تحریر : اختر سردار چودھری
ذوالفقار علی بھٹو 5 جنوری 1928 ء کو لاڑکانہ میں پیدا ہوئے ۔بھٹو کو ئی قوم نہیں ہے ،بلکہ یہ ایک بھارت کے گا ئو ں کا نام تھا۔ بھٹوخاندان اس گائوں کی مناسبت سے بھٹو کہلایا۔ذوالفقارعلی بھٹو سر شاہنواز کے تیسرے بیٹے تھے ،شاہنواز کو برطانیہ نے سر کے خطاب دیا تھا ۔ذوالفقار علی بھٹو نے بمبئی اورآکسفورڈیونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی ۔1950 ء میں کیلیفورنیا یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں گریجویشن کیا ۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعدکراچی میں وکالت کا آغاز کیا ۔ آپ کی شادی نصرت اصفہانی سے ہوئی جو کہ نسلا ایرانی تھیں، ان کے والد مرزا اصفہانی کی کراچی میں کیمیکل کی ایک انڈسٹری تھی ۔انتہائی خوش شکل ،خوش لباس ،گیسو دراز،ذہین و فطین بھٹو کی شہرت ملک میں پھیلی تو ایوب خان نے 1958 ء کو بھٹو صاحب کو بطور وزیر اپنی کابینہ میں شامل کر لیا ۔ اکتوبر 1958 ء کو آپ کو وزیر تجارت بنا دیا گیا ۔بھٹو ایک بہادر اور نڈر طبیعت کے مالک تھے ۔مفاہمت ،منافقت ،دوغلی پالیسی سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا ۔وہ سچ بات منہ پر کہنے کے عادی تھے ۔ایک بار جب وہ وزیر خارجہ تھے تو صدر جانس نے ان سے کہا تھا ،دنیا کے جس حصے میں اور جتنی دولت چاہیے لے لو اور ہماری راہ سے ہٹ جا ئو ،بھٹو نے جواب دیا ۔ہم بکا ئو مال نہیں ہیں ،ایک غیرت مند قوم ہیں ۔جب ایوب خان نے اعلان تاشقند (10 جنوری 1966 ئ) پر دستخط کیے تو وہ حکومت سے علیحدہ ہو گئے۔
اپنے دو اڑھائی سو دوستوں کے ساتھ گلبرگ لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر میں30 نومبر 1967 ء کو پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی ۔چار ارکان پر مشتمل پیپلز پارٹی کی سپریم کونسل بنائی گئی، جن میں ذوالفقار علی بھٹو،جے اے رحیم ، محمد حنیف رامے ،ڈاکٹر مبشر حسن شامل تھے ۔بنیادی ارکان میں بھٹو کا کوئی قریبی رشتہ دار نہیں تھا ۔بھٹو نے غریبوں کے حق میں انقلاب لانے کا اعلان کیا تھا ۔انقلاب تو نہ لا سکے وہ غریبوں کو جگا ضرو ر گئے۔ان کو ان کے حقوق سے آگاہ ضرور کر گئے ۔ وہ جب تک زندہ رہے پارٹی میں الیکشن نہیں کروائے پاکستان پیپلز پارٹی کے چار بنیادی اصول تھے۔اسلام ہمارا دین ہے ۔جمہوریت ہماری سیاست ہےسوشلزم ہماری معیشت ہے ۔طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں ۔جب پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی تو اس وقت ایک سوال تھا کہ ایک نئی پارٹی کیوں ضروری ہے ؟اس کا جو جواب بانیان پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے دیا گیا وہ قابل توجہ ہے۔
”آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد برصغیر کے مسلمانوں نے مکمل اتحاد سے ساتھ اعلان کیا تھا کہ پاکستان کی بنیادیں اسلام کے بنیادی اصولوں پر استوار کی جائیں گی اور ہماری سیاسی ،معاشی،اور سماجی زندگی اسلام کے دینی و دنیوی اصولوں کی قوت سے رواں دواں ہوگی لیکن ایسا نہ ہو سکا اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی ہے” بھٹو صاحب نے دن رات محنت کر کے پاکستان پیپلز پارٹی کو پاکستان کی مقبول ترین جماعت بنا دیا۔