عام طور پر شہر کی افراتفری سے دور دراز علاقوں کی زندگی بڑی پرسکون نظر آتی ہے کیونکہ یہاں بظاہر بہ نسبت دیہاتوں کے سہولیات کا فقدان زیادہ نہیں۔ وہ الگ بات ہے کہ غریب کی زندگی یہاں بھی اجیرن اور وہاں بھی۔ شہروں سے دور علاقوں میں وہ شور شرابہ اور تیزرفتاری نہیں ہوتی لیکن اس پراسرار خاموشی کے پس پردہ ناقابل برداشت محرومیاں بھی چھپی ہوتی ہیں جن کی اصل وجہ وہ وڈیرا شاہی کلچر ہے جو سالہاسال سے بدستور کمزور اور نادار لوگوں پر حاوی دکھائی دیتا ہے جس کے سبب متعدد علاقے پسماندگی کا شکار ہیں۔
وڈیروں کی اولادیں تو شاید باہر جاکر بھی اعلی تعلیم حاصل کرسکتی ہیں لیکن غریبوں کے بچے گاؤں کے مقامی اسکول کی موجودگی کے باوجود بھی حصول علم سے مکمل محروم رہ جاتے ہیں کیونکہ اسکولز کی عمارتیں تو موجود ہیں مگر ان میں پڑھانے کیلئے اساتذہ سرے سے موجود نہیں، کہیں برائے نام موجود ہیں اور جو موجود ہیں وہ سیاسی پشت پناہی کے مزے لوٹ رہے ہیں یعنی حکومتی خزانے سے تنخواہیں تو وصول کر رہے ہیں مگر حاضری کو یقینی بنانا اپنی توہین سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے مستقبل کے چراغ تاریک ہوتے جارہے ہیں۔
بااثر سیاسی شخصیات سمیت وڈیرے بھی یہی چاہتے ہیں کہ عام لوگوں کے بچے اسکول کی تعلیم جیسی سہولیات سے ہمیشہ محروم رہیں کیونکہ اگر نئی نسل تعلیم یافتہ ہوگئی تو پھر ان میں شعور آجائے گا اور پھر وڈیرا ازم کے خلاف کھڑے ہوکر اعلان بغاوت کرتے ہوئے صدیوں سے جاری اس غیر جمہوری اور جاہلانہ رسم و رواج سمیت ووٹ کی اس روایات کو بھی توڑنے کی کوشش کریں گے جس میں ایک گروپ کی شکل میں مقامی سردار، چوہدری، ملک یا خان کے پیچھے سب گاؤں والے کھڑے ہوکر جس امیدوار کو ووٹ دینے کا حکم صادر ہوتا ہے، اسی کے نشان پر مہر لگا دی جاتی ہے نہ کہ خود کی مرضی کے مطابق حق رائے دہی استعمال کیا جاسکتا ہے۔
یہ نظام جمہوریت شاید بڑے شہروں میں بسنے والوں کیلئے تو آزادی اظہار رائے کہلاتا ہو لیکن دوردراز کے پسماندہ علاقوں میں رہائش پذیر افراد کیلئے اس جدید دور میں بھی کسی بدترین آمریت سے کم نہیں۔ بدقسمتی سے خاکسار کا تعلق بھی ڈیرہ اسماعیل خان کے انہی پسماندہ علاقوں سے ہے جہاں پینے کا صاف پانی نایاب تو حصول علم کیلئے معیاری اسکول کمیاب ہیں اور نہ ہی اسپتال۔ البتہ اگر کوئی شخص بیمار بھی پڑجائے تو گاؤں سے 90 کلومیٹر کی مسافت پر دور انہیں شہر کے اسپتال لےجانا پڑجاتا جو کسی امتحان سے کم نہیں۔
