تحریر: شاہ بانو میر
عام پاکستانی جس کا شعور 2011 سے جگانے کیلئے بہترین انداز میں اسکی سیاسی تربیت شروع کی گئی۔ جس کو معیاری تعلیم اچھی صحت معقول روزگار بڑھاپے میں مناسب ماہانہ وظیفہ ٬ رعایا کی جان و مال کا تحفظ اس کے معاشرتی ریاستی حقوق کا ادراک دیا گیا۔ جس کو جگایا گیا کہ اٹھو اس ملک میں سب ہے صرف ظالم حاکم کو درست کرنا ہے۔ مخالف سیاسی رہنماؤں نے ان تمام نقاط کوازبرکر لیا اور منصوبہ بندی شروع کردی٬ اب شہریوں کو حقوق ملنے چاہیۓ معیاری زندگی گزارنے کیلئے بہترین نظام ہونا چاہئے اس پر عمل درآمد شروع کر دیا گیا٬ تاریخی معاہدہ پاک چائنہ کاریڈور کی صورت اس ملک کی قسمت کو بدلنے کیلیۓ شروع کیا جا چکا ہے٬ اس منصوبے کا سب سے بڑا فائدہ عوامی معیار زندگی کے روشن پہلو ہیں٬ کیا مرکزی شہر کیا دور دراز گاؤں کیا نامور قصبے کیا گمنام پہاڑی علاقے سب کے سب اس سے مستفید ہوں گے٬ پوراملک نئی سڑکوں سے وہاں ذرائع آمد و رفت سے ترسیلی سامان سے٬ ان کیلئے بنائے گئے مقامات مختلف مراکز جہاں روزگار کے بے شمار مواقع میسر آئیں گے جہاں ہر پاکستانی کیلئے حصہ ہوگا۔
ایسے ہی کسی عظیم الشان منصوبےکی اس ملک کو اشد ضرورت تھی کہ جس کا فائدہ ماضی کی طرح مخصوص افراد کو نہ ہو بلکہ ترقی کا سفر نیچے سے اوپر تک اپنے اثرات کو ظاہر کرے ٬ وہ ہزاروں مائیں جو اپنی اولادوں کو کچھ نہ دے سکیں بچے آوارہ ہوئے غیر انسانی سرگرمیوں میں مشغول ہوئے٬ انسانیت کے مقام سےگرکر صرف پیٹ کی خاطر قتل عام کرتے رہے آگ لگاتے رہے ٬ جلاؤ گھیراؤ کرتے رہے موت کا رقص اس ملک میں کتنی سفاکی سے رچایا گیا ہم سب جانتے ہیں٬ اگر اب اللہ پاک نے موقعہ دیا ہے۔ کہ باقیماندہ نوجوان نسل کو مثبت انداز میں منفی اثرات سے بچاکر کارآمد بنایا جائے تو بد نصیبی سے سامنے سیاست دانوں کی سیاست آڑے آرہی ہے٬ آج پاکستان کا عام جاگا ہوا شہری سوال کر رہا ہے۔ کہ کیا اس کی ترقی کسی مخصوص انسان سے مربوط ہے؟ کیا اگر اس رہنما کی بتائی ہوئی باتوں پر کوئی دوسرا عمل کر کے عام شہری کی زندگی کو بہترین بنا نے کیلئے سرگرم عمل ہے تو کیا یہ غلط ہے؟ کیا عام شہری کو محض اس لئے اس خوبصورت کامیابی سے دور کر لینا چاہیۓ کہ سیاست دان کوئی اور ہے؟ کسی اور کا دورِ حکومت ہے؟ بھوک کیا ہے ؟ غربت و افلاس کیا ہے؟ بغیر دوا کے سسک سسک کر تڑپ تڑپ کر مرنا کیا ہے؟۔
اگر ان مسائل سے یہ رہنما گزرے ہوتے تو اپنے دور اقتدار کو اس کامیابی سے مشروط نہ کرتے بلکہ اس موقعہ کو پاکستان کی عظمت کا موڑ سمجھتے ہوئے قدرت جس کے سر پے یہ سہرا سجا رہی ہے اس کو اپنی حمایت کا اعلان کر کے بیرونی دشمنوں کو کمزور کرتے۔ کیا یہ سیاستدان نہیں جانتے؟ چائنہ کاریڈور کے تعاقب میں لگی ہوئی بین القوامی طاقتوں کی سازش پاکستان کی عوام کے روشن مستقبل کو تاریک کرنے کیلئے نہیں ہے؟ کیا سیاستدان یہ نہیں دیکھ رہے کہ اس ملک کے شہروں میں موجود عام گھروں سے کس طرح بارودی مواد ٹنوں کے حساب سے نکل رہا ہے٬ جو اس ملک کو اس کے شہریوں کو موت کے منہ میں دھکیلنے کیلئے تھا ٬ اس ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر کو کس طرح پراسرار آگ اپنی جکڑ میں لیتی ہے اور معاشی میدان کو جلا کرخاکسترکر دیتی ہے٬ ہزاروں لوگ پل بھر میں بیروزگار ہو کر سڑک پر آجاتے ہیں٬ ایسے اجڑے کمزور ملک میں جب چائنہ جیسا دوست آپ کے ملک کی دہائیوں پر مبنی فاقہ کشی کو خوشحالی میں تبدیل کرنے کیلئے آگے بڑہتا ہے٬ تو وہ بھی سرمایہ کاری پر ہچکچاتے ہوئے دکھائی دیتا ہے۔
ایسے میں جنرل راحیل شریف ملک کے چپے چپے کی صفائی کا عزم کر کے میدان کار زار میں اترتے ہیں اور چین کا ڈولتا ہوا اعتماد بحال ہوا ٬ اور پہلی بار وہ پوشیدہ طاقتیں گرفت میں آئیں جو دراصل سیاست کی آڑ میں اس ملک کو بارود کا ڈھیر بنا رہی تھیں ۔ اور ایسی گرفت کہ قرآن پاک میں اللہ کے ارشاد کے مطابق “” دن کوئی ذی نفس کسی کی سفارش نہ کر سکے گا “” کا عنوان دکھائی دئیے ٬ ماضی میں دو بڑی سیاسی جماعتیں اور دیگر کئی اہم جماعتیں آپس مک مکاؤ سے اس ملک کو اسکی عوام کو مارتی رہی جلاتی رہی٬ لیکن چائنہ کاریڈور جیسا منصوبہ وہ بھی پاکستان جیسے لرزیدہ ملک میں غیر مستحکم ملک میں قدرت کی خاص عطا ہے اور بلا شبہ کچھ لوگوں کی دن رات محنت خاص طور سے افواج پاکستان کا سنہرا شاندار کردار اس کی کلیدی صفت ہے٬ گرفت میں جکڑنے لگے وہ تمام منفی عناصر جو اس ملک کو دیمک لگا رہے رہے تھے٬ برسر اقتدار جماعت ویسے تو شائد ماضی کی طرح سودے بازی کر لیتی اور “” مفاہمتی “” عمل سے 5 سال نکال جاتی ٬ مگر اس بار جنرل راحیل شریف نیا پاکستان بنانے نکلے ہیں ٬ ایک ادارے کا سربراہ جب روزانہ کی بنیادوں پر اس ملک پر نثار ہوتے اپنے جوانوں کو دیکھتا ہے تو ہر وجود ہر شہید ہوتا بیٹا اس رہنما کو ویسا ہی درد دیتا ہے۔
جیسے باپ کواپنے جوان بیٹے کی لاش ٬ 142 معصوم فرشتوں کی قربانی اس عزم کو اس بار دوبالا کر گئی کہ ملک پر کوئی سودے بازی نہیں ہوگی٬ سیاست نے نئی کروٹ لی٬ اب کسی کی کوئی سفارش دوسرے کو نہیں بچا سکے گی کسی کے ملک دشمن سرگرمیوں کے ساتھ پکڑے جانے پر کوئی عذر قابل قبول نہیں ہوگا٬ اور راحیل شریف کے اس غیر جانبدارانہ انصاف کے حصول کے آغاز پر سیاست نے جیسے رخ موڑ لیا٬ کل کے حلیف اپنے سیاسی حمایتیوں کو پابند سلاسل ہوتے دیکھ آج سیاسی حریف بن گئے۔ مفاداتی دوستیاں دشمنیوں کی صورت سامنے آنے لگیں تو ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کرنے والے کمزور مفادات ایک دوسرے کے ساتھ سر جوڑ کے بیٹھے عوام ہار گئی سیاسی مقاصد جیت گئے اور عوامی ترقی کے نعرے دم توڑ گئے٬ سب متحد و متفق ہو گئے آپس کے تمام موجودہ سابقہ اختلافات کو پشت پر رکھ دیا اور سب کسی موقعہ کی تلاش میں رہنے لگے ٬ پانامہ لیکس کا موقعہ ملا یہیں سے مضبوط سیاستدانوں نے کمزور سیاست کا تاریخی آغاز کیا۔۔