1970 ء میں ہونے والے الیکشن میں پاکستان پیپلز پارٹی نے مغربی پاکستان میں اکثریت حاصل کی ۔اس وقت سقوط ڈھاکہ ہوا 1971 ء میں مشرقی اور مغربی پاکستان الگ الگ ہو گئے ۔اسی سال وہ پاکستان کے تیسرے صدر بنے اور 14 اگست 1973 ء کو پاکستان کا پہلا آئین نافذ کیا اور خود وزیر اعظم بن گئے ۔ذوالفقار علی بھٹو وہ پہلے سیاست دان ہیں، جنہوں نے غریبوں کی بات کی ،غریبوں کے لیے سیاست کے دروازے کھولے ،عوام کی حکومت ،عوام کے ذریعے ،عوام کے لیے یعنی حقیقی جمہوریت کے لیے جہدو جہد کی ۔غریبوں کے لیے روٹی ،کپڑا ،مکان کا نعرہ لگایا۔
اس طرح پاکستان کی سیاست میں تبدیلی لے آئے، قائد اعظم کے بعد عوام کے محبوب لیڈر بن گئے ۔بھٹو کے لاکھوں کارکن تھے، جن کو جیالوں کا نام دیا گیا ۔بھٹو نے انقلاب غریبوں کے لیے ،نیا پاکستان کا بھی نعرہ لگایا، اور بے پناہ غریبوں کی محبت پائی ۔کسان کا قائد بھٹو ہے ،مزدور کا قائد بھٹو ہے ،غریبوں کا قائد بھٹو ہے ،کے نعروں سے ملک گونج اٹھا ۔قائد عوام نے ملک کو ایٹمی ملک بنانے ،اسلامی بینک قائم کرنے،کہوٹہ پلانٹ کی تعمیر کرنے،ملک کو پہلا متفقہ آئین دینے ،نوے ہزار قیدیوں کو بھارت سے چھڑانے ،غریبوں کو ان کے حقوق سے آگاہ کرنے ان کو ان کے حق دلانے جیسے کاموں کے لیے جد و جہد کی ۔بھٹو نے غربا ء بکی بات کی ان کے حق کے لیے آواز اٹھائی ،ملک کو قومی لباس سلوار قمیض دیا ،اس سے پہلے ملک کا کوئی قومی لباس نہ تھا۔
پھر جب 1977 ء میں انتخابات ہوئے تو بھی پاکستان پیپلز پارٹی نے بھاری اکثریت حاصل کی، لیکن حزب اخلاف نے الیکشن قبول نہ کیے اور ملک گیر تحریک چلائی جس کے نتیجے میں جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کر لیا ۔ اور 5 جولائی 1977 ء کو ملک میں مارشل لگایا ۔دو ماہ بعد ذوالفقار علی بھٹو کو محمد احمد خان کے قتل کے مقدمہ میں گرفتار کر لیا گیا اور 18 مارچ 1977 ء کو انہیں قتل کے الزام میں موت کی سزا سنائی گئی اس طرح 4 اپریل 1979 ء کو قائد عوام جو کہ لاکھوں دلوں کی دھڑکن تھا، ان کو پھانسی دے کر شہید کر دیا گیا اس دن پاکستان کے بہت سے گھروں میں صف ماتم بچھ گئی ۔بھٹو کو شہید کر دیا گیا اور شہید زندہ ہوتے ہیں ،بھٹو عوام کے دلوں میں زندہ رہا اس کی عوام میں بے پناہ مقبولیت کی وجہ سے اس کی بیٹی بے نظیر دو مرتبہ ملک کی وزیر اعظم بنی اور ایک دفعہ ان کے داماد آصف علی زرداری بھی پانچ سال حکومت کر چکے ہیں۔
آج بھی بلاول ز رداری بھٹو اپنے نانا کی عوام کے دلوں میں جو بے پناہ عقیدہ ہے، اس کے بل بوتے پر سیاست کے میدان میں اترا ہے، اور وزیر اعظم بننا چاہتا ہے ۔لیکن یہ فیصلہ وقت کرے گا کہ بھٹو کو پھانسی سے قتل کیا گیا یا اس کے جانشین اس کے بنائے ہوئے منشور پر نہ چل سکے اور بھٹو کو انہوں نے مار دیا ۔کیونکہ پاکستان پیپلز پارٹی جو کہ قومی جماعت تھی، آج صرف سندھ تک سمٹ گئی ہے ۔مفاہمت کی سیاست کے لیے پیپلز پارٹی نہیں بنی تھی بلکہ غریبوں کے حق کے آواز بلند کرنے ان کے حقوق دلانے کے لیے بنی تھی۔روٹی ،کپڑا اور مکان ایک انسان کی بنیادی ضروریات کا نعرہ سب سے پہلے پاکستان پیپلز پارٹی نے لگایا ،جس نے بے پناہ مقبولیت پائی ا س کے علاوہ پاکستان میں اسلامی نظام کے رائج کرنے لیے پاکستان پیپلز پارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔
تحریر : اختر سردار چودھری