اول تو گاڑی کا بندوبست ہی نہیں ہوتا کہ جس پر مریض کو لے جایا جائے اور اکثر اوقات تو ایمبولینس کا کام بھی موٹر سائیکل سے ہی لیا جاتا ہے اور اگر گاڑی کا مسئلہ بھی حل ہوجائے تو بھی سفر اتنا زیادہ اور راستہ اتنا خراب کہ کئی مریض راستے میں ہی دم توڑ جاتے ہیں۔ صدیوں سے ان حلقوں کے اقتدار پر قابض سیاستدان بجائے عوام میں جاکر مسائل سننے اور حل کرنے کے، گاؤں کے ایک وڈیرے کو کچھ لو دو کی پالیسی کے تحت اپنے ساتھ ملا لیتے ہیں اور یوں ان کی الیکشن میں جیت سو فیصد پکی ہوجاتی ہے۔ انہی حلقوں سے نام نہاد اسلام یا تبدیلی پسند سیاسی جماعتوں کے رہنما قومی اسمبلی کیلئے منتخب ہوتے رہے جبکہ خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی میں بھی موجود رہے لیکن مجال ہے جو کسی نے کبھی اپنے حلقے کی عوام کی طرف کوئی توجہ دی ہو یا کبھی کوئی دورہ تک کیا ہو۔ اور اگر کوئی ایک آدھ دورہ کرتے بھی ہیں تو وہ بھی اپنے خاص مقامی وڈیروں پر نظر کرم ہوجاتا ہے اور غریبوں کی فریادیں سنے بغیر ہی غائب ہو جاتے ہیں اور پھر الیکشن میں ہی نظر آتے ہیں۔
دوسری طرف میڈیا میں کام کرنے والے اشخاص بھی انہی کی خوشنودی حاصل کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔
اگر ایسے پسماندہ علاقوں میں کوئی شخص مقامی وڈیروں کی من پسند جماعت کو ووٹ دینے سے انکار کا سوچے بھی تو اس کی اس گستاخی کے بدلے یہ اس پر طرح طرح کے ظلم روا رکھنے میں کمال مہارت رکھتے ہیں جن میں ان کی پشت پناہی یہی ایم این ایز اور ایم پی ایز کرتے ہیں جو انہی لاچار لوگوں کے ووٹ سے منتخب ہوتے ہیں۔ بااثر شخصیات کا کام کسی بے بس کو اپنے غنڈوں سے پٹوانا اور قتل تک کروا دینا ہے تو کسی کو انہی سیاستدانوں کی مدد سے تھانہ کلچر کے تحت جھوٹے کیس میں اندر کروا دینا۔ اور جب ناچیز نے مقامی وڈیروں کے ظلم کے خلاف آواز بلند کی تو ایک پلان کے تحت مقامی وڈیرے نے اپنے دو گھروں میں ڈکیتیاں کروائیں اور پھر کھوجی کتوں کے ذریعے مورد الزام مجھے ٹھہرا دیا گیا۔
چونکہ اس وقت میں زمانہ طالب علمی میں تھا اور زیادہ متحرک بھی نہیں تھا تو انہوں نے مجھ پر ایک بےبنیاد جھوٹا کیس بنوا دیا اور پولیس سے بےحد تشدد بھی کروایا تھا حتی کہ میں کئی روز تک بے ہوش پڑا رہا۔ اسی اثناء میں ایک جرگہ کے تحت میرے خاندان سے تقریبا آٹھ لاکھ روپے سے زائد بےگناہ جرمانہ وصول کیا گیا جو ہم نے قرض لےکر اور گھر کا سب کچھ بیچ کر بمشکل ادا کیا۔ یہ سب اس لیے کیا گیا تاکہ وڈیرا اِزم کے خلاف اٹھنے والی آواز کو دبایا جاسکے۔
