تحریر : انجینئر افتخار چودھری
لگتا ہے وزارت انفارمیشن کا کام ڈس انفارمیشن ہے ۔میں تو کئی بار ان کالموں میں لکھ چکا ہوں کہ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے اب الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے علاوہ سوشل میڈیا بھی موجود ہے جہاں دل کی بات کی جا سکتی ہے ۔کچھ لوگوں کو حکومتوں نے یہ ذمہ داری دے دی ہے کہ وہ مسلسل جھوٹ بولیں ماضی قریب میں جناب رحمن ملک کا یہ کام ہوتا تھا کہ فوری جھوٹ بولنے کے لئے تیار رہیں۔اس سے قبل مشرف دور میں یہ ذمہ داری جناب شیخ کی ہوا کرتی تھی کہ جو ایوان صدر سے فرمان آئے اس کی تاید کرنی ہے۔مشاہد حسین کے کڑاکے کڈ دینے والی بات کسی کو نہیں بھولی ہو گی جو جناب نواز شریف کو مشورہ دیا کرتے تھے کہ میاں صاحب کڈ کڑاکے دیو۔جب مشرفی ٹولے نے اس ملک میں نام نہاد جمہوریت کی منجی الٹی تو نہ مشاہد نظر آئے اور نہ ان کے کڑاکے بلکہ انہوں نے آستانہ ء گجراتیہ پر بیعت کر کے راہ نجات پائی۔میاں صاحب کو قدم بڑھائو نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں کہنے والے گدھے کے سینگوں کی طرح غائب ہو گئے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ کہ وزارت اطلاعات کا کام حکومتی مو ئقف کو بیان کرنا ہوتا ہے مگر ہمارے پرویز رشید کا کام ہے شاہ سے زیادہ وفاداری کرنا۔مجھے کبھی کبھی ترس آتا ہے ان پر ساری عمر لیفٹ کی سیاست کی بھٹو کے نظریے کے پر چارک رہے اور آخری عمر میں میاں کے گن گانے لگے۔
یہی کام مسلم لیگ کے عظیم فنکار عرفان صدیقی بھی کرتے رہے پوری قوم کو طالبان کی محبت میں مدہوش کئے رکھا۔جنرل مشرف کی پالیسیوں کی ببانگ دہل مخالفت کی اور جب سرکاری ٹی وی ان کے قابو میں آیا تو میٹینگ میں فرمایا کہ سرکاری پالیسی اپنائی جائے اور وہاں ہال میں بیٹھے لوگ ان سے پوچھتے رہے وہ ہے کیا؟فرمایاطالبان کی مخالفت کرنی ہے۔ ہم ان کے کالموں سے روشنی پاتے رہے ان دنوں میاں نواز شریف کے ساتھی ہونے کی پاداش میں جدہ ترحیل جیل کے مہمان تھے عرفان صدیقی کے کالم ہی تھے جو ہمیں حوصلہ دیتے پھر پہلے نوائے وقت چھوڑا اور بعد میں قبلہ واشنگٹن بنا لیا۔ ذہانت جب مجبوریوں کا کمبل اوڑھتی ہے تو ان جیسے قلمی تیس مار خانوں کی الٹ بازیاں ایسے ہی نظر آتی ہیں۔ایک اور دانشور ہیں جن سے بڑے عرصے کا تعلق ہے میں جنرل مشرف دور میں ان کی اس بات کو کبھی نہیں بھول سکتا جب جدہ سے فون کر کے کہا کہ موصوف تو لمبا عرصہ رہنے کا پلان رکھتے ہیں جواب آیا ہمیں کیا اعتراض ہے۔سچ پوچھیں لوگ تف اور لعنت بھیجتے ہیں ایسے کرداروں پر جو صرف پاپی پیٹ کے لئے پاپڑ بیلتے رہتے ہیں۔بنی حافظ کے صاحبزادہ منظور نے کیا خوب کہا تھا زمین اس سورج کے گرد ٣٦٠ دنوں میں چکر مکمل کرتی ہے مگر انسان ساٹھ ستر اسی سال جتنا بھی جیتا ہے اس پاپی پیٹ کے چکر کاٹتا رہتا ہے اور آخر کار اس سمیت کھڈے میں گر جاتا ہے۔
