تحریر : شہزاد حسین بھٹی
قیامِ پاکستان کے وقت برصغیر پاک و ہند میں مسلمان ایک قوم کی حیثیت رکھتے تھے اور اْس قوم کو ایک ملک کی تلاش تھی جب کہ آج 69 برس بعد ملک موجود ہے مگر اِس ملک کو قوم کی تلاش ہے۔ 1947ء میں ہم ایک قوم تھے، اللہ رب العزت کی مدد و نصرت ہمارے شاملِ حال ہوئی اور اْس قوم کی متحدہ جد و جہد کے نتیجے میں ہمیں یہ ملک ملا۔ ابھی 25 برس بھی نہیں گزرے تھے کہ ہم نے باہمی اِختلافات کے باعث آدھا ملک کھو دیا۔ آج آدھا ملک موجود ہے مگر کس قدر دکھ کی بات ہے کہ قوم مفقود ہے۔ آج حالت یہ کہ ہماری قوم منتشر ہو چکی ہے، یہ کروڑوں اَفراد کا بے ہنگم ہجوم بن چکا ہے، ہماری قومیت گم ہوگئی ہے، محبت کا جو جذبہ ہم اپنے بچپن اور جوانی کے دور میں دیکھا کرتے تھے وہ بھی ناپید ہوگیا ہے؛ ہمیں دوبارہ اس قوم کو وحدت میں پرونا ہے تاکہ یہ بکھری ہوئی قوم اس ملک کے باسیوں کی امیدوں پر پوری اتر سکے۔ گذشتہ روز بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر پیپلزپارٹی کے چیرمین اور دیگر رہنماوں کے جس انداز میں حکومت وقت خصوصاً چوہدری نثار پر تنقید کے جو تیر برسائے ان سے یو ں محسوس ہوتا ہے کہ چوہدری نثار نے رینجرز کے ذریعے شاید ان تمام عہدید اروں کو جو دودھ کے دھلے ہیں کو شاید بے گناہی میں دھر لیا ہے۔پنجابی میں کہتے ہیں کہ” جس کھادیاں گاجراں ڈیڈ اس دے پیڑ” یعنی جس نے گاجریں کھائیں تکلیف اس کے پیٹ میں ہوگی۔ اگر ڈاکٹر عاصم پرملک دشمن عناصر و دہشت گروں کی مدد اورعلاج کا الزام ہے
جسکا وہ جے آئی ٹی میں اقرار بھی کرچکے ہیں توانہیںچاہیے کہ وہ عدالتوںمیں اپنے ٹرائل کا سامنا کریں، صوبائی حکومت کیوں انہیں بچانے کے درپے ہے کیونکہ ڈاکٹر عاصم نے پیپلز پارٹی اور ایم کیوایم کے اعلیٰ عہد ے داروں کے نام لے رکھے ہیں جنکے کہنے پروہ سہولت کار کا کردار نبھاتے رہے۔ نہ جانے جرائم پیشہ عناصر کی گرفتاری سے جمہوریت کو کیا خطرہ اچانک بیٹھے بیٹھائے لاحق ہو جاتا ہے۔ ہو نا تو یہ چاہیے کہ سندھ کی صوبائی حکومت قانون نافذکرنے والے ادارے رینجرز کا بھرپور ساتھ دے لیکن وہ اس کے متوازی چلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے نومنتخب صدر آصف علی زرداری فوج کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات کرگئے ہیں یہی وجہ ہے کہ اس بار وہ بے نظیر کی برسی پر گڑھی خدابخش نہیں پہنچ سکے کیونکہ انہیں گرین سگنل نہیں دیا گیا تھا اور رحمن ملک نے آصف زرداری کو صاف صاف بتا دیا تھا کہ اگر وہ پاکستان آتے ہیں تو انہیں گرفتار کر لیا جائے گا۔اسی وجہ سے بلاول بھٹوزرداری نے رینجرز کے اختیارات میں وفاقی توسیع کو سیاسی انتقام سے تشبیع دی ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ کراچی کے حالات میں بہتری رینجرز کے بلا تفریق آپریشن کے نتیجے میںآئی ہے جس کی گواہی کراچی کے عوام اور تاجروں نے دی ہے اور کہا ہے کہ رینجزز کے اقدامات کی وجہ سے انہیں سکھ سے رہنا اور کاروبار کرنا نصیب ہوا ہے۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے اور پورے ملک کی ترقی کا دارومدار کراچی کے حالات کی بہتری پر ہے ۔ گذشتہ 30 سالوںمیں جس طرح کراچی میں امن وامان کا مسئلہ پیدا کیا گیا ہے اس میں ایم کیوایم اور پیپلزپارٹی کے مسلح جتھوں کا ہاتھ بھی ہے۔رینجرز نے کراچی کے حالات کنڑول کرنے کے لیے دن رات کام کیا اور اپنی جانوں کا نذارنہ دے کر کراچی میں سدھار پیدا کیامگر بدقسمتی سے پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت جو سر تاپہ کرپشن اور بدعنوانی میں ملوث ہے نے جب یہ محسوس کر نا شروع کر دیا کہ اب ہاتھ ان کی گریباںتک پہنچنے والا ہے تو واویلا کرنا شروع کردیا ہے کہ رینجرز کے اختیارات صرف کراچی تک محدود رہیں اور کسی سہولت کار کو گرفتار کرنے سے پہلے وزیر اعلیٰ سے مشاورت ضروری ہے۔کیون ضروری ہے ۔۔۔۔؟ اس لیے کہ وزیر اعلیٰ اسے بیرون ملک فرار کروا سکیں۔
