تحریر : لقمان اسد
کیسی زندگی ہم بتا رہے اور جی رہے ہیں وطن عزیز کا ہر پیدا ہونے والا بچہ بھی مقروض ہی پیدا ہوتا ہے سر تسلیم خم کہ دہشت گردی کے ناتمام آسیب کا سامنا ہم کو ہے ملک کے اندر کا ایک طبقہ بہت بڑا مجرم ہے کہ وہ بیرونی ملک دشمن عناصر سے مکمل ہم آہنگ اور اُن کے ناپاک مذموم مقاصد کی تکمیل اور حصول کیلئے سر گرداں ،مگر کب ہماری اشرافیہ اور حکمران طبقہ نے کبھی ایسے عناصر کی سرکوبی کیلئے کونسی جامع منصوبہ بندی کی ؟دلوں کو دہلا دینے والے واقعات کے کچھ دن بعد کی برق رفتاری کے بعد سبھی چین کی نیند کو ہی ترجیح دیتے ہیں مجال کہ سنجیدگی سے یا دل جمعی سے پر عزم ہو کر ایک مقصد کو لیکر ہمارے سیاسی رہنما تادیر کبھی اتفاق سے مسائل کے حل کی خاطر سیدھی راہ چلے ہوں سب میڈیا کے سامنے آکر بڑے بڑے دعوے کرنے اور چونکا دینے والے انکشافات کو سامنے لانے کے ماہر اور اسی عمل کو تمام مسائل کے حل کا نسخہ کیمیاگویا وہ تصور کرتے ہیں چائنا کی مثال ہمارے سامنے ہے افیون ایسی لت کا شکار اُس قوم کو مائوزے تنگ نے عافیت کی راہ دکھائی تو وہ اس صراط مستقیم سے کبھی ہٹتے دکھا ئی نہ دئے تاآنکہ دنیا اس قوم کی بے نظیر ترقی پر رشک کرتی اور اُس کی نقال نظر آتی ہے۔
امریکہ اپنی کھلی ناانصافیوں اور چالاکیوں کے سبب گو دنیا کا تھانیدار خود کو سمجھتا ہے لیکن بلاشبہ امریکہ اس خاموش قوم جو دن رات معاشی ترقی کے عمل میں برق رفتاری سے محو سفر ہے سے کہیں پیچھے رہ گیا ہے ۔ سانحہ پشاور مادر گیتی پر ظلم و جبر کی ایک بدترین مثال جہاں ہمارے لئے رقم کر گیا وہاں ہمیں اس غمناک سانحہ سے اپنے لئے راہ نجات ڈھونڈنے کی سعی کرنی چاہیئے اس المناک سانحہ کو ہمیں بطور قوم دشمن کا یک ایسا پیغام سمجھنا چاہیئے کہ جس کے بعد بھی اگر ہم ایک قوم بن کر اپنے آگے کے سفر کو طے کرنے کی حکمت عملی اختیار نہیں کرتے تو پھر اللہ گواہ تاریک مستقبل کے سوا ہمارے مقدر میں کچھ نہیں لکھا اس واقعہ کے بعد جس انداز میں تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین اور عسکری قیادت ایک پیج پر نظر آئے اسی اتفاق سے وطن عزیز کو درپیش تمام مسائل کے حل کی خاطر اُنہیں ہمیشہ کیلئے ایک ہی پیج پر متحد ہو کر چلنے کا عہد بھی کرنا چاہیئے سبھی اگر یہی جتاتے ہیں کہ اُن سے بڑا وطن پرست دوسرا کوئی نہیں تو پھر کیا بڑا ہے سبھی اگر جذبہ حب الوطنی کے پیش نظر ملک و ملت کے عظیم تر مفادات کے حصول کو ممکن بنانے کیلئے ایک دوسرے کے ہاتھ سے ہاتھ ملا کر چلیں اور تاریکی میں ڈوبتے مستقبل کو روشنی سے ہمکنار کریں۔
ذاتی انئوں کو روند ڈالیں ،ذاتی مفادات کو ٹھوکر مار دیں حق حکمرانی اور سیاست کو عبادت اور خدمت سے تعبیر کریں عوام تو ہر اُس شخص کی طرف دیکھتے ہیں جو ملکی ترقی کا نعرہ لگاتا ہے جو قرضوں کی دلدل اور امریکی چنگل سے قوم اور ملک کو نکالنے کی بات کرتا ہے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے یہی باتیں حال ہی میں دہرائیں تو جس شہر کی طرف وہ رخ کرتا لوگ بے پناہ تعداد میں اُس کے بلاوے پر اپنے گھروں سے شاہراہوں اور جلسہ گاہوں میں ایسے امڈتے چلے آتے کہ تل دھرنے کو جگہ نہ ہوتی گویا
