تحریر : محمد امین بلوچ
مظلوموں کی داد رسی کا اک باب تھا جو بند ہوگیا شروع دن سے آج تک یہ دنیا انسانوں کی تاریخ سے بھری پڑی ہے مگر کچھ لوگ بھی آ گزرے ہیں جو تاریخ کے اوراق میں سنہرے الفاظ سے درج ہیں اور ہمیشہ یادکئے جاتے ہیں۔جن کی کسی نہ کسی طرح سے کوئی نہ کوئی خاص کرداررہاہو۔ جھالاوان کی تاریخ بھی ایسے لوگوں سے بھری پڑی ہے کچھ ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جن کی خوبیاں اور کردار صرف اپنوں کیلئے یا محدود ہوتے ہیں لیکن تاریخ میں کچھ ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جن کی نظر میں پور ی انسانیت ایک ہوتی ہے۔ ان کے ہاں اپنوں کی اور غیروں کی درد یکساں ایک ہوتی ہے۔ خضدار جھالاوان کا مرکز ہے جہاں بہت تاریخ ساز شخصیات زندہ ہیں کچھ ایسے بھی تھے جو اس دنیا سے امر ہوگئے لیکن ان کی جہد اور قربانیوں کی مثال ہمیشہ کیلئے زندہ ہیں الفاظ ایک ایسے تاریخ سا ز انسان کی خدمت اور کردار کو بیاں کرنے کیلئے کم پڑرہے ہیں۔
راقم ایک آج کے دن کی مناسبت یعنی ایک عظیم انسان کی بچھڑنے کیلئے کچھ الفاظوں کا احاطہ کرنے کی کوشش کررہا ہے لیکن اس عظیم ہستی کے یاد میں الفاظ نہ ملنے کے برابر ہیں جوکہ بلوچ قوم کی تاریخ میں کسی نہ کسی حوالے سے متذکر ہیں۔ آج 9مارچ بھی ایک ایسی تاریخ ہے جس دن خضدار جھالاوان کے عظیم رہنمائ( جو مظلوموں کیلئے خدمت کا احساس رکھتے تھے ) حاجی عطاء اللہ محمدزئی مینگل کے بچھڑنے کا دن ہے جوکہ گزشتہ سال مارچ کو خضدار میں شہید کردیئے گئے تھے۔حاجی عطاء اللہ مینگل حاجی عبدالغنی مینگل کے سب سے بڑے صاحبزادہ تھے ۔حاجی عبدالغنی مینگل 1958 میں محمد تاوہ سے خضدار منتقل ہوئے تھے ان کے بھی خدمات جھالاوان میں روز روشن کی طرح عیاں ہیںان کی خدمات 1958 سے1992تک خضدار کیلئے وقف رہے۔حاجی عطاء اللہ مینگل تقریباَ 26 سالوں انجمن تاجران خضدار کے صدر رہے ان کی شخصیت ہر مسلم و ہندو کے دل میں قابل قدر تھی۔ دن ہوتی یا رات ہر کسی کے کام کیلئے بلاتعصب رنگ و نسل میدان میں ہوتے تھے۔
حاجی صاحب کے حوالے سے ایک قصہ مشہور ہے کہ آدھی رات کو ایک درمند شخص ان کے گھر پر اپنے دل کی ارمان لئے دستک دی تو حاجی صاحب جلدی میں ننگے پیر نکل چکے تھے جب اس شخص نے انہیں اپنی دکھ بھری کہانی سنائی تو حاجی صاحب چند فرلانگ اسی حالت میں ننگے پیر چل نکلے انہیں بتایا گیا کہ حاجی اپنے جوتے اٹھا ئو ، مرحو م کے مظلوموں کیلئے اس طرح جذبات تھے۔ انہوں نے اکتوبر 2009 میں اپنے والد حاجی عبدالغنی کے نام سے ایک فلاحی ادارہ” الغنی ویلفیئر ٹرسٹ”کا سنگ بنیاد رکھا۔جس کے تحت وہ عوام کو صحت کی سہولیات دینے کا عزم کرتے ہوئے خضدار کی پہلے فلاحی ادارے کا بِنا کردیا۔ٹرسٹ کی نگرانی وہ خود کررہے تھے اور ٹرسٹ کے باقاعدہ بلڈ بنک نے بھی کام شروع کیا تھا جہاں سے غریب مریضوں کے خون کی ضرورت کو پورا کیا جارہاتھا ان خدمات نے خضدار کے عوام کا دم موہ لیا اور وہ یہاں کی ایک ہر دلعزیز شخصیت بن گئے۔
حاجی عطاءاللہ محمد زئی مینگل کے شخصیت کی بات کی جائے توشاید ان کے خوبیوں کو بیان کرنا ممکن نہ ہوں۔ حاجی صاحب نہایت پارسااور نیک انسان تھے۔ ہر طبقہ فکر کے لوگوں سے ان کا میل جول تھا بچوں کے ساتھ بچگانہ اندازمیں ملتے اور ان پر کافی مہربان اور شفیق تھے۔گھر میںبھی زیادہ ترچھوٹے بچوں کے دل بہلانے اور ان کو خوش رکھنے میں گزارتے۔ بزرگوں سے جب بھی ملتے تو ان کے ہاتھوں پر محبت کا بوسہ ضرور دیتے۔ پورے برادری میں ایک ہی لقب”ادّا” سے پکارے جاتے تھے۔حافظ القرآن ہونے کے ساتھ ساتھ انہیں دینی علوم پر بھی عبور حاصل تھا۔سیاسی طور پر وہ بلوچستان نیشنل پارٹی سے وابسطہ تھے ان کا شمار بزرگ سیاست دان سردار عطاء اللہ مینگل اور سردار اختر جان مینگل کے انتہائی قریبی ساتھیوں میں تھا ۔ پارٹی کے اند ران کی سیاسی خدمات کو ہمیشہ یادرکھا جائیگا۔ حاجی صاحب سند ھ اور بلوچستان کے مختلف بلوچ اقوام اور قبائل کے فیصلے اور تصفیے بھی کرتے تھے۔لوگ دور دور سے اپنے فیصلوں کیلئے ان کے ہاں آتے اور اپنے مسئلے حل کرواتے تھے۔
تحریر : محمد امین بلوچ