تحریر : سید انور محمود
سابق پاکستانی صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے 3 دسمبر کو ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے اُس کے اینکر پرسن کامران شاہد کے بہت سارئے سوالوں کے جوابات دیئے۔ ایک سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا کہ بھارتی وزیر اعظم کے ساتھ ملاقات برابری کی سطح پر ہونی چاہئے، اگر میں اوفا میں ہوتا تو مودی کی بدتمیزی کے جواب میں پہلے اُس کے وزرا سے ہاتھ ملاتا تاکہ اُسکو احساس ہوتا کہ ایک مہمان اور ایک ملک کے سربراہ کے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہیے۔سابق صدر پرویز مشرف نے کہا ہے کہ بھارتی ہندو انتہا پسند جماعت شیوسینا دہشتگرد تنظیم ہے اس پر پابندی عائدہونی چاہئے، جس طرح وہ ہم سے مطالبے کرتے ہیں لشکر طیبہ اور حافظ سعید کے بارئے میں ،بلکل اُسی جارحانہ انداز میں ہمیں شیوسینا دہشتگردوں کے بارئے میں بات کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت میں مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا ہے۔سابق صدر نے1979ء کی جنرل (ر) ضیاءالحق کی پالیسی کا دفاع کیا جسکی صاف وجہ سمجھ آتی ہے کہ خود پرویز مشرف نے بھی 9/11 کے بعد امریکہ کا ساتھ دیا تھا، پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ سویت یونین کی فورسز کو نکالنا ملک کے مفاد میں تھا۔ پرویز مشرف کی ہمیشہ سے یہ پالیسی رہی ہے کہ اپنے سابق ادارے یا اُس کے حاضر یا سابق جنرلوں کے خلاف کچھ نہ کہا جائے۔
پرویز مشرف نے کہا کہ مجھ پر الزام لگانے والوں سے پوچھا جائے کہ بینظیربھٹو اور نواز شریف کے دور میں کیا ہوا؟ طالبان کی تنظیم اُنکے زمانے میں ہی بنی ہے، انہوں نے کہا کہ سال 1999ء میں ہم ناکام ملک قرار دیے جانے والے تھے، میرئے نواز شریف کے ساتھ کسی قسم کے اختلاف نہیں تھے، ایک ماہ پہلے وہ مجھے اور میری بیگم کو اپنے ساتھ عمرئے پر لے گے تھے۔ ایم کیو ایم سے اپنے اتحاد کے بارئے میں سابق صدر کا کہنا تھا کہ میں نے اپنے دور میں کراچی میں کئی نو گو ایریاز ختم کیئے تھے۔ عمران خان کے بارئے میں اُنکا کہنا تھا کہ عمران خان سمجھدار لیڈر نہیں ہے لیکن پھر بھی نوجوان اُنہیں پسند کرتے ہیں، عمران خان کی ہر تقریر میں رونا دھونا ہوتا ہے،عمران خان کے بیانات میں ٹھراوُ نہیں ہوتا۔ ایک سوال کے جواب میں اُنکا کہنا تھا کہ یہ کہنا کہ میں مردم شناس نہیں ہوں، ایسا نہیں ہے، وہ جو کبھی میرئے دور میں میرئے ساتھ تھے آج نواز شریف کی کابینہ میں موجود ہیں یہ وہ لوٹے ہیں جو انتخابات کے زریعے آئے تھے، میرئے پہلے تین سال میں وہ لوگ جن کو میں نے چنا تھا ، اُن تیرہ چودہ لوگوں میں سے ایک بھی نواز شریف کے ساتھ نہیں ہے۔ سابق صدر پرویز مشرف نے مزید کہا کہ ملک میں لیڈرشپ اور گورنس کمزور ہے،لیڈرشپ کمزور ہو تو ظاہر ہو جاتی ہے۔ اگر حکومت بدعنوانیوں میں ملوث ہوگی تو لازمی ایسی حکومت کمزور ہوگی اور پھر وہ فوج کی طرف دیکھے گی، لیکن اگر حکومت کی گورنس مضبوط ہے اور وہ کسی بدعنوانی ملوث نہیں ہے تو پھر اسکو کوئی خوف نہیں ہونا چاہیے۔ ایسا ہونے کی صورت میں فوج اُنکے کہنے کے مطابق چلے گی۔