پیپلزپارٹی اور ایم کیوایم سمیت تقریباً ہر بڑی سیاسی جماعت کا وطیرہ رہا ہے کہ جب بھی ان پر ہاتھ ڈالا جاتا ہے تو یہ صوبائی کارڈ کو کھیلنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اب صورت الحال مختلف ہے۔بھٹو کی پھانسی کے وقت کتنے لوگ سڑکوںپر نکلے تھے۔۔۔؟سندھیوں کو اب مزید بیوقوف نہیں بنایا جاسکتا۔وہ بھی جانتے ہیں کہ سندھ میں انکے نام پر کس کی تجوریاں بھری جا رہی ہیں۔تھر میں ہزاروں بچے بھوک اور پیاس سے مرگئے کس کی نااہلی اور ناکامی تھی؟لاکھوں گھوسٹ سکولوں اور دوسو آسامیوں پر چودہ سو افرادکو لاکھوں روپے رشوت لے کرکس جماعت کے وزیر تعلیم نے بھرتی کیے تھے؟ سندھ پبلک سروس کمیشن کے چیرمین نے سیاسی مداخلت سے تنگ آکر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔بدعنوانی اور کرپشن میں پیپلز پارٹی سندھ کا ہر اعلیٰ عہدے دار ملوث ہے ۔ کیا سندھیوں کو ان کے حقوق اور وسائل سے استفادہ کرنے کا حق نہیں ؟کیا وہ بھٹوا ور بے نظیر کے مزار وںپر بچوں کی دعائیں مانگنے کے لیے رہ گئے ہیں؟بلاول بھٹو زرداری سندھ کارڈ کھیلنے کی ناکام کوشش کرلیں اب کی بارنیشنل ایکشن پروگرام پر کوئی سمجھوتانہیں ہو سکتا۔جنرل راحیل شریف اب کی بار کسی بدعنوان ، کرپٹ، دہشتگرد اور اسکے سہولت کار کو چھوڑنے والے نہیں۔ کیونکہ اب بہت ہو گیا اب حساب دینے کا وقت آ گیا ہے۔پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت شور شرابا کر کے شہید بننے کی ناکام کوشش کر رہی ہے جسے سندھ کی عوام بری طرح ناکام بنا دینگے۔مجھے سمجھ نہیں آتا کہ چھوٹے صوبوں کے استحصال اور حقوق پر کیا ڈاکہ وفاقی ادارے ڈال رہے ہیں وہ تو امن وامان کی صورت الحا ل کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں
اندھا بانٹے ریوڑیاں وہ بھی اپنوں میں کے مصداق گذشتہ روز بے نظیر کی برسی کی تقریب کے بعد پیپلزپارٹی کی سینڑل ایگزیکٹو کمیٹی کی میٹنگ میں آصف علی زردار ی کو پیپلزپارٹی پارلمنٹییرین کا امین فہیم کی وفات کے بعد صدر نامزد کر دیا گیا ۔ اس سے پہلے یہ افواہیں گردش میں تھیں کہ پیپلزپارٹی کے پنجاب سے مکمل صفائے کے بعد پارٹی صدر پنجاب سے لیے جانے کا امکان ظاہر کیا جا رہاتھا جس کے لیے قمرالزماں کائرہ، اعتزاز احسن اوریوسف رضا گیلانی کے نام لیے جار ہے تھے لیکن سیاست ہمارے سیاستدانون کی گھر کی لونڈی ہے اور ملکوکیت ان کا اُوڑنا بچھونا تو پھر حیرانگی کس بات کی ۔قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ وفاق کو یو ں دھمکیاں دیتے ہیں کہ اگر سندھ میں گورنر راج لگا تو وفاق کو اس کا خمیازہ بھگتا پڑے گا۔ یعنی اب بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے اور وفاق کو تڑیاں۔ اگر آپ صاف ہیں اور آپ نے کوئی کرپشن نہیں کی تو پھر آپکو ڈر کس بات کا ہے۔جماعت اسلامی ، تحریک انصاف اور سندھ کی چھوٹی جماعتیں کیون شور نہیں مچاتیں؟ وجہ صاف ظاہر ہے کہ وہ کلین ہیں۔
ہمیںاس ملک کو پاکستانیوں کی اْمیدوں کے مطابق بنانا چاہیے لیکن اس کے لیے ہمیں کچھ جرات مندانہ کام کرنے پڑیں گے اور کچھ احتیاطیں برتنی پڑیں گی۔ ہمیں سنجیدہ ہو کر اس ملک میں جاری نظام کو تبدیل کرنا ہوگا۔اس کے لیے پاکستانی قوم کو باشعور بنانا ہو گا۔ اِنصاف اس وقت مقتدر طبقات کی لونڈی ہے، جمہوریت ان کی عیاشی ہے، اِنتخاب اِن کا کاروبار ہے اور عوام ان کے غلام ہیںجہنیںہر 5 سال کے بعد استعمال کیا جاتا ہے۔ جمہوریت کے نام پر جو کچھ اس ملک میں ہو رہا ہے یہ کسی طرح بھی جمہوریت نہیں ہے۔ نہ یہ حقیقی نظامِ اِنتخاب ہے اور نہ ہی اس طریقے سے کبھی تبدیلی آئے گی۔ آپ اگر تبدیلی چاہتے ہیں تو اس کا راستہ الگ ہے۔ اور وہ راستہ ہے اشخاص کے بجائے اداروں کو طاقت مہیا کرنا اور مضبوط بنانا۔ یہی وہ اصول ہے جس پر ایک اچھا جمہوری طرز حکمرانی قائم کیا جا سکتا ہے۔
تحریر : شہزاد حسین بھٹی