پاکستان میں عام انتخابات کا دنگل لگنے کو ہے، جس میں ہر بار کی طرح اس بار بھی کئی بڑے برج الٹ جائیں گے، کئی نئے لوگ اور چہرے سامنے آئیں گے۔
گزشتہ کئی انتخابات کی طرح رواں سال ہونے والے انتخابات میں بھی کچھ امیدوار ایسے ہوں گے، جو اس بار بھی سرخرو ہی ہوں گے اور کچھ تو ایسے ہوں گے جو گزشتہ 41 سال کی طرح رواں برس بھی شکست سے دو چار ہوں گے۔
انتخابات میں حصہ لینے والا ہرامیدوار شاید اب تک یہی خواب دیکھ رہا ہوگا کہ وہ 25 جولائی 2018 کے دن کامیاب ہوگا، لیکن ایک ایسا امیدوار بھی ہے جسے 100 فیصد یقین ہے کہ وہ اس بار بھی ہار جائے گا۔
خود کو عوام کا چمچہ، نیم کرپٹ، شہنشاہ سیاست، شاعر اور پاکستان کا متبادل وزیر اعظم کہنے اور سمجھنے والا 60 سالہ امیدوار نواب ڈاکٹر امبر شہزادہ شاید وہ واحد انتخابی امیدوار ہے جسے اپنی ہار کا یقین ہے۔
نواب ڈاکٹر امبر شہزادہ پیشے کے لحاظ سے ہومیو پیتھک ڈاکٹر ہیں اور انہوں نے فلاسفی کی تعلیم حاصل کر رکھی ہے۔
نواب ڈاکٹر امبر شہزادہ پنجاب کے شہر قصور میں پیدا ہونے کے بعد دارالحکومت لاہور منتقل ہوئے، اس وقت وہ اس شہر کے علاقے اقبال ٹاؤن میں رہائش پذیر ہیں۔
میں نے جب ان سے سوال کیا کہ ان کے پاس لاہور میں اپنا گھر ہے تو انہوں نے کہا کہ وہ خود کو جغرافیہ کا قائل نہیں سمجھتے، اس لیے انہیں اپنے گھر ہونے یا نہ ہونے کی نہ تو پرواہ ہے اور نہ ہی ضرورت!
انہوں نے اپنی ملکیت کے حوالے سے کھل کر بات کرنے سے گریز کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں اپنے خاندان سے حسب ضرورت ملکیت ملی، جو ان کے کام آ رہی ہے، چونکہ ان کی کوئی اولاد نہیں اس لیے انہیں زیادہ دولت کی بھی ضرورت نہیں۔
خود کو متبادل وزیراعظم کہنے والے شخص شادی شدہ ہیں اور ان کی واحد بیگم کا نام ستارہ بیگم ہے۔
انہوں نے فخریہ انداز میں بتایا کہ وہ پاکستان کے واحد سیاستدان ہیں، جنہوں نے 25 سال کی عمر ہوتے ہی اگلے دن انتخابات میں لڑنے کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔
رواں برس 5 حلقوں سے انتخابات لڑنے کا ارادہ رکھنے والے امبر شہزادہ نے پہلا الیکشن 1988 میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 99 سے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے ارشد گھرکی کے خلاف لڑا تھا، لیکن وہ پہلا الکیشن ہی ہار گئے تھے۔
پہلے انتخابات میں شکست سے مستقبل کے متبادل وزیر اعظم کا حوصلہ نہیں ٹوٹا اور انہوں نے دوسرے انتخابات میں بھی حصہ لیا اور زندگی کے پہلے الیکشن کی طرح دوسرے میں بھی شکست سے دوچار ہوئے، تاہم انہیں افسوس نہیں ہوا اور وہ ہر بار شکست کھانے کے لیے انتخاب لڑتے رہے۔
ڈاکٹر نواب امبر شہزادہ نے 2013 کے عام انتخابات میں لاہور سے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 125، این اے 122، این اے 123 اور این اے 126 سے حصہ لیا۔
نیم کرپٹ شخص کا دعویٰ کرنے والے امبر شہزادہ نے گزشتہ الیکشن میں پاکستان مسلم لیگ (ن) (پی ایم ایل این) کے نواز شریف، ایاز صادق اور محمد پرویز ملک سمیت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے شفقت محمود کے خلاف الیکشن لڑا، مگر بدقسمتی سے چاروں حلقوں سے ہار گئے۔
اس بار امبر شہزادہ لاہور کے حلقے این اے 125 سے میدان میں اتریں گے، جہاں وہ کم سے کم دیگر 40 امیدواروں کا مقابلہ کریں گے۔