لیکن کچھ عرصہ خاموشی اختیار کرنے بعد اب پھر ایک مرتبہ وڈیروں، اور سیاستدانوں نے مل کر ان لوگوں کو نشانہ بنانا شروع کردیا ہے جنہوں نے انکی پسندیدہ سیاسی جماعت کو ووٹ نہیں دیئے یا انکار کی کوشش کی۔ شاید الیکشن جو قریب آگئے ہیں۔ ان لوگوں کے خلاف جھوٹے اغوا کے کیس کرکے منتخب ارکان اسمبلی کے دباؤ پر پولیس سے جھوٹی ایف آئی آر تک کٹوائی گئی اور ان بے گناہوں کو اب بھی عدالتوں میں گھسیٹا جارہا ہے۔ کیونکہ وڈیرا اِزم کا تعلق زمیندار طبقے سے ہے اور اراضی کی وسیع تعداد ہونے کے سبب پانی والے زیادہ ندی نالے بھی انہی کے رقبوں سے ہوکر گزرتے ہیں جبکہ دوسرے لوگ چند کنال یا مرلوں کے مالک ہیں یا پھر اپنی زمین نہ ہونے کی وجہ سے کسی وڈیرے کی زمینوں پر مزدور (مزارع) ہیں تو ایسا بندہ اول تو ان کے خلاف بول ہی نہیں سکتا۔ اگر ان میں سے کوئی اپنی خود داری کا جوش دکھائے بھی تو اس کی یا تو زمین کی طرف آب پاشی کیلئے جانے والا پانی بند کردیا جاتا ہے یا پھر رقبہ سے فارغ کردیا جاتا ہے؛ اور جب تک وہ اپنی گستاخی پر شرمندہ نہیں ہوتا اور پاؤں پکڑ کر معافی طلب نہیں کرتا، تب تک اسے یونہی ظلم سہنے کی عادت اپنالینی چاہیے۔
گزشتہ دنوں کی ہی بات ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے پسماندہ چڑا پولاد میں عنایت اللہ (عرف عنایتی) ولد محمد رمضان قوم کھوکھر کو دن دہاڑے وڈیروں نے جوتوں کا ہار پہنا کر اس کے ساتھ اس کے بوڑھے والد، اہلیہ اور بوڑھی والدہ سمیت ننگے سر اور ننگے پاؤں بااثر شخص کی رہائش گاہ پر لے جاکر معافی منگوائی۔ بااثر شخص اس بدلے رقم اور ونی کا مطالبہ کررہا جو اس خاندان کیلئے ناممکن تھا مگر پھر یہ سب کچھ کیا گیا جو انتہائی قابل مذمت ہے۔ قصور یہ تھا کہ اس نوجوان نے بااثر شخص کے گھر جاکر اپنا قرضہ کیوں مانگا۔ قصہ مختصر یہ کہ نوجوان اپنی رقم مانگنے مقامی بااثر شخص کے گھر گیا لیکن اس کی بیوی نے اس پر اپنی بیٹی کے ساتھ ناجائز تعلقات کا الزام لگا دیا اور گھر میں بند کردیا۔
جب مجھے اس معاملے کا علم ہوا تو میں مذکورہ شخص کے پاس پہنچا۔ اسے حوصلہ دیا اور ویڈیو بیان دینے کو کہا مگر اس نے وڈیروں کے خوف سے آف اسکرین جو کچھ بتایا وہ انتہائی درد بھری کہانی ہے۔ اس کے بعد مقامی وڈیرے کو، جس نے یہ فیصلہ کیا تھا، میں نے خود فون کیا۔ اس نے دھمکی دی کہ یہ خبر شائع نہیں ہونی چاہیے مگر میں نے ہمت پکڑی اور دوسرے دن انگریزی اخبار میں خبر چھپ گئی۔
