نے طوائفوں کی زندگیوں کے مختلف پہلووں کو قلم بند کیا اور ان کے ساتھ ناروا معاشرتی رویوں کو اپنا موضوع بنایا ہے ان کا سفر گھنگرو اور کشکول سے گیلے پتھر،کاغذ کی کشتی ،کانچ کا مسیحا،تاوان عشق،عین شین قاف،موم کا کھلونا،ٹھیرے پانی،میرا عشق فرشتوں جیسا،لبیک اے عشق، شیشے کا گھر اور پتھر کے لوگ ،لکھ کر ختم نہیں ہوا بلکہ گستاخ اکھیاں کے نام سے ان کا تیرھواں ناول بھی رواں سال کے آخر تک شائع ہو جائے گا وہ کہتے ہیں کہ اپنی چار بچیوں کا پیٹ پالنے کے لیئے ،گھر کا ماہانہ خرچہ چلانے،اور گھر کا کرایہ دینے کے لیئے رکشہ چلانا ان کی مجبوری ہے۔
کتابوں سے مجھے کمائی نہیں ہوتی یہ پبلشر کے لیئے نفع بخش کاروبار ہے ویسے بھی کتابیں پڑھنے کے شوقین اب رہ ہی کتنے گئے ہیں پبلشر میرا ناول شائع کرنے کے صرف پچیس ہزار دیتے ہیں اور خود لاکھوں روپیہ کماتے ہیں فیاض کے بقول بہت سے لوگوں کو دیکھ اور سن کر تعجب ہوتا ہے کہ بارہ کتابوں کا مصنف ہونے کے باوجود وہ رکشہ کیوں چلاتے ہیں لوگوں کو کون سمجھائے میری بچیوں کی روٹی میرے رکشے کی کمائی یومیہ ساڑھے چار سو روپے سے ہی پکتی ہے انہوں نے بتایا کہ وہ بچپن میں عابد شیر علی کے بچپن کے دوست بھی رہے ہیں وہ اور عابد شیر علی اکھٹے کرکٹ کھیلا کرتے تھے لیکن انہوں نے آج تک انکی مفلسی دور کرنے کے لیئے کچھ نہیں کیا عابد نے سیاست میں نام کمایا تو میں نے متعدد بار درخواست کی مجھے کہیں چھوٹی موٹی نوکری دلوا دیں لیکن ہر بار ٹرخا دیا گیا۔
یوں تو فیاض کو اپنے تمام ہی ناول بہت پسند ہیں تاہم ”عین شین قاف ”جس کی اب تک لگ بھگ تینتیس سو کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں وہ اس کو بہترین کاوش قرار دیتے ہیں فیصل آباد میں قائم ایجو کیشن یونیورسٹی میں طلبا کو فیاض ماہی کی زندگی کے بارے میں درس دیا جاتا ہے تعلیمی میدان میں انکی جدوجہد اور محنت سے بھرپور زندگی سبھی کے لیئے ایک اعلی مثال ہے وہ کہتے ہیں یہ ان کے لیئے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ مذکورہ یونیورسٹی میں ایم فل سطع کے طالب علم ان کے کام پر مقالے لکھ رہے ہیں وہ کہتے ہیں تعلیم حاصل کرنے کی تمنا ہو تو یہ گوہر اسکول جائے بغیر بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔
ہر چیز کا ایک ماخذ ہوتا ہے تمنا مسلسل ہو تو کبھی رائیگاں نہیں جاتی جب انسان کسی کھوج میں لگ جاتا ہے تو وہ اس کو پا لیتا ہے اس پر اسرار و رموز کھلتے چلے جاتے ہیںبد قسمتی سے ہمارے ہاںاب ان چیزوں پر کوئی توجہ نہیں ہے ہم ایک سطحی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں جس میں نہ علم کی گنجائش ہے نہ غور و فکر کی بس روٹی کے چکر میں سب گھن چکر بنے ہوئے ہیں میں نہیں جانتی یہ صورت حال ہمیں کہاں لے جائے گی لیکن محمد فیاض جیسے لوگ ہزاروں میں نہیں لاکھوں میں ہیں جن کی صلاحتیں غربت نے نگل لی ہین حکمران صرف اپنے آپ کو سیو کرنے میں لگے ہیں ابھی چھتیس کروڑ روپے قومی خزانے سے جاری کیئے گئے ہیں کہ ان سے جاتی عمرہ کو قلعہ بنایا جائے۔
گیس اور بجلی کے بلوں میں مزید اضافہ کیا جا رہا ہے کیا ہی اچھا ہوتا حکومت عوام کی جیبوں سے لوٹے ہوئے خزانے میں سے کچھ تعلیم پر بھی لگا دیتی ایک وقت تھا جب گلی گلی لائبریریاں ہوتی تھیں لوگ شوق سے کتابیں پڑھا کرتے تھے کتابوں سے ایک قلبی سا تعلق ہوتا تھا دنیا جہان کا ادب لائبریریوں میں مل جایا کرتا اب یہ حال ہے کہ لوگ لائبریری کا نام بھول گئے ہیں چند دن پہلے کچھ بچیوں کوکسی تحقیقی کام کے سلسلے میں سنٹرل لائبریری بہاولپور جانا ہوا تو وہاں کوئی تحقیقی مواد دستیاب نہ تھا ۔یہ ٹھیک ہے نیٹ کی وجہ سے اب کافی سہولت ہو گئی ہے لیکن کتاب کی پیاس اپنی جگہ موجود ہے اس سلسلے میں حکومت کو چاہیئے کہ پہلے کی طرح ہر اسکول اور کالج میں لائبریریاں قائم کی جائیں اور جن اسکولوں کالجوں میں موجود ہیں انکی حالت بہتر بنائی جائے تاکہ علم کی پیاس بجھ سکے۔
تحریر: مسز جمشید خاکوانی