دوسری طرف چائنہ کاریڈور سے شاندار عظیم پاکستان کی ابتداء ہوئی ٬مگر موجودہ حکمران پر ماضی میں کئی سنجیدہ الزامات تھے ٬ انہوں نے گزشتہ دور کی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے ندامت کا برملا اظہار کیا اور وہ اپنے اس دور میں قوم کے ساتھ ملک کے ساتھ بہت مخلص دکھائی دے رہے ہیں٬ اخلاص اللہ کو پسند ہے اور وہ انسان کی سابقہ ہر کوتاہی کو معاف فرما کر اسے انسانیت کی بھلائی کا موقعہ دیتا ہے٬ مگر افسوس ہم انسان بلکہ شائد سیاست دان نہیں دیکھتے کہ اس ملک کا اور بھوکوں مرتی عوام کا کتنا بڑا فائدہ ہے؟ ہم جتنے مرضی بلند وبانگ دعوے کرنے والے تحریکی رہنما ہوں ٬ باری لینے اور اقتدار پر قابض ہونے کیلئے ہم تحریکی سوچ کو مشکل سمجھتے ہوئے رد کرتے ہیں اور آسان راستہ اپنا لیتے ہیں اور سیاسی روایتی رہنما بن جاتے ہیں ٬ مگر اس بار عوام کو مبارک ہو کہ اس سیاسی جماعتی طوفان کو کہیں کوئی پزیرائی نہیں دے رہی ہے۔۔
عوام سیاستدانوں کی طرح اب اپنا فائدہ چاہتی ہے٬ وہ اتنی باشعور ہو چکی ہے کہ اب وہ اپنی کامیابی کو کھونا نہیں چاہتی ٬ پے درپے بدلتے بیانات اور سیاسی کروٹ انہیں برملا بتا رہی ہے کہ ان کا مفاد ان کا ان کی نسلوں کا بہترین مستقبل کہیں کسی سیاسی رہنما کی سوچ میں نہیں ہے٬ سیاسی ڈائننگ ٹیبلز آجکل افطار کے خوشنما پکوانوں سے لبریز ہیں٬ جہاں حکمت عملی طے کی جا رہی ہے٬ عوام افطار کیسے کر رہی ہے یہ ان کی سوچ میں دور دور تک نہیں٬ ہر اہم نازک ایشو اس وقت صرف اس متحدہ اپوزیشن کو کیسے قائم رکھنا ہے اس میں ضم ہوتے جا رہے ہیں٬ صرف ایک سوچ ہے کہ اگر چائنہ کاریڈور تکمیل کے مراحل طے کرتا گیا تو 2018 میں ہمارا کہیں سیاسی وجود نہیں ہوگا٬ افسوس صد افسوس میں موجودہ حکومت کی نمائیندہ نہیں ہوں نہ ہی میری سیاسی وابستگی ہے۔
مگر پاکستانی ہوں پاکستان کی ترقی اس کی فاقہ زدہ عوام کی خوشحالی کا یہ سیاسی قتل عام نہیں دیکھا جاتا٬ کاش اس سیاسی مفاہمت سے پہلے ایک بار یہ سب جا کر دیکھتے کہ سرحدوں پر جان دیتے جوانوں کے گھروں میں وہ بچھی ہوئی صف ماتم تو شائد اس عارضی مفاہمت سے باز رہتے٬ ملک کا عوام کا فائدہ مقدم رکھتے ٬ عوام تھک چکی ہے کبھی کوئی چور کبھی کوئی دوست؟ اب عوام شمولیت نہیں کرنا چاہتی اس سیاسی لال بجھکڑ مفاہمت میں ٬ عوام کی چمکتی قسمت پے بیرونی سازشوں کے ساتھ ساتھ اندرونی شورش بھی حائل ہو رہی ہے۔ خُدارا ذاتی مسائل جماعتی اختلافات سیاست کا طوق گردن سے اتار کراس ملک کو اس کی عوام کو پہنچنے والے اس فائدےکو سراہیں۔
تا کہ بیرونی دشمن نفسیاتی طور پے پسپا ہو٬ سیاسی اودھم بیرونی دشمنوں کو ہمارے کمزور ہونے کا صاف پیغام دے رہا ہے٬ پاکستانی عوام دیکھ رہی ہے جنرل راحیل کسی چٹان کی طرح ڈٹ کر افغانستان ہو یا بھارت یا امریکہ سب کو سر عام تنبیہہ کر رہا ہے کہ یہ وہ کمزور پاکستان نہیں ٬ مستقبل کا مضبوط معیشت کا علمبردار ملک ہے ذرا سوچ کر آنکھ اٹھانا دوسری جانب سیاسی برسر اقتدار جماعت بھی اپنی سچائی اور کارکردگی پر اعتماد کرتے ہوئے کسی کمزور سیاسی اتحاد کو خاطر میں نہیں لا رہی
وجہ ہے عوام کا باشعور خاموش ساتھ۔
تحریر: شاہ بانو میر