بات لمبی ہو رہی ہے میں آج پشاور کے واقعے کے بارے میں کچھ کہنا چاہتا ہوں پورا میڈیا ان چند لوگوں کے بارے میں کہتا رہا جنہوں نے عمران خان کے آنے پر اعتراض کیا گو عمران گو کے نعرے لگائے۔چلیں ان اعتراضات کو بھی مان لیتے ہیں اور ان کا جواب بھی حاضر خدمت کرتے ہیں۔پہلا اعتراض ہے کہ خان آج کیوں آئے ہیں پہلے کیوں نہیں آئے؟ان کا کہنا تھا جب سکول دوبارہ کھلا ہے تو اپنی بیگم کے ساتھ سیر کے لئے نکلے ہیں۔ اس لایعنی قسم کے سوال کرنے والوں کو بخوبی علم ہے کہ خان جنیوا لندن کے لئے ہنی مون کے لئے نہیں نکلے۔ان سے بس اتنا پوچھنا ہے بیگم کلثوم پشاور آنے کی بجائے امریکی خواتین سے گپ شپ میں مشغول رہیں، کیا کوئی جواب ہے پرویز رشید کے پاس۔عمران خان واقعے کے بعد پشاور پہنچے تھے والدین کے دکھ میں شریک ہوئے تھے والدین ان کے گلے لگ کر روئے تھے۔جب سکول کھلا تو انہوں نے جانے کی خواہش کا اظہار کیا تو انہیں جواب ملا کہ آرمی چیف آ رہے ہیں آپ نہیں آ سکتے۔چلئے ہم اسے بھی درست مانتے ہیں کہ سیکورٹی معاملات ایک سیولین کو فوجی قیادت کے ساتھ بیک وقت دورہ کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ سوال یہ بھی ہے کہ غصہ صرف عمران خان کے اوپر کیوں؟ کیا پشاور پاکستان کا حصہ نہیں ہے میاں نواز شریف وزیر داخلہ کو کیوں بخشا جا رہا ہے؟وہ کیوں نہیں گئے وزیر داخلہ کہاں ہے؟ عمران خان دلیر آدمی ہے اس نے پیڈ آدمیوں کے تیز و تند سوالوں پر خاموشی اختیار کر کے ثابت کیا کہ وہ دل گردے والا شخص ہے سینکڑوں میں کھڑا رہا اسے علم تھا کہ وہ اس شہر کا اس ملک کا ہیرو ہے ہے اسفند یار ولی مولانا فضل یا کسی اور لیڈر کی کہ وہ اس طرح لوگوں میں کھڑا رہے۔گو عمران گو کے نعرے لگانے والوں کا خندہ پیشانی سے سامنا کیا۔یہ تو عمران خان ہے گو نوز گو کے نعرے لگانے پر خاندان شریفیہ کے ایک شہزادے حمزہ شہباز شریف نے جناح باغ لاہور میں ایک نوجوان کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا؟پنجاب پولیس کی طرح کے پی کے پولیس ہوتی تو ان ایجینٹوں کا دھواں نکال دیتی۔آپ فوٹیج میں اسسیکورٹی والے باریش نوجوان کو دیکھیں جو احتجاج کرنے والے کا ماتھا چوم رہا ہے۔لاہوری پولیس ہوتی تو ہڈیاں توڑ دیتی۔