میں نے ان سے پوچھا کہ اس بار ان کے جیتنے کے کتنے امکانات ہیں، جس پر ان کا کہنا تھا کہ الیکشن جیت کر اسمبلی میں جانا ان کا مقصد نہیں، بلکہ عوام میں شعور اور سیاستدانوں کا ضمیر بیدار کرنا ان کا مقصد ہے۔
ہر بار شکست کے باوجود انتخابات میں حصہ لینے والے امبر شہزادہ کا انتخابی نشان چمچہ ہے اور جب ان سے منفرد انتخابی نشان کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے کہا کہ وہ خود کو عوام کا چمچہ سمجھتے ہیں، ان کا ماننا ہے کہ چمچہ ہی رنگ و نسل، ذات، پات اور عمر کے فرق کے بغیر انسان کی ضرورت پوری کرنے میں مدد دیتا ہے، اس لیے انہوں نے اس کو اپنا انتخابی نشان بنایا۔
اس سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ امبر شہزادہ خود کو نیم کرپٹ یعنی ضرورت کے مطابق کرپشن کرنے والا شخص قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر زندگی میں کبھی انہوں نے حکومت بنائی تو وہ کرپشن کو ضرورت کے تحت کرنے کی اجازت دیتے ہوئے اسے قانونی قرار دیں گے۔ ان کا ماننا ہے کہ اگر ہر سیاستدان یا حکمران اپنی ضرورت کے مطابق کرپشن کرے تو عوام کو بھی کچھ نہ کچھ کھانے پینے کو ملے گا اور ملک ترقی کرے گا۔ میں نے جب ان سے دریافت کیا کہ ایک سیاستدان یا حکمران کی ضرورت کتنی ہے اس کا اندازہ کیسے لگایا جائے اور اسے کتنی کرپشن کرنے کی قانونی اجازت ہونی چاہیے؟ جب ان سے سوال کیا گیا کہ ایک حکمران تو چاہتا ہے کہ اس کا لندن، نیویارک، پیرس اور دبئی میں عالیشان محل ہو اور اس کے پاس ڈھیر ساری گڑیاں ہوں تو کیا انہیں اس کی اجازت دینی چاہیے؟
اس پر ان کا کہنا تھا کہ ایسا بالکل نہیں ہونا چاہیے بلکہ ہر سیاستدان کو دنیا کے کسی بھی شہر میں صرف ایک گھر اور گاڑی رکھنے اور اسے خریدنے کے لیے کرپشن کرنے کی ہی اجازت ہونی چاہیے۔
جب انہیں یہ احساس دلانے کی کوشش کی گئی کہ وہ خود کو نیم کرپٹ کہہ کر تسلیم کر رہے ہیں کہ وہ صادق و امین نہیں اور وہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 پر پورا نہیں اترتے؟ تو انہوں نے دلچسپ جواب دیتے ہوئے دلیل دی کہ جو سیاستدان یہ کہتے ہیں کہ وہ حکومت میں آکر کرپشن ختم کریں گے وہ بھی عوام سے جھوٹ بول کر اسی آئین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔
نواب ڈاکٹر امبر شہزادہ نے خود کو پاکستان کے لیے بہترین متبادل وزیر اعظم قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر کبھی وہ حکومت بنانے میں کامیاب گئے تو وہ سب سے پہلے آئین میں تبدیلی کرکے ضروت کے مطابق کی جانے والی کرپشن کو قانونی قرار دیں گے، تاہم ساتھ ہی وہ ضرورت کی حدود بھی متعین کر دیں گے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ وہ نہ صرف منفرد سیاستدان ہیں بلکہ وہ شاعر بھی ہیں اور ان کا پنجابی شاعری کا مجموعہ بھی آ چکا ہے جب کہ ان کی شخصیت پر مختلف صحافیوں کی جانب سے لکھے گئے کالمز پر مشتمل ایک ’متبادل وزیر اعظم‘ بھی شائع ہوچکی ہے۔ نواب امبر شہزادہ نے ’آپ جناب پارٹی‘ بھی بنا رکھی ہے، جس کے وہ بانی و چیئرمین ہیں اور انہوں نے دعویٰ کیا ان کے کارکنان کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ اپنی پارٹی میں خواتین عہدیداروں اور کارکنان کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں امبر شہزادہ کا کہنا تھا کہ ابھی ان کی پارٹی میں خواتین کی تعداد کم ہے، لیکن آنے والے دور میں یہ کمی ختم ہوجائے گی۔