جیو اور جنگ گروپ کا ایک صحافی حامد میر جو ہمیشہ اپنے پروگرام “کیپٹل ٹاک ” میں کوشش کرتا ہے کہ پاک فوج کے خلاف بات کی جائے اور کسی نہ کسی طرح پرویز مشرف کے خلاف کچھ نہ کچھ کہا جائے۔ بلوچستان کے گمشدہ لوگ ہوں، یا پرویز مشرف کیس حامد میر نے اپنا ذہن فوج کے خلاف بنایا ہوا ہے، پرویز مشرف کیس میں وہ پرویز مشرف کی مخالفت میں ذاتی ہوجاتا ہے۔ اسکے علاوہ وہ کوئی موقعہ نہیں چھوڑتا جب روزانہ اپنے پروگرام کیپٹل ٹاک میں بہانے بہانے سے فوج کو اور خاصکر آئی ایس آئی کو بدنام کرنے کی کوشش نہ کرتا ہو۔ کچھ دن قبل کیپٹل ٹی وی کے پروگرام “فرینڈلی اپوزیشن” میں حامد میر نے سابق صدر پرویز مشرف پر الزام لگایا تھا کہ 3 نومبر2007ء کی ایمرجنسی کے بعد سابق صدر پرویز مشرف نے مجھے خریدنے کی کوشش کی اور مجھے پندرہ کروڑ روپےکی پیشکش کی تھی۔ حامد میر کے مطابق پرویزمشرف چاہتے تھے کہ میں ان کے ساتھ مل جاؤں مگر میں نے اُن کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ سابق صدر پرویز مشرف کا جواب تھا کہ میں نے تو اُسکو کوئی پیشکش نہیں کی، لیکن اگر وہ مجھ کو پندرہ کروڑ روپےد ئے میں تب بھی اُسے اپنے ساتھ شامل نہیں کروں گا، ابھی تک حامد میر کا کوئی جواب سامنے نہیں آیا ہے۔
سابق صدر پرویز مشرف کے حکومت پرتنقیدی انٹرویو کے کچھ دیر بعد وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز بھی میدان میں آگئیں لیکن اُن کا انداز ایسا ہی تھا کہ جیسےاُنکے والد نواز شریف صاحب اس ملک کے بادشاہ ہیں اور وہ شہزادی ۔ انہوں نے ایک ٹویٹ میں مشرف پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اُن کو حکومت کی کارکردگی پر تبصرہ کرنے کی اجازت کس نے دی۔ انہوں نے سوال کیا کہ اب غداری کیس کا ملزم ہمیں بتائے گا کہ حکومت کس طرح کرنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سماجی ویب سائٹ پر احتجاج میرا حق ہے۔ایک گمنام ٹویٹ آئی کہ پھر بتایا جائے کہ غداری کے ملزم پر پابندی کیوں نہیں لگائی گئی جس کے جواب میں مریم نواز نے ٹویٹ کی کہ حکومت کو فوری پابندی لگانی چاہئے۔ مریم نواز کو معلوم ہوگا کہ جیسے وہ غدار کہہ رہی ہیں اُسی پرویز مشرف کو اُنکے والد نے آرمی چیف مقرر کیا تھا۔ وہ شکر کریں کے آج اُنکے والد نہ صرف زندہ ہیں بلکہ اس وقت تیسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بھی ہیں۔ کم از کم پرویز مشرف نواز شریف کے سیاسی باپ ضیاء الحق کی طرح ظالم ثابت نہیں ہوا جس نے ایک عوامی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی تھی، جس کو آج بھی عدالتی قتل کہا جاتا ہے۔
لیکن نواز شریف کو جیسے ہی موقعہ ملا انہوں نے پہلی فرصت میں مشرف سے اپنا بدلا لینے کی ابتدا کردی، راولپنڈی میں محرم کے دوران فسادات ہوئے تھے اور اس واقعہ پر بات کرنے کے بجائے وزیر داخلہ نے پرویز مشرف کے خلاف مقدمے کا اعلان کر دیا تھا۔ حکومت اور ایف آئی اے نے پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کیا تھا، جس کا کوئی اخلاقی اور سیاسی جواز نہیں تھا، اور آج اُسی مقدمے کی بنیاد پر مریم نواز پرویز مشرف کو غدار کہہ کر پکار رہی ہیں۔نواز شریف 2013ء کے انتخابات جیتنے اور وزیر اعظم بننے کے بعد وہ اور اُنکے وزرا ایک سال تک مذاکرات کے نام پر پوری قوم کو دھوکا دے رہے تھے۔ آٹھ جون کو کراچی ایئرپورٹ پرحملے کے بعد اتوار 15 جون 2014ءکو افواج پاکستان نے طالبان دہشتگردوں کے خلاف ایک بھرپور آپریشن کا آغاز کیا۔
