جلسوں پرجلسے اورسونے پر سہاگہ یہ کہ جلسوں میں عوامی فلاح و بہبود کی باتیں۔ ۔ ۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟
مختلف پارٹیوں کی جانب سے کئے جانے والے جلسے اور ان پر ہونے والے شاہی خرچے، کیا یہ بھی کھلا تضاد نہیں؟
کیا اس کا نوٹس نہیں ہونا چاہئیے؟ اس کی روک تھام کا بھی کوئی قانون ہونا چاہیے؟ اتنے مہنگے جلسے کرنے کا مقصد کیا ہے؟
جتنے پیسے خرچ کر کے کسی جلسے میں عوام کی فلاح و بہبود پر لیکچر دیا جاتا ہے کیا اتنے پیسے سے عوام کے لئے کوئی فلاح و بہبود کا کوئی کام نہیں کیا جا سکتا؟ کیا وہ فلاحی کام جلسے میں کی جانی والی تقاریر سے زیادہ موثرنہیں ہوگا؟
جب کروڑوں روپے خرچ کر کے جلسے میں ہزاروں لوگوں کے سامنے یہ کہا جائے کہ ہم بچوں کے لئے اعلیٰ معیار کے سکول تعمیر کروائیں گے تو کیا ہی اچھا ہو اگر اس جلسے کے بجائے عملی کام کر کے دکھایا جائے تو جن کے سامنے تقریر کی جا رہی ہے وہ خود ہی آپکی کارکردگی کا معیار جانچ لیں گے۔
آج پاکستان میں محض باتوں اور جھوٹے دعوٰوں کی سیاست کا دور دورا ہے۔ جس کو دیکھو صرف اقتدار کی لالچ میں عوام کو سبز باغ دکھا رہا ہے۔
کیا ہی خوب ہو جب سیاست دانوں کی زبانوں کے بجائے کارنامے بولیں اور انہیں کارناموں کی بنیاد پر لیڈر کا چناؤ بھی آسان ہو۔
لیکن یہ بھی بتاتا چلوں کارناموں سے مراد بریانی کی پلیٹ یا محلے کی سڑک پکی کروانا مقصود نہیں ہے۔ کسی بھی قوم کی بنیادی ضرورتیں سڑکیں یا پُل نہیں ہوتے جب کہ قوم فاقوں سے مر رہی ہو۔ بیروز گاری اس قوم کا مقدر بن چکی ہو۔ تعلیم کے لیے اس قوم کے نوجوان در بدر بھٹک رہے ہوں۔ صحت کی سہولیات نا کافی ہوں۔ صاف پانی کا تصور بھی نا ہو۔ کرپشن جہاں عروج پر ہو اور رشوت ستانی کے بغیرکوئی کام نہ چلتا ہو۔ ایسے میں اگر کسی حکومت کی بنیادی ترجیحات لوگوں کو کارکردگی دکھانے کے لئے سڑکیں اور پل ہوں تو سمجھ جائیں کہ ان کا مقصد عوام کی خدمت نہیں بلکہ اپنی خدمت ہے۔
بات مختصر سی ہے۔ ایک طرف بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی تو دوسری طرف جلسوں کی صورت میں فضول خرچیاں! یہ کھلا تضاد ہے۔