خبر شائع ہوتے ہی دو گھنٹے کے اندر پولیس پہنچی مگر مذکورہ شخص کے بوڑھے والد کو بھی ساتھ لے گئی۔ بےبس خاندان پر دونوں طرف سے دباؤ بڑھا تو انہوں اس واقع کی تردید کردی اور یوں بااثر شخصیات کے خلاف تفتیش ہی نہ ہوسکی اور وہ آج بھی آزاد گھوم رہے ہیں۔ انہی وڈیروں نے شہر خموشاں (قبرستان) کو بھی نہ چھوڑا اور کئی ایکڑ اراضی پر کماد کی فصل کاشت کردی جو سالہاسال سے بدستور چلی آرہی ہے۔ مقامی لوگوں نے متعلقہ محمکے میں درخواستیں دیں مگر یہ ناجائز قبضہ آج تک ختم نہیں کرایا جاسکا۔
2013 میں جب خیبر پختونوا میں تحریک انصاف کی حکومت آئی تو ہمیں امید تھی کہ یہ جماعت بجائے سرمایہ دار کے عام آدمی کو زیادہ ترجیح دے گی لیکن یہ خواب بھی خاک میں مل گیا۔ گزشتہ دنوں کی ہی بات ہے جب ہمارے گاؤں سے کوئی 25 کلومیٹر کے فاصلے پر گرہ مٹ میں شریفاں بی بی نامی نوجوان لڑکی کو وڈیروں نے پولیس کی ملی بھگت سے سر بازار برہنہ کردیا۔ یہ وہی پولیس ہے جس کی غیر جانبداری کے اور غیر سیاسی ہونے کے بےبنیاد اور جھوٹے دعوے کیے جاتے ہیں۔ عمران خان صاحب اور ان کی صوبائی حکومت نے بھی شریفاں بی بی کیس پر وہ توجہ نہیں دی جو ان کا آئینی اور اخلاقی فرض بنتا تھا۔ موصوف ان دنوں تونسہ شریف میں چند کلومیٹر کے فاصلے پر آئے مگر اتنی زحمت بھی نہیں کی کہ مذکورہ خاندان تک چلے جائیں تاکہ داد رسی کی جاسکے۔ شاید اس کی اصل وجہ ان کے چہیتے المعروف گنڈا پوری شہد والے صوبائی وزیر علی امین گنڈاپور پر وہ الزامات تھے جو شریفاں بی بی کے خاندان نے لگائے تھے۔
چونکہ حکومتیں بنائی دیہاتوں اور گرائی شہروں میں جاتی ہیں تو ہمارے نام نہاد جمہوریت کے علمبردار سیاستدان بھی یہی چاہتے ہیں کہ وڈیرا اِزم کلچر ہمیشہ قائم رکھا جائے تاکہ وہ ہمیشہ اقتدار کے مزے بہ آسانی لوٹ سکیں، وہ چاہے سندھ، بلوچستان، خیبر پختونوا اور پنجاب کیوں نہ ہو۔ اگر وڈیرا شاہی اور پسماندگی میں جکڑے عوام کو اس بے رحم کلچر سے آزادی اور نجات دلوانے کے ساتھ ساتھ انہیں ترقی یافتہ بنانا مقصود ہے تو سب سے پہلے ہمارے میڈیا کو چاہیے کہ ایسے علاقوں کیلئے باقاعدہ تعلیم یافتہ لوگوں کو نمائندہ خصوصی مقرر کیا جائے جو ان جاہلانہ رسوم و رواج کے حامی نہیں بلکہ بالکل مخالف ہوں؛ اور بجائے بڑے شہروں کے چھوٹے چھوٹے مسائل لمحہ بہ لمحہ دکھانے کے کچھ توجہ چھوٹے شہروں اور بالخصوص دور افتادہ علاقوں کے بڑے بڑے مسائل کو اجاگر کرنے میں بھی دیں؛ اور وڈیروں کے بےجا ظلم و ستم کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو بلند کریں تاکہ ان دیہاتوں، قصبوں اور پسماندہ علاقوں سے بھی غگ، ونی، سرداری کلچر اور تعلیم و صحت وغیرہ جیسے اصل مسائل کا مکمل خاتمہ ممکن بنایا جاسکے۔