نواز شریف کو مجبوراً آپریشن کی منظوری دینا پڑی یا افواج پاکستان کے آپریشن کے مشورہ کو قبول کرنا پڑا اسکے علاوہ اُنکے پاس اور کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا کیونکہ پوری قوم افواج پاکستان کے ساتھ کھڑی تھی۔ وفاقی حکومت نے چار ستمبر 2013ء کو کراچی میں رینجرز کی سربراہی میں ٹارگٹڈ آپریشن کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’وفاقی سول اور ملٹری انٹیلی جنس ایجنسیوں کے پاس سینکڑوں شرپسند عناصر کے نام ہیں جن کے خلاف رینجرز کی سربراہی میں ٹارگٹڈ آپریشن ہو گا۔‘ لیکن گذشتہ ایک سال میں جو حالات اور واقعات سامنے آئے ہیں اُس سے یہ بات واضع ہوگئی ہے کہ مرکزی اورصوبائی حکومتیں آپریشن ضرب عضب اور کراچی میں رینجرز کی سربراہی میں ٹارگٹڈ آپریشن میں اپنا وہ کردار ادا نہیں کررہی ہیں جو اُنہیں کرنا چاہیے۔ یہ ہی وجہ ہے
آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی جانب سے آپریشن کے بہتر نتائج کیلئے گڈ گورننس کی ناگزیریت کا اظہار کیا گیا اور وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کی جانب سے گڈ گورننس کیلئے مہلت و وقت کی فراہمی کےلیے کہا گیا۔افواج پاکستان نے پاکستان کے سرحدی و جغرافیائی تحفظ کے ساتھ اُسے اندرونی بیرونی سازشوں سے محفوظ بنانے اور دہشتگردی کی لعنت کو جڑ سے اکھاڑنے کا فریضہ جس جانفشانی ‘ دیانتداری ‘ فرض شناسی اور حب الوطنی سے اداکیا ہے پوری قوم اس کی معترف ہے اور اپنی افواج پر فخر واعتماد کے اظہار کے ساتھ اسے خراج تحسین بھی پیش کرتی ہے مگرملک میں پائیدار امن کیلئے حکومت کی فعالیت ‘ حکومتی دیانتداری و فرض شناسی ‘ حکمرانوں کی حب الوطنی اور گڈ گورننس بھی شرط ہے جو اب تک قوم کو کہیں دکھائی نہیں دی ہے
جبکہ دو سال سے زائد کا عرصہ گزارنے والی حکومت کے وزیر دفاع کا گڈ گورننس کیلئے وقت و مہلت کی طلبی کا بیان عوام کیلئے انتہائی تعجب انگیز ہی نہیں بلکہ فکر انگیز اور تشویشناک بھی ہے اور انہی بنیاد پر سابق صدر پرویز مشرف نے نواز شریف حکومت پر تنقید کی ہے۔مریم نواز کو معلوم ہونا چاہیے کہ پرویز مشرف بھی اُتنے ہی پاکستانی ہیں جتنی وہ یا اُنکے والد۔ پاکستان کا آئین پرویز مشرف کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ نواز شریف یا زرداری حکومت کی کارکردگی پر تبصرہ کرسکتے ہیں، مریم نواز بھی مشرف حکومت پر تنقید کرنے کا حق رکھتی ہیں
لیکن اُن کا یہ سوال کرنا کہ “مشرف کو حکومت کی کارکردگی پر تبصرہ کرنے کی اجازت کس نے دی”، اسکا انکو کوئی حق نہیں۔ اور جہاں تک مریم نواز کا یہ سوال کہ “اب غداری کیس کا ملزم ہمیں بتائے گا کہ حکومت کس طرح کرنی ہے”؟۔ تو اُنہیں معلوم ہوگا کہ ملزم اور مجرم میں کیا فرق ہوتا ہے، پرویز مشرف ابھی مجرم نہیں ملزم ہیں وہ بھی نواز شریف کی ذاتی عداوت کی وجہ سے۔ مریم نواز کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ پاکستان کے مالک اُسکے 20 کروڑ عوام ہیں، شریف خاندان نہیں۔
تحریر : سید انور محمود