تحریر : ابن نیاز
کعب بن اشرف ایک یہودی نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کی ہجو کرتا تھا اور قریش کو مسلمانوں کے خلاف ابھارتا تھا۔یہ یہودی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اور انکے واسطے سے اللہ کو اذیت دیتا تھا۔ رسول پاک ۖ کوکو ظاہر ہے، اس طرح کی باتوں سے ایذا پہنچتی تھی۔ لیکن چونکہ رسول اللہ ۖ کا ہر کام ، انکی زبان مبارک سے نکلنے والا ہر لفظ گویا وحی کی صورت ہوتا تھا، تو وہ خود سے فیصلہ نہ کر سکتے تھے۔ جب تک حکم ربی نہیں آیا تھا، آپ ۖ خاموش تھے۔ لیکن حضرت عمر فاروق کئی بار اٹھ کھڑے ہوئے تھے اور اپنی تلوار کو نیام سے نکال کر لہرا کر بارگاہِ رسالت میں عرض کی تھی کہ ان کو حکم دیا جائے وہ اس شاتمِ رسول، گستاخِ رسول ۖ کا سر تن سے جدا کر کے آپ ۖ کے قدموں میں ڈال دیں۔
لیکن جب تک رب کا حکم نہیں آیا تھا ، آپ ۖ انہیں یہ اجازت کیسے دے سکتے تھے۔ پھر جب اذن ہوا تھا آپ ۖ باقاعدہ صحابہ کرام کی محفل میں پوچھا کہ کون ہو گا جو اس کو رضائے الٰہی اور رضائے محمد مصطفی ۖ کے لیے جہنم واصل کرے۔ کئی صحابہ کرام یقیناً اٹھ کھڑے ہوئے ہوں گے، لیکن یہ سعادت بزورِ بازو نیست۔ قرعہ حضرت محمد بن مسلمہ کے نام نکلا۔ آپ گئے، اس کا سر تن سے جدا کیا اور پھر رسول پاک ۖ کو اطلاع دی کہ اس مردود و گستاخِ رسول ۖ کو اس کے کیفر کردار تک پہنچا دیا ہے۔ رسول پاک ۖ نے حضرت محمد بن مسلمہ کے لے دعائے خیر فرمائی۔
اسی طرح ایک اور ایک اور یہودی ابو رافع نے بھی رسول پاک ۖ کی شان میں گستاخی شروع کی ہوئی تھی۔ اور اپنے اس یہودی مردود کی پیروی میں لگا ہوا تھا۔ رسول پاک ۖ کی شان میںگستاخانہ باتیں پھیلاتا تھا۔ اور رسول پاک ۖ کے خلاف ہونے والی سازشوں میں آپ ۖ کے دشمنوں کا ساتھ دیتا تھا۔
صحابہ کرام تو کب کے اس کا سر تن سے جدا کرکے اس کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر چکے ہوتے لیکن آپ ۖ کی وجہ سے خاموش تھے۔ پھر جیسے ہی حکم الٰہی آیا تو رسول پاک ۖ نے اس یہودی کو قتل کرنے کے لیے چند انصار کو نامزد فرمایا۔ جن کی تعداد تین تھی۔ ان کا امیر انہی میں سے ایک حضرت عبد اللہ بن عتیک کو مقررفرمایا۔جب یہ جانبازغازی کامیاب ہو کر واپس لوٹے تو اس وقت رسول پاک ۖ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ جونہی رسول اللہ ۖ کی نظر مبارک ان صحابہ کرام پر پڑی ، پکار اٹھے۔ افلحت الوجوہ۔ یہ چہرے کامیاب ہو گئے۔
آقا علیہ السلام اپنے جانثار صحابہ کی مجلس میں تشریف فرما تھے، چودھویں کے روشن چاندکے گرداگرد ستاروں کی حسین محفل۔۔۔ ایک قتل کا مقدمہ درپیش تھا، ایک باندی کو کسی نے قتل کردیا تھا اور قاتل کا کچھ پتہ نہ تھا، مقدمہ کی صورت حال پیچیدہ ہورہی تھی، جب کسی طرح قاتل کا نشان معلوم نہ ہوا تو آقا علیہ السلام نے اہل مجلس سے مخاطب ہوکر فرمایا: “جس شخص نے بھی یہ کام کیا ہے، اور میرا اس پر حق ہے تو اسے میں اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ وہ کھڑا ہو جائے”۔
آقا علیہ السلام کی زبان مبارک سے یہ الفاظ سن کر ایک نابینا شخص اس حالت میں کھڑا ہوگیا کہ اس کا بدن کانپ رہا تھا، اور کہنے لگا کہ: “یارسول اللہ میں اس کا قاتل ہوں، یہ میری ام ولد تھی اور اس کی میرے ساتھ بہت محبت اور رفاقت تھی، اس سے میرے دو موتیوں جیسے خوبصورت بچے بھی تھے، لیکن یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کیا کرتی اور آپ کو برا بھلا کہا کرتی تھی، میں اسے روکتا مگر یہ نہ رکتی، میں اسے دھمکاتا پریہ باز نہ آتی۔ کل رات اس نے آپ کا ذکر کیا اور آپ کی شان اقدس میں گستاخی کی تو میں نے ایک چھری اٹھائی اور اس کے پیٹ پر رکھ کر اس چھری پر اپنا بوجھ ڈال دیا یہاں تک کہ یہ مر گئی”۔
نابینا صحابی یہ سارا واقعہ سنا کر خاموش ہو چکے تھے۔ معاملہ بہت نازک اور کیس سیدھا سیدھا “دہشت گردی” بلکہ “فوجی عدالت” کا تھا۔ ایک شخص نے “قانون ہاتھ میں لے لیا تھا۔” “از خود مدعی اور از خود جج” بنتے ہوئے ایک انسان کو قتل کردیا تھا۔۔ “حکومت کی رٹ” چیلنج ہوچکی تھی۔ حکومت بھی کسی راحیل، پرویز، زرداری یا نواز کی نہیں، خود سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی۔۔۔ “محض مذہبی جذبات” کی بنائ پر ایک انسان کو قتل کیا جاچکا تھا۔
عدالت میں کوئی کیس، تھانے میں کوئی رپٹ درج کرائے بغیر۔۔۔۔۔!! “مذہبی جنونیت” کی روک تھام شاید بہت ضروری تھی اور “جذباتیت” کا قلع قمع بھی۔۔۔۔ پھر وہ لب ہلے جو “ان ھو الا وحی یوحی” کی سند لئے ہوئے تھے۔ جن کا ہلنا بھی وحی، جن کا خاموش رہنا بھی وحی تھا، جن سے نکلے ہوئے الفاظ قیامت تک کے لئے قانون بن جاتے تھے، جن کا غصہ بھی برحق اور جن کا رحم بھی برحق تھا، جو جان بوجھ کر باطل کہہ نہیں سکتے تھے اور خطا پر ان کا رب ان کو باقی رہنے نہیں دیتا تھا۔
سب کان ہمہ تن گوش تھے فضائ میں ایک آواز گونجی، وہی آواز جو سراہا حق تھی۔۔۔ “الا۔۔۔! اشھدوا۔۔۔! ان دمھا ھدر” “سنو۔۔۔! گواہ ہو جاؤ۔۔۔۔! اس لونڈی کا خون رائگاں ہے” (اس کا کوئی قصاص نہیں)۔
تحریر : ابن نیاز