تحریر: عبد اللہ سلمان ریاض
تاریخ ِ عالم میں ہزاروں شخصیات کے تذکرے اور کارنامے دکھائی دیتے ہیں، ان میں سے بیشتر شخصیات کی سیرت و سوانح کی کامل تفصیلا ت ضائع ہوچکی ہیں یا پھر ان کے گرد مبالغہ آمیز روایات اور طلسمات کا تانا بانا بن دیا گیا ہے۔اس مبالغہ آمیزی نے ان کی شخصیت کے بشری اور روحانی پہلوؤں کو گہنا دیا ہے۔عظیم شخصیات کی اس کہکشاں میں ایک ہستی ایسی ہے جو مہرِ عالم تاب اور خورشیدِ جہاں تاب کی طرح روشن ہے۔اس کی راتوں کے اعمال بھی اس کے دن کی سرگرمیوں کی طرح منور دکھائی دیتے ہیں۔قدرت نے اس کی سیرت و سوانح کی حفاظت کے لئے متنوع انتظام کئے۔ قرآن کریم میں ان کی دعوتی جدو جہد کے مختلف مراحل کو اگر محفوظ رکھاگیا تو آپ کے ڈیڑھ لاکھ کے قریب جاں نثار صحابہ کرام نے اپنے اعمال میں اس سیرت کو منتقل اور منعکس کرلیا۔
قرآن کریم کی آیاتِ بینات اگر اس نبوت کی شہادت فراہم کرتی ہیں تو آپ کے اعمال و افعال کو بھی ضابطہء تحریر میں لایا گیا ۔ اس سلسلے میںایک طرف محدثین نے غیر معمولی کاوش اور عقیدت سے اس ذخیرے کو محفوظ کیا تو دوسری طرف نبوی زندگی کی سیکڑوں دستاویزات تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہیں۔١٥٨٨ کے قریب صحابہ نے آپ سے متعلق ہزاروں احادیث کو نقل یا بیان کیاہے۔احادیث مبارکہ کا ذخیرہ تاریخِ انسانی کا سب سے نادر اور انمول خزانہ ہے جس میں ایک شخصیت سے متعلق قولی، فعلی یا تقریری روایات کا ایک عظیم الشان ذخیرہ روایت و درایت کے پختہ اور محکم اصولوں کے تحت مرتب کیا گیا ۔ اس سلسلے میں اسماء الرجال کا وہ عظیم علم و فن منظرِ عام پر آیا جو اس سے قبل تاریخ میں مفقود دکھائی دیتا ہے۔ مشہور جرمن مستشرق ڈاکٹر اسپرنگر نے اپنی کتاب ”الاصابة فی تمییز الصحابة” کے مقدمے میں لکھا ہے کہ : ”دنیا میں کوئی ایسی قوم نہیں گزری اور نہ آج کہیں موجود ہے جس نے مسلمانوں کی طرح اسماء الرجال کا عظیم المرتبت فن ایجاد کیاہو، جس کے باعث پانچ لاکھ مسلمانوں کے احوال معلوم ہوسکتے ہیں۔”
انسانی تاریخ کی یہ ایک انمول حقیقت ہے کہ ایک شخصیت کے احوال و کوائف کو محفوظ کرتے ہوئے لاکھوں دیگر افراد کے احوال بھی محفوظ ہوگئے ہیں۔ یہ ایک ایسی تاریخی صداقت اور شہادت ہے کہ جس کی نظیر اور مثال کسی تہذیب یا مذہب میں تلاش کرنا دشوار ہی نہیں بلکہ محال بھی ہے۔آپ کے جاں نثاروں نے آپ کے اقوال و فرامین اور اعمال و افعال کو تو محفوظ رکھا ہی ہے، آپ کی خاموشیوں، عادات و خصائل و شمائل کو بھی محفوظ کرلیاہے۔ یہ تمام تر کاوشیں اور ذخائر سیرت ِ خاتم النّبیین صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دنیا کی سب سے منفرد اورا متیازی سیرت بنادیتے ہیں۔ انھی نگارشات اور روایات کی مدد سے وہ ہزاروں کتب اور لاکھوں مقالاتِ سیرت لکھے گئے جن کا تذکارِ سعید تا ابد جاری و ساری رہے گا۔اس بے مثال تذکارِ سیرت کو نظم اور نثر ہر دور میں قلم بندکیا گیا ہے۔نیز مسلمانوں کے علاوہ تقریباً ہر دوسرے مذہب اور تہذیب کے دانش وروں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔
بعض ناقدانِ فن نے اس موضوع پربھی کلام کیا ہے کہ جب نثر میں سیرت و سوانح کی متانت کو برقراررکھا جاسکا ہے تو پھر اس کے لیے شعر کا وسیلہ اختیار کرنا کیوں ضروری ہے اور یوں منظوم سیرت سے کیا مقاصد در پیش ہیں۔ ہمارے نزدیک شعری اسلوب میں ایک وجدانی کیف موجود ہوتا ہے۔ مترنم مصرعوں میں کسی محبوبِ جہاں کا جمالِ دل آراء دلوں کی دھڑکنوں میں سماجاتا ہے اور ہماری روح کے تار چھیڑ دیتا ہے ، جس سے دل و دماغ میں وہ کیف و سرور پیدا ہوتے ہیں، جو اس محبوب کی ذات سے محبت و عقیدت کا ایک لافانی جذبہ پیدا کردیتے ہیں اور وہ ہماری سانسوں میں رچ بس جاتا ہے۔شعر سے دل اور دماغ دونوں میں ایک ارتعاش پیدا ہوتا ہے جو تخیل کو مہمیز لگاتا ہے اور جذبوں کو جنوں میں بدل دیتا ہے۔
ہر زبان کا علمی سرمایہ زیادہ تر نثر میں محفوظ ہوتا ہے مگر نظم اپنی مخصوص افادیت اور تاثیر کے باعث قبولیتِ عامہ کا درجہ اختیار کرلیتی ہے۔ ہمیں اس تاریخی صداقت سے بھی اتفاق ہے کہ دنیا کی ہر زبان کے آغاز میں منظومات سب سے پہلے وجود میں آتی ہیں، اس کے بعد اس کا نثری سرمایہ جنم لیتاہے۔جہاں تک دنیا کے عظیم شعری کارناموں کے موضوعات کا تعلق ہے، ان میں رزمیہ اور بیانیہ شاعری کو ہمیشہ فوقیت حاصل رہی ہے۔
افلاطون چاہے اپنی مجوزہ ریاست میں شاعروں کو موزوں مقام نہ دے مگر معاشرے نے ہمیشہ ان کو اپنی آنکھوں پر بٹھایا اور صاحبانِ ذوق اور اربابِ دانش نے ہمیشہ شعر کو اپنے دل کی دھڑکن کے قریب محسوس کیا ہے۔شاعری دل کے جذبات سے آراستہ ہوکر ایک وجدانی کارنامہ سر انجام دیتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ بنی آدم جب کبھی اپنی خلوتوں میں کسی نوع کے جذباتی ارتعاش سے دوچار ہوتا ہے تو اظہارِ بیان کے لیے صرف اور صرف کسی نغمگی کیفیت کو تلاش کرتا ہے، جس کا بہترین وسیلہ شاعری ہے۔اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ شعر بچوں اور نوجوانوں کے جذبات کی تعمیر میں ایک اکسیر کا درجہ رکھتا ہے۔ یہ بہت جلد ان کے حافظے اور استحضار کا خزانہ بن جاتے ہیں۔ اس سے ان کی شخصی اور ذہنی تعمیر میں بہت پختگی پیدا ہوتی ہے۔ بشرطیکہ شعر صداقت کا حامل ہو اور اس کا انداز زبان و بیان کا شاہکار ہو۔ یہی باعث ہے کہ دنیا بھر میں بچوں کی ابتدائی تعلیم میں ننھی منی نظموں اور گیتوں کا التزام کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کسی بھی دعوت اور پیغام کی دل نشینی کے لیے نثر سے زیادہ نظم کارگر ہوتی ہے۔سیرت نبوی اور مدحت مصطفوی کا عربی زبان میں منظوم اظہار خود عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہوچکا تھا۔
بعض حضرات نے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے قبل کی مدحیہ شاعری کا بھی سراغ لگایا ہے۔قدیم صحف سماوی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد اور بعثت کے حوالے سے بہت سی پیشین گوئیاں موجود ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جد امجد کعب بن لوئی سے منسوب ایک قصیدے کا ذکر ملتا ہے کہ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کا ذکر موجود ہے۔
سیرت پر سب سے زیادہ علمی کام تو عربی ہی میں ہو ا ہے، اورایسا ہونا بھی چاہئے تھا مگر اس کے بعد اُردو زبان کا ذخیرہ ء سیرت بقیہ تمام زبانوں میں سب سے ممتازہے۔بیسویں صدی میں برصغیر میں سیرت نگاری کے جو درخشاں نقوش سامنے آئے وہ اس پورے دورانیے میں عرب میں بھی دکھائی نہیں دیتے۔ خوداُردو زبان کا تصنیفی سفرآٹھویں صدی ہجری میں شروع ہوتا ہے۔
بر صغیر میں اُردو زبان کی پہلی تصنیف کے بارے میں بہت سے محققین نے اپنے دعاوی پیش کیے ہیں۔ حامد حسن قادری نے ”داستان تاریخ اُردو” میں خواجہ سید شرف الدین جہانگیر سمنانی کے ایک تصوف کے رسالے کو جو ١٣٠٨ء میں لکھاگیا ـاُردو میں سب سے پہلی تصنیف ِ نثر قراردیا ہے۔اسی طرح اُردو کی جو کتاب نثر میں سب سے پہلے شائع ہوئی وہ خواجہ بندہ نواز گیسو دراز ١٤٢٢ء کی” معراج العاشقین” ہے۔ ویسے شیخ گنج العلم کے رسائل ِ تصوف کو جوبی ہند یا دکن کی سب سے پہلی اُردو تصنیف قراردیا گیا ہے۔شمالی ہند میں فضل علی فضلی کی وہ مجلس یا کربل کتھا پہلی نثری تصنیف ہے، جسے ١٧٣١ء میں لکھاگیا۔
بر صغیر میں سیرت نگاری کا سفر عربی میں شروع ہوا، پھر فارسی میں کتب لکھی جاتی رہیں۔ اُردو زبان میں سیرت کی ابتدائی کاوشیں نثر کے بجائے نظم میں ملتی ہیں۔ شاہ علی محمد جیو گام دھنی ١٥٦٥ء کے مجموعہ ء کلام میں ایک نظم ” معراج نبوی” کے موضوع پر ملتی ہے۔ان کے دیوان ”جواہر اسرار اللہ” میں میلاد کے موضوع پر بھی ایک نظم موجود ہے۔
بہر طور یہ بات محقق ہے کہ اُردو زبان میں منظوم سیرت کو نثری کتب پر ایک تقدم اور سبقت حاصل ہے۔ اُردو نثر میں سیرت، اُردو نظم کی نسبت دو سو سال بعد دکھائی دیتی ہے۔اُردو شعرا نے تقریباً تمام اصناف سخن اور جملہ بحور میں اس محبوبِ جہاں کے جمالِ دل رُبا اورمعمولات و تعلیمات کو کیسے کیسے پیرائے میں پیش کیا ہے۔ کہیں سوانحی تفصیلات ہیں تو کہیں معجزات کا بیان ہے۔ کسی جگہ شمائل کا ذکر ہے تو کسی جگہ غزوات کو منظوم کیا گیا ہے۔ کائنات کی یہ عجیب دل نواز شخصیت ہے کہ جس کے خصائص و خصائل کا بیان ہر دور میں نو بہ نو اسالیب میں پیش کیا گیا اور مستقبل اس کے حضور متنوع جہات نذرانہ ہائے عقیدت پیش کرتا رہے گا۔ گزشتہ دو سو سالوں میں میلاد اور مدحت کے موضوعات کے علاوہ مستقلاً سیرت و سوانح پر کافی مقدار میں کتابیں شائع ہوئی ہیں جن کا احاطہ کرنا اس مختصر مضمون میںممکن نہیں۔
میرا خیال ہے کبھی کبھی ولولہء عقیدت و محبت اور جوش جنوں سے ایسی چیز منصہ شہود پرجلوہ گر ہوجاتی ہے جن کی مثال پوری دنیا میں نہیں ملتی یا مشکل سے ملتی ہے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی والہانہ محبت بعض ماہرین علوم کو اس میدان میں لاکھڑا کردیتی ہے۔حضرت منیر احمد جامی ہمارے عہد کے فائق المرام مداح رسول ہیں۔ اس سے پہلے ان کے قلم سے ننانوے حمدوںو ننانوے نعتوں کا دل کش مجموعہ ”ارتفاع” کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔اور اب ہمارے سامنے ”وجہ کل” حیات و سیرت ِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم منظوم پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہے ہیں۔ یہ کتاب واقعی حیرت انگیزی کی مظہر ہے۔جامی نے اس کتاب کوممتاز سیرت نگار علامہ پیر محمد کرم شاہ ازہری کے نام سے منسوب کیا ہے۔ چوں کہ جامی نے ان کی کتاب ”ضیاء النبی” کو ہی بنیاد بناکر سیرت ِ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو منظوم کیا ہے۔گویا جامی نے” ضیاء النبی” کے کچھ حصہ کو جو سیرت نبوی سے متعلق ہے، کو منظوم قالب میں ڈھالا ہے۔اس لئے کتاب کی ترتیب بھی تقریباً وہی ہے۔
شعر و ادب سے جامی صاحب کی وابستگی فطری ہے بلکہ شعر گوئی آپ کا محبوب مشغلہ ہے اور نعت گوئی سے مداومت و رغبت آپ کی طبع اور بزرگوں کے فیض ِ محبت کی مرہون منت ہے۔میری دانست میں نعت گوئی یا سیرت نگاری کے لئے سب سے اہم شرط حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت اور خیال حفظِ مراتب ہے جب تک یہ نہ ہو کلام کے تمام داخلی و خارجی محاسن بھی اس کو وہ مہک اور دل گدازی نہیں بخش سکتے جو سید الانبیاء کی نسبت متوقع ہے، اس کے برعکس فاسد جذبات کا اظہار، رکیک تشبیہات و استعارات کا استعمال کیف و سرور کی جگہ ذہن پر بوجھ بنتا ہے اور طبیعت کو مکدر کردیتا ہے۔ان امور کو ملحوظ رکھ کر جب ہم منیر احمد جامی کی منظوم سیرت دیکھتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ آپ کو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلمسے قلبی لگاؤ ہے اور آپ کا کلام اس والہانہ لگاؤ کو منعکس کر رہا ہے، یہ ان کے واردات ِ قلبی کی عکاسی ہے جو پڑھنے اور سننے والے کے دل پر براہ راست اثر کرتی ہے۔ بعض اشعار تو ایسے بے ساختہ ہوئے ہیں کہ مرحبا کہنے کی طبیعت چاہتی ہے۔
حضرتِ جامی کے کلام سے عیاں ہے کہ آپ کو فن پردسترس حاصل ہے، لیکن جہاں تک زبان و بیان کا تعلق ہے آپ سادہ بیانی کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ ادق سے ادق مباحث بھی آپ نے حیرت انگیز سادگی سے بیان فرمائے ہیںاورسادگی کے باوجود کلام میں حلاوت ، برجستگی گہرائی و گیرائی بھی پائی جاتی ہے۔ جامی صاحب گرچہ تمام اصنافِ سخن میں برابر لکھتے رہے ہیں لیکن چند سالوں سے انھوں نے اپنی شعری صلاحیت کے اظہار کے لئے حمد، نعت اور بزرگانِ دین، اولیاء اللہ کی منقبت کے میدان کا انتخاب کیا ہوا ہے اور اپنی ذات اور محنت کو اس پر صرف کرکے اپنے لئے وسیلہء نجات اور ترقی درجات کا سامان کیا ہے۔ حضرت جامی نے اپنے اندرونی جذبہ اور ذات نبوی سے شیفتگی کی بنا پر حضرت حفیظ جالندھری وحضرت محسن کاکوروی کے نقش قدم پر چل کر اس کو اپنی ذات کے لئے وقف کردیا جس کی بہار کو خزاں اور جس کے کمال کو زوال نہیں۔ اس میں کامیابی و ناکامی کا سوال نہیں اس راہ کا ہر چلنے والا خواہ رفتاں و خیزاں چلے کامیاب و بامراد ہی رہے گا۔مدح، مداح ِ رسول کی اس خدمت کے لئے میرا قلم کانپ رہا ہے اورکچھ زیادہ لکھنے سے عاجز ہوں۔ بس دعا ہے کہ اللہ رب العزت جامی صاحب کی اس دلپذیر کاوش کو قبول فرمائے۔ ان کے لئے ، ان کے جملہ خاندان اور کتاب کے طابع وناشر کے لئے اس کو ذریعہ نجات بنائے۔ آمین
تحریر: عبد اللہ سلمان ریاض
E-mail: salmanpbh@gmail.com