ہوا کے رخ کا دھیان کس کو ،عذاب ِ رہ کا خیال کیسا
تیری طرف جو نکل پڑے تو جنوب کیسا ،شمال کیسا
عوام نے ذوالفقار علی بھٹو کو مسیحا سمجھا اس لئے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو ایسا ملک بنانے کا تصور اور نظریہ پیش کیا کہ دنیا میں جو وقار ،سلامتی اور ترقی کی ایک نظیر ہوگا نتیجتاً پاکستانی عوام نے ایک انقلابی ریلے کی صورت میں ذوالفقار علی بھٹو کو ملک کی باگ ڈور تھما دی اور سیاہ و سفید کا مالک بنا دیا اسی عوام نے پھر ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو کو دو مرتبہ وزیر اعظم کے منصب پر بٹھایا محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی عوام سے وعدہ کیا کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کے نظریہ جمہوریت کے تسلسل کو آگے بڑھائیں گی ایوب خان سے لیکر مشرف تک کئی مارشل لاء بھی اس دھرتی پر عوام نے برداشت کئے موجودہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے اپنی سیاسی جماعت بنائی تو کہا کہ وہ ملک کو علامہ محمد اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح کے حقیقی فلسفہ سیاست سے ہمکنار کرنے کا جذبہ لیکر میدان عمل میں آئے ہیںتو اب تیسری مرتبہ وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہیں۔
عوام نے تو ہر اُس سیاسی رہنما کو سر آنکھوں پر بٹھایا ہے جس نے تبدیلی کی بات کی جس نے نظام کو انصاف میںڈھالنے کا عوام سے وعدہ کیا ،جس نے روٹی کپڑا ور مکان کا وعدہ کیا سوال یہ پیدا ہوتا ہے جب عوام ساتھ ہیں اور جب عوام ترقی کی راہ پر چلنے والوں کی راہ میں روڑے نہیں اٹکاتے تو پھر حکمرانوں اور سیاسی لیڈر شپ کو خوف کس کا ہے اٹھارہ ،اٹھارہگھنٹیکی لوڈ شیڈنگ کا عذاب عوام سہتے ہیں ایک سو روپے سے اوپر تک وہ پٹرول اور ڈیزل خریدتے ہیں اشیائے خوردو نوش کی قیمتیں آسمانوں کو چھوتی ہیں گلہ پھر بھی عوام سے ہے کہ سال بھر جان جوکھوں میں لاکر گندم ،چاول ،کپاس اور گنا کی فصل وہ تیار کرتے ہیں کبھی کوئی دھج کا ریٹ سرکار اُن کیلئے متعین نہیں کر پاتی کہ محنت کشوں اور مزدوروں کو اپنی محنت کا پھل میسر آئے۔
تھر میں بلک بلک کر بھوک سے مرتے بچے اور ہسپتالوں میں ناقص انتظامات کے سبب معصوم دم توڑتی جانوں کا المیہ الگ ہے تعلیمی نظام میں سو قباحتیں ہیں ،پولیس کے شیر جوان نت نئے بھونڈے طریقے غریب اور لاچار لوگوں پر آزماتے ہیں وہ تھانے کے چٹی دلالوں کے علاوہ جن کے دروازوں پر عام آدمی دستک دینے کی طاقت نہیں رکھتا ،عدالتی نظام کی سست روی کا ماجرا بھی سب کے سامنے ہے اس کے باوجود بھی ہمارے ملک کے وزراء اپنے اخباری بیانات میں تسلسل سے فرماتے رہتے ہیں کہ عوام قربانیوں کیلئے تیار رہے ۔عوام نے تو ہر دور میں ہر کٹھن مرحلہ پر قربانیاں دیں کیا اب لیڈر شپ کی طرف سے کسی قربانی کی توقع عوام رکھ سکتے ہیں کہ جو ذاتی مفاد سے بالاتر ملکی مفاد کیلئے ہو۔
تحریر : لقمان اسد