پرویز رشید اور پیڈ میڈیا کے ایجینٹوں کو خیال کرنا چاہئے جو بچوں کی آوازیں نہیں سن سکے جنہوں نے عمران خان کے آنے پر آئی آئی پی ٹی آئی اور عمران خان زندہ باد کے نعرے لگائے۔ اور وہ اپنے محبوب قائد کے آٹو گراف لینے دوڑ پڑے۔ لگتا ہے ایک مخصوص لابی اچھے سیاست دانوں کی کردار کشی کر رہی ہے انہیں بد نام کر رہی ہے اور خیمے میں اونٹ داخل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔جان کیری کے آنے پر دو دن پنڈی بند رہا کسی نے بات نہیں کی مگر خان کی ٢١ گاڑیاں سب کے ذہنوں میں ڈالی جا رہی ہیں چینیلز اس فلم کو تیزی سے بڑھتا دکھا رہے ہیں۔ان میں پانچ گاڑیاں چیف منسٹر کے اسکواڈ کی ہیں چھ دو مختلف منسٹرز کے ساتھ چلنے والی ہیں باقی دیگر محکموں کے چیفس کی ہیں جو خان کو وہاں لے جا رہے تھے۔ جس صوبے میں قتل و غارت کا بازار گرم ہو وہاں عمران خان کی جان کی حفاظت کے لئے اتنی گاڑیاں کیا معنی رکھتی ہیں؟میں یاد کرا دیتا ہوں اس واقعے کو جب پرویز خٹک اپنے وزیر عاطف اور دیگر دو منسٹرز ایک ہی گاڑی میں راوی پل سے گزرے تو پولیس نے ماننے سے انکار کر دیا کہ یہ چیف منسٹر ہے جس کے آگے پیچھے کوئی شور شرابہ نہیں۔مزے کی بات ہے انہوں نے بھتہ دے کر جاں خلاصی کرائی۔
عمران خان جیسا دلیر لیڈر مائیں کبھی کبھی پیدا کرتی ہیں۔میں پوچھنا چاہوں گا سرحدی گاندھی کے پیرو کار اسفند یار ولی سے کہ جب ایک پٹاخہ چلا تو پانچ سال صوبے کا رخ کیوں نہیں کیا ؟اس وقت سرخ ٹوپی والوں کی شلواریں گیلیں ہوتی رہیں آج وہ بزدلوں کی طرح چھپ چھپ کر مخالفت کرتے ہیں۔اس دن ان کا ایک سنپولیہ مجھے ٹاک شو کے بعد دھمکی دے رہا تھا کہ میں تمہیں گولی مار دوں گا۔اس جاہل کے ساتھ جو کچھ میں نے کیا وہ یاد رکھے گا۔پختونوں کا خون بیچنے والے ایزی لوڈ ڈلواتے رہے اور آخر کار ایک گندی تلچھٹ کی طرح انہیں پختونوں نے باہر گندی نالی میں پھینک کر ثابت کیا کہ پختون عمران کے ساتھ ہیں۔جن کے بڑوں نے پاکستان میں دفن ہونا قبول نہیں کیا وہ فرزند پاکستان عمران خان کا کیا بگاڑ سکتے ہیں؟یقینا اس واقعے کو ہونے سے روکا جا سکتا تھا اور اس کی تحقیق بھی ہونا چاہئے۔جو مائیں خان کے گریبان کو پکڑ کر چیختی رہیں ہم ان کے جذبات کی قدر کرتے ہیں کاش وہ یہ بھی سمجھ لیتیں کہ خیبر پختونخواہ عالمی سازش کا شکار ہے خود خان کی حکومت اس کا شکار ہے۔ضرور ذمہ داری پرویز خٹک کی ہے مگر فوجی ایریہ میں ہونے والے واقعے کی کلی ذمہ داری پرویز خٹک پر ڈالنا بھی مناسب نہیں ہم سارے دشمن کے وار سے مارے گئے ہیں اس میں من و تو نہیں ہونا چاہئے۔فوج اور سول سب عالمی سازش کا شکار ہیں۔فوج بھی تو ہماری ہے لہذہ اس وقت سرپھٹول کرنے کی بجائے لمبی جنگ لڑنے کی تیاری کی جائے ایک ایسی جنگ جسے ہم زبردستی بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانے کی مانند کھینچ کر اپنے آنگن میں لے آئے ہیں۔نصیب جلیں جنرل مشرف کے کہ جس نے سب سے پہلے پاکستان کا بے غیرتانہ نعرہ لگایا اور ہمارے مغربی بارڈر کو خطر ناک بنا دیا۔ اور ان لوگوں سے بے وفائی کی جو پاکستان کی مضبوط دیوار تھے۔
بھارتی جاسوس کا بیان آپ پڑھ چکے ہو گئے جو ابانڈیا کا قومی سلامتی کا چیف ہے وہ سر عام کہہ رہا ہے کہ پاکستان کو کس طرح ختم کرنا ہے۔ہم نے اپنے ازلی دشمن کو تو نہیں پہچانا آپس میں گتھم گتھا ہو گئے ہیں۔ ہمیں اب الجھا الجھا کے ماریں گے کبھی فاٹا میں کبھی بلوچستان میں اور کبھی سندھ میں۔ اس موقع پر پرویز رشید کو نون لیگ کا نہیںپاکستان کا وزیر اطلاعات کا کردار ادا کرنا چاہئے۔یہ کے پی کے پولیس اگر پنجاب پولیس ہوتی تو لاشیں گر سکتی تھیں اور نیا تماشہ بن سکتا تھا شائد پاکستان کا دشمن یہی چاہتا ہو۔ میں اسلم درانی پولیس چیف کو سلام پیش کرتا ہوں جن کے جوانوں نے انتہائی صبر کا مظاہرہ کیا۔ لیکن جب پرویز رشیدیات شروع ہوئیں تو مجھے انڈین فلم کی وہ چپڑی چپڑی چاچی یاد آ گئی جو جہاں جاتی ہے لڑائی جھگڑا ڈال دیتی ہے۔یہ ایک ایسی لڑاکا پھوپھی ہے جو شادی والے گھر میں رس اور چائے پر گڑ مچڑ مچا دیتی ہے اور شادی والے گھر کو سوگوار کر دیتی ہے ۔سوال یہ بھی اٹھا کہ خان صاحب بیوی کے ساتھ سیر کرنے آئے ہیں یہ کس شرارتی ذہن کی سوچ تھی خان اگر سیر کرنے جاتا تو جنیوا لندن جاتا وہ تو بیگم کو لے کر مفتی سعید کے مدرسے گیا اور اب منگل کو جدہ جا رہا ہے عمرے کے لئے۔ایسی سوچ پر افسوس کرنے کی بجائے کیا کیا جا سکتا ہے۔ریحام خان دلہن بننے کے بعد اللہ کے گھر اور مدرسے میں اس وقت گئی جب مدارس کو جلانے کی بات ہو رہی تھی وہ ولیمہ مدرسے کے بچوں کے ساتھ مناتی ہے اور پشاور سے مکہ المکرمہ جا رہی ہے۔مجھے تو ایسے لگتا ہے کہ اکیلا خان کبڈی ڈالنے آیا ہے اور پوری پارلیمنٹ درمیان میں ووٹوں کا ڈبہ رکھ کر اس کی حفاظت کر رہی ہے۔اس ڈبے میں ہے کیا ؟اس چولی کے پیچھے چھپا کیا ہے؟ اسے تو سامنے لائو جس اسمبلی کا اسپیکر اس ہال میں اجنبی ہو اس اسمبلی کا اللہ ہی حافظ ہے۔ جب تک قومی سانحوں پر سیاست دان سر پھٹول کرتے رہیں گے۔ یاد رکھئے چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں۔اللہ نہ کرے۔
تحریر : انجینئر